وہ، جو ہم پر مسلط رہے۔۔

قدرت اللہ شہاب

میرے (بطور سیکریٹری ٹو گورنر جنرل) چارج لینے کے چند روز بعد نومبر میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے گورنر جنرل (ملک غلام محمد) کو ایک استقبالیہ پر مدعو کیا۔ استقبالیہ سے چند گھٹے قبل مجھے انٹیلی جنس کی ایک اسپیشل رپورٹ موصول ہوئی، جس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ جب گورنر جنرل کارپوریشن کے استقبالیے میں شریک ہونے جائیں گے تو راستے میں شاید کچھ لوگ مظاہرہ کریں اور مخالفانہ نعرے لگائیں۔ میں اس رپورٹ کو فوراً مسٹر غلام محمد کے پاس لے گیا۔ اُسے پڑھتے ہی ان کا رنگ زرد پڑ گیا۔ وہ کچھ دیر سناٹے کے عالم میں رہے۔ پھر بولے کہ میں یہ رپورٹ لے کر وزیر داخلہ اسکندر مرزا اور وزیر دفاع ایوب خان کے پاس جاؤں اور اُن سے کہوں کہ وہ دونوں گورنر جنرل کے ساتھ ان کی گاڑی میں کراچی کارپوریشن چلیں۔

اسکندر مرزا صاحب کے دفتر پہنچ کر میں نے انہیں انٹیلی جنس کی رپورٹ دکھائی اور گورنر جنرل کا پیغام سنایا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں خی خی کر کے خوب ہنسے اور بولے ”بڈھا بہت زیادہ ڈر گیا ہے۔ اس قدر خوف کی بات نہیں۔ چلو ایوب سے چل کر بات کرتے ہیں۔“

اسکندر مرزا صاحب کی گاڑی میں بیٹھ کر ہم ایوب خان کے پاس پہنچے۔ دونوں پہلے کچھ دیر آپس میں کھسر پھسر کرتے رہے۔ پھر زور سے قہقہے لگا کر گورنر جنرل کی خوفزدگی کا مذاق اڑاتے رہے۔ پھر مجھ سے کہا کہ میں واپس جا کر مسٹر غلام محمد کو تسلی دوں کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ وہ شوق سے کارپوریشن کے استقبالیہ میں تشریف لے جائیں۔

میں نے جواب دیا کہ گورنر جنرل میری زبانی بات پر یقین نہ کریں گے، اگر وہ یہی بات لکھ کر دے دیں تو بہتر۔

یہ سن کر اسکندر مرزا نے فوراً اپنا قلم نکالا اور انٹیلی جنس رپورٹ کے حاشیے پر ایک نوٹ لکھ دیا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں گورنر جنرل کو مکمل یقین دلاتا ہوں کہ حالات پوری طرح قابو میں ہیں، وہ بے فکری سے کارپوریشن کے جلسے میں جائیں۔ راستے میں کوئی گڑ بڑ نہ ہوگی۔

تیسرے پہر میں مسٹر غلام محمد کے ساتھ اُن کی کار میں بیٹھا اور ہمارا قافلہ کراچی کارپوریشن کی طرف روانہ ہوا۔ ہمارے آگے پیچھے مسلح پولیس کی اتنی کثرت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ ہم استقبالیہ میں شریک ہونے نہیں جا رہے بلکہ کوئی مورچہ فتح کرنے جا رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان پڑی تھیں اور اکا دکا راہگیروں کو بھی پولیس والے لاٹھیوں سے کھدیڑ کر گلی کوچوں میں بھگا رہے تھے۔ راستے میں اس قدر امن و امان دیکھ کر مسٹر غلام محمد ایک دم شیر ہو گئے۔ انہوں نے اپنی چھڑی کا ہینڈل میری پسلیوں میں چبھو کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور انٹیلی جنس والوں کو موٹی سی گالی دے کر کہا ”کہاں گئے میرے خلاف مظاہرہ کرنے والے؟ کہاں مر گئے میرے خلاف نعرے لگانے والے؟“

میں نے پولیس کے انتظام کی کچھ تعریف کی تو انہوں نے پولیس والوں کو بھی بڑی سخت گالی دی اور اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر بولے ”میں کسی سے ڈرنے والا نہیں۔ اگر کوئی میرے سامنے آئے گا میں اُس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اگر کوئی میرے خلاف نعرہ لگائے گا، میں اس کے منہ پر تھوک دوں گا۔“ اپنے عزم کا عملی مظاہرہ کرنے کی خاطر مسٹر غلام محمد نے کار میں زور سے تھوکا، جو اچٹ کر ان کے کالر پر گرا۔ اے۔ڈی۔ سی اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا، اس نے ایک نیپکن مجھے دیا، میں نے اس سے کوٹ کا کالر صاف کرنے کی کوشش کی تو مسٹر غلام محمد نے چھڑی گھما کر مجھے غور سے گھورا اور کہنے لگے ”تم کشمیر ہو نا؟ کشمیری ہاتو بڑے بزدل ہوتے ہیں۔ تم صبح سے سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ سڑک پہ یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔۔ اب بولو کیا ہوا؟ غلام محمد کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ تھو تھو تھو۔“ انہوں نے نفرت سے کئی بار اور تھوکا اور کارپوریشن کے لان تک پہنچتے پہنچتے بڑی مشکل سے ان کے کوٹ کا کالر اور آستین صاف کی گئی۔

مسٹر غلام محمد کا معمول تھا کہ وہ دن کے گیارہ بجے اپنے عملے کے کچھ افراد کو اپنے ساتھ چائے پر اکٹھا کیا کرتے تھے۔ کارپوریشن کے استقبالیہ کے بعد کئی روز تک وہ چائے پر میرا مذاق اڑا کر مجھے رگیدتے رہے کہ انٹیلی جنس کی رپورٹ دیکھ کر اس شخص کی گھگھی بندھی ہوئی تھی اور یہ کار میں اس طرح سہما ہوا بیٹھا تھا، جس طرح چوہا بلی کے ڈر سے تھر تھر کانپتا ہے۔ تیسرے یا چوتھے روز انہوں نے مجھے مخاطب کر کے سوال کیا ”سچ سچ بتاؤ۔ ڈر کے مارے کار میں تمہارا پیشاب بھی خطا ہوا تھا یا نہیں ؟“

میں نے سنجیدگی سے جواب دیا ”یور ایکسیلنسی، اُس روز مجھ پر کوئی خوف طاری نہ ہوا تھا۔“

یہ جواب سن کر مسٹر غلام محمد سکتے میں آ گئے۔ پھر غصے سے بولے ”تمہارا مطلب ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟“

میں خاموش رہا۔

”ہاں ہاں۔۔“ مسٹر غلام محمد شیخ کر بولے ”تمہارا یہی مطلب ہے کہ میں جھوٹ بکواس کر رہا ہوں۔“

میں پھر خاموش رہا۔ بس اب کیا تھا۔ گورنر جنرل غصے میں آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے چائے کی پیالی قالین پر پٹخ دی اور چیخ چیخ کر اس بات کا ماتم کرنے لگے کہ اب دو دو ٹکے کے سرکاری ملازم بھی سربراہ مملکت کے منہ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانے کی جرأت کرنے لگے ہیں۔ جو ملک کے سربراہ کا وفادار نہیں، وہ ملک کا وفادار نہیں۔ ایسے غداروں کے متعلق انہوں نے بڑی ہو لناک سزائیں تجویز کیں اور ہم سب منہ لٹکائے اپنے اپنے کمرے میں واپس آ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد مس روتھ بورل (گورنر جنرل کی خوبصورت پرسنل پرائیویٹ سیکرٹری، آدھی امریکن اور آدھی سوئس، جسے وہ واشنگٹن سے منتخب کر کے پاکستان اپنے ساتھ لائے تھے) میرے کمرے میں آئی اور میری ڈھارس بندھانے لگی کہ اس گھر میں ایسے واقعات وقتا فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں، ان سے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مسٹر غلام محمد کی نفسیات پر تبصرہ کر ہی رہی تھی کہ اچانک میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور گورنر جنرل اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے اندر تشریف لائے۔ آتے ہی انہوں نے مس بورل سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں بیٹھی ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ میرے آنسو پونچھنے آئی تھی، کیونکہ میں چائے والے واقعہ پر سخت شرمندہ تھا اور اس وقت سے اب تک زار و قطار روتا رہا تھا۔

”اچھا۔۔!“ مسٹر غلام محمد نے بچوں کی طرح خوش ہو کر پوچھا ”کتنا رویا ہے؟“

”بکٹ ف، ایکسیلینسی! بکٹ فل۔“ مس بورل نے ہاتھوں سے بڑی بالٹی کا سائز بنا کر کہا۔

”کیا یہ اب ایک پیالی چائے کا مستحق ہو گیا ہے؟“ گورنر جنرل نے پوچھا۔

”ہاں ایکسیلنسی، چائے کے ساتھ کیک کا بھی۔“ مس بورل نے کہا۔

”نہیں، کیک تم کھانا۔“ مسٹر غلام محمد نے مچل کر کہا، ”اس کو ہم صرف بسکٹ دیں گے۔۔“

اس مول تول کے بعد وہ دونوں مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئے۔ مسٹر غلام محمد نے چائے کے ساتھ مجھے گن کر صرف ایک بسکٹ دیا اور خود وہ کیک کی کریم انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کھاتے رہے۔

ایک رات میں اپنے گھر سویا ہوا تھا۔ آدھی رات کے قریب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میرا ڈپٹی سیکرٹری فرخ امین بول رہا تھا۔ اُس نے کہا ”آپ جس حالت میں ہیں اسی طرح فوراً گورنر جنرل ہاؤس آجائیں۔“

(فالج زدہ ہونے کے باعث) مسٹر غلام محمد بیمار تو رہتے ہی تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ شاید اچانک انہیں کچھ ہو گیا ہے۔ میں نے فرخ امین سے پوچھا ”بڑے میاں تو ٹھیک ہیں؟“

ٹیلی فون پر تھوڑی دیر کچھ کھسر پھسر ہوئی، پھر اس نے گول مول سا جواب دیا۔ ”ہاں لیکن آپ فوراً یہاں پہنچ جائیں۔“

میں بھاگم بھاگ گورنر جنرل ہاؤس پہنچا اور سیدھا مسٹر غلام محمد کے بیڈ روم میں گیا جو تیز روشنیوں سے بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ گورنر جنرل اپنے بستر پر بہت سے تکیوں کا سہارا لیے بیٹھے تھے اور اُن کے اسٹاف کے کئی ممبر کمرے میں ادھر اُدھر سہمے ہوئے کھڑے تھے۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو مسٹر غلام محمد کچھ دیر تک اپنی پیلی پیلی آنکھیں میرے چہرے پر گاڑے مجھے گھورتے رہے۔ پھر بڑے تلخ انداز میں بولے ”مجھے زندہ دیکھ کر آپ کو بڑی مایوسی ہوئی ہوگی۔ آپ تو بڑے شوق سے میرا جنازہ اٹھانے آ رہے تھے۔“

میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو انہوں نے ڈانٹ کر مجھے چپ کرا دیا اور کہنے لگے ”جب تم ٹیلی فون پر فرخ امین سے بات کر رہے تھے تو میں بھی ریسیور سے کان لگا کر سن رہا تھا۔ تم نے بڑے شوق سے پوچھا تھا کہ کیا یہ بڈھا مر گیا ہے؟“

میں اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ کچھ سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ دو ڈھائی گھنٹے تک انہوں نے اس ایک بات کو طول دے کر بار بار ایسی رٹ لگائی کہ آخر بالکل نڈھال ہو کر تکیوں پر گر گئے۔ ہم نے اُن کے ڈاکٹر کو بلایا۔ اُس نے آ کر انہیں کچھ گولیاں کھلائیں اور ٹیکہ لگا کر سلا دیا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ مسٹر غلام محمد یہ کچہری رات کے دس بجے سے لگائے بیٹھے تھے۔ اُن کے ذاتی عملے کے کسی ملازم سے کوئی قصور سرزد ہو گیا۔ دس بجے سے اُس پر مقدمہ چل رہا تھا اور سزا تجویز ہو رہی تھی۔ آخر تنگ آ کر آدھی رات کے قریب کسی نے یہ تجویز پیش کی کہ یہ سارا کیس سیکرٹری صاحب کے سپرد کر دیا جائے، وہ پوری انکوائری کر کے اپنی رپورٹ گورنر جنرل کی خدمت میں پیش کریں۔ اس مقصد کے لیے مجھے بلایا گیا اور جب میں حاضر ہوا تو اصل مقدمہ خارج ہو گیا اور ایک بالکل نیا بکھیڑا کھڑا ہو گیا۔ اُس زمانے میں مسٹر غلام محمد کا ذہن اسی طور پر کام کرتا تھا۔

قدرت اللہ شہاب کی سوانح ’شہاب نامہ‘ سے اقتباس۔ (عنوان ادارے کی طرف سے دیا گیا ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close