پی آئی اے کا اشتہار، امریکہ سفیر اور ہم

قدرت اللہ شہاب

صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے، ان کا اسم گرامی روڈ مسٹر بی ایچ اولہرٹ ( Mr. B.H Oethert Jr) تھا۔ یہ صاحب نسلاً یہودی تھے اور کسباً کوکا کولا بنانے والی کمپنی کے غالباً وائس پریذیڈنٹ تھے۔ وہ وضع قطع میں بے ڈول، چال ڈھال میں بے ہنگم، اخلاق و آداب میں اکھڑ اور سفارتی رکھ رکھاؤ اور شائستگی سے بڑی حد تک بے نیاز تھے۔

ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں کوئی استقبالیہ تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر ہم لوگ برآمدے میں کھڑے اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ مسٹر اولہرٹ کی گاڑی پہلے آ گئی۔ انہوں نے اصرار کر کے اسلام آباد جانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا۔ جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے رہے، وہ پاکستانی سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہے۔ موٹروں، بسوں، رکشاؤں اور اسکوٹروں کے ہجوم میں بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے Bipeds (دو پایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے۔

فیض آباد چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہِ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اولہرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سیٹ پر جھک گئے۔ مجھے یہی خیال آیا کہ اُن کی آنکھ میں کوئی مچھر یا مکھی گھس گئی ہے اور وہ بے چارے سخت تکلیف ہیں۔

میں نے از راہِ ہمدردی ان سے دریافت کیا ”آپ خیریت سے تو ہیں؟“

مسٹر اولہرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے ”میں بالکل خیریت سے نہیں.. میں کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوں؟ وہ دیکھو۔“ انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کر کے کہا ”وہ دیکھو آنکھوں کا خار۔۔ میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں، میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے۔“

میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈ آویزاں تھا، جس پر پی آئی اے کا ایک رنگین اشتہار دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔ اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجئے اور چین دیکھئے!

میں نے انہیں اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ یہ محض ایک ایئر لائن کا تجارتی اشتہار ہے۔ اسے اپنے اعصاب پر سوار کر کے سوہانِ روح بنانے کی کیا ضرورت ہے؟

مجھے معلوم تھا کہ اس زمانے میں چین کے خلاف بغض اور دشمنی کا بھوت پوری امریکن قوم کے سر پر بری طرح سوار تھا۔ خاص طور پر اس معاملے میں مسٹر اولہرٹ مریضانہ حد تک ذکی الحس تھے۔ اس لیے میری بات سن کر وہ خوش نہ ہوئے بلکہ کسی قدر برا منا کر گم سم بیٹھ گئے۔

چند روز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا ہے اور اس کی جگہ پی۔ آئی۔ اے کا اشتہار اب بینکاک دیکھنے کی دعوت دے رہا ہے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تبدیلی محض تجارتی نکتہ نگاہ سے رونما ہوئی تھی یا اس معاملے میں مسٹر اولہرٹ کے آشوبِ چشم کی کچھ رعایت بھی ملحوظ رکھی گئی تھی۔

قدرت اللہ شہاب کی سوانح ’شہاب نامہ‘ سے اقتباس۔ عنوان ادارے کی جانب سے دیا گیا ہے۔
انتخاب: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close