یحییٰ خان اور میرا استعفیٰ (دوسرا حصہ)

قدرت اللہ شہاب

مارشل لاء لگے ہوئے دس روز گزر چکے تھے۔ اس تمام عرصہ میں یہ برگزیدہ لوگ یا تو اقتدار کی باہمی چھینا جھپٹی میں الجھے ہوئے تھے یا دفتروں کی حاضریاں گن کر، سڑکوں پر جھاڑو پھروا کر یا نالیاں صاف کروا کر قوم کے ہنگامی مسائل حل کرنے میں مصروف تھے۔ اب تک کسی سول افسر کو ایوانِ صدارت یا چیف مارشل لاء ہیڈ کوارٹر تک باریابی کا شرف حاصل نہ ہوا تھا۔ بیورو کریسی کے کچھ خاص گرد آلود پیادے جو چڑھتے سورج کی پرستش پر ایمان رکھتے ہیں، انتظار کی گھڑیاں گن گن کر چُور ہو گئے تھے کہ کب نئے خداوندانِ نعمت کی زیارت نصیب ہو اور کب وہ اپنا ہدیہِ دل اُن کے قدموں پر نثار کریں۔ آخر ان کی امید بر آئی۔ میٹنگ کا نوٹس وصول ہوتے ہی ہمہ وقت کورنش بجانے والے کئی افسروں کی خمیدہ کمر میں جی حضوری کی ایک تازہ کچک پیدا ہو گئی۔

اگلی صبح میں پونے دس بجے پریذیڈنٹ گیسٹ ہاؤس پہنچا۔ میٹنگ کا کمرہ پہلے ہی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پہلی صف میں فوجی ہی فوجی بھرے ہوئے تھے۔ صرف ایک کنارے پر چار سینئر سیکرٹری کسی قدر پچکے ہوئے سے بیٹھے تھے۔ باقی افسرانِ کرام پچھلی صفوں پر تھے۔ میں بھی کہیں ایک خالی کرسی پا کر بیٹھ گیا۔

جب دس بجے تو ہم سب کنکھیوں سے بار بار دروازے کی طرف جھانکنے لگے لیکن یحییٰ خاں ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آخر عین دس بج کر چالیس منٹ پر آگے آگے یحییٰ خاں اور اُس کے پیچھے میجر جنرل پیرزادہ کمرے میں داخل ہوئے۔ صدر کے چہرے پر ایک درشت گُھرکی چمگادڑ کے پروں کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ پیرزادہ کے گالوں پر مصنوعی مسکراہٹ کی دو مستقل سلوٹیں سنجیدگی کا غازہ لگا کر مردار جھریوں کی طرح لٹکی ہوئی تھیں۔

یحییٰ خاں مغلئی انداز سے چھاتی نکال کر کرسی پر بیٹھ گیا اور ہم سب پر حقارت سے بھرپور نظر دوڑائی۔ چند لمحے کمرے میں سناٹا طاری رہا۔ پھر اُس نے منہ کھولا اور ڈانٹ ڈپٹ کے لہجے میں بڑی اچھی باتیں کیں۔ اس نے کہا، ”تم سول سرونٹ بڑے خوشامدی اور چاپلوس لوگ ہو۔ تم ہر نئے حکمران کی ہاں میں ہاں ملا کر اسے غلط راستے پر لگاتے ہو۔ تم اخلاقی جرأت سے عاری ہو۔ صحیح رائے دینے سے احتراز کرتے ہو۔ خوشامد اور جی حضوری سے کام لے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہو، لیکن اب خبردار ہو جاؤ۔ میں سیدھا سادا سپاہی آدمی ہوں، میں تمہارے ہتھکنڈوں میں نہیں آؤں گا۔ میرے ساتھ صاف گوئی سے کام لینا ہوگا۔ میں اپنی خوشی سے صدارت کی کرسی پر نہیں بیٹھا۔ تم لوگوں کی مہربانی سے ایوب خاں ناکام ہو گیا۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے اسے بچانے کا فرض مجھ پر عائد ہوتا ہے۔ میں اس فرض کو پورا کرنے آیا ہوں۔ میں اس فرض کو پورا کر کے رہوں گا۔ میں جلد از جلد ملک میں نارمل حالات پیدا کر کے اپنی بیرک میں واپس چلا جاؤں گا۔ تم لوگ بھی ہوش میں آ جاؤ، اپنا کام تندہی سے کرو۔ جرأت سے کام لے کر سیدھی بات کرو، بے لاگ رائے دو، خوشامد سے پر ہیز کرو۔ اگر کسی نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو خوشی سے صاف صاف پوچھو۔ میں سولجر آدمی ہوں۔“

دس پندرہ منٹ اس قسم کی معقول باتیں کر کے یحییٰ خاں خاموش ہو گیا۔ پھر سول سروس کے ہیڈ پوپ مسٹر ایم ایم احمد نے لب کشائی کی۔ انہوں نے کھڑے ہو کر نمازِ توبہ کی نیت تو نہ باندھی، لیکن بڑے خضوع و خشوع سے اعترافِ جرم کا خطبہ دیا کہ بے شک سول سرونٹ سے بڑی بڑی کوتاہیاں سرزد ہوئیں ہیں، لیکن الحمدللہ کہ اب اللہ تعالٰی نے ملک پر رحم فرمایا ہے۔ ماشاءاللہ آپ جیسا نا خدا اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو نصیب ہو گیا۔ انشاءاللہ اب سب ٹھیک ہو جائے گان ہم آپ کو اپنی بے لوث خدمت اور وفاداری کا پر خلوص یقین دلاتے ہیں۔۔“

ایک دو اور حضرات نے بھی حسبِ توفیق اس طرح کے خوشامدانہ کلماتِ خیر ارشاد فرمائے۔ یحیٰی خاں نے اپنا گول مٹول سر ہلا ہلا کر چاپلوسی کا یہ نذرانہ بڑی گرمجوشی سے قبول کیا۔ اس کی گول گول آنکھوں سے فخر و مباہات کی شعاعیں پھوٹ نکلیں۔ اس کا نیلا نیلا، پیلا پیلا، سوجا ہوا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس کی لٹکی ہوئی ڈھیلی ڈھالی ٹھوڑی گھوڑے کی زین کی طرح کس گئی اور کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔

اس خاموشی کو میں نے اُٹھ کر توڑا۔

”مسٹر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر۔“ میں نے کھڑے ہو کر یحییٰ خاں کو مخاطب کیا۔ اس طرزِ تخاطب پر یحییٰ خاں کے کان کھڑے ہوئے۔ پھر اس نے اپنا سر جھٹک کر اوپر اٹھایا اور نیم باز آنکھوں سے گھور گھور کر مجھے دیکھا۔ اگلی صف میں لٹکی ہوئی تمام گردنیں بھی بے پیندے کے لوٹوں کی طرح گھوم کر مجھے تاکنے لگیں۔

”مسٹر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر،“ میں نے کہا، ”میں صرف سرکاری ملازم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک دوست کی طرح کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔“

”ہاں ہاں۔“ یحییٰ نے جھنجھلا کر کہا، ”ہم بھی تو دوست ہیں۔ ہم کوئی بالشویکی تو نہیں۔“

”سر،“ میں نے کہا۔ ”آپ نے صاف گوئی کا حکم دیا ہے۔ اس لئے میں جو کچھ کہوں گا، بلاکم وکاست عرض کروں گا۔“

”ہاں ہاں۔۔ بولو بولو۔“ یحییٰ خاں نے گھڑی دیکھ کر مزید جھنجھلاہٹ سے کہا۔

”جناب!“ میں نے گزارش کی۔ ”پچھلے دس برس میں یہ دوسری بار مارشل لاء نافذ ہوا ہے۔ یہ بے چارہ ملک بار بار مارشل لاء کی تاب نہیں لا سکتا۔ اس لیے۔“

اگلی صف میں پہلے کُھسر پھسر ہوئی۔ پھر ”اس لیے کیا؟“ ”اس لیے کیا؟“ کی چند طنزیہ سول اور ملٹری آوازیں بلند ہوئیں۔

”اس لیے جناب،“ میں نے کہا، ”جس کام کا بیڑا اٹھا کر آپ تشریف لائے ہیں، اسے جلد از جلد شروع کر کے۔۔۔“

اگلی صف سے پھر انواع و اقسام کے آوازے بلند ہوئے۔

”یہ کیا بات ہوئی جی؟“

”یہ بھی کوئی بات ہے بھلا؟“

”سب کام ہو رہے ہیں۔“

”سب کچھ شروع ہے جی۔“

ان آوازوں کے حق میں یحیٰی خاں نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور مجھے ڈانٹ کر پوچھا ”کیا تم صبح اٹھ کر اخبار نہیں پڑھتے؟“

"جی ہاں۔“ میں نے جواب دیا، ”آج کل خاص طور پر ضرور پڑھتا ہوں کیونکہ اپنی حکومت کے ساتھ آج کل ہمارا یہی واحد رابطہ ہے۔“

”کیا پڑھتے ہو؟“ یحییٰ خاں نے جھلا کر کہا، ”یہ پڑھتے ہو کہ ہم بے کار بیٹھے ہیں؟ ہم کچھ کام نہیں کر رہے؟“

جناب میں نے کہا، ”سڑکیں صاف ہو رہی ہیں۔ نالیوں میں فینائل چھڑکی جارہی ہے، دکانوں میں جالیاں اور دفتروں میں حاضریاں لگ رہی ہیں اور۔۔“

”اور اور کیا؟“ یحیٰی خاں نے مجھے غصے سے ٹوکا، ”کیا یہ ضروری کام نہیں ہیں؟“

”سر! میں نے جواب دیا، ”یہ کام ضروری تو ہیں، لیکن ان کے لیے مارشل لاء ضروری نہیں۔ آپ کے اپنے اعلان کے مطابق مارشل لاء کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ۔۔۔“

ایک بار پھر اگلی صف میں شور برپا ہو گیا۔ بھانت بھانت کی آوازیں بھانت بھانت کا غوغا مچا رہی تھیں۔ ان سب کا خیال تھا کہ یہ شخص خواہ مخواہ اس میٹنگ کا وقت ضائع کر رہا ہے، ورنہ مارشل لاء جن مقاصد کو پورا کرنے آیا ہے، وہ نہایت خوش اسلوبی سے پورے ہو رہے ہیں۔ میں بدستور اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب یہ شور و شر قدرے فرد ہوا تو میں نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو پھر مخاطب کیا۔

”سر!“ میں نے پوچھا، ”کیا میں اپنی بات پوری کر سکتا ہوں؟“

یحییٰ خاں نے میری گزارش سنی ان سنی کر کے کہا۔ ”چلو چلو اب چائے پئیں۔“

چائے کے کمرے میں یحییٰ خاں مجھے بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ میجر جنرل پیرزادہ بھی چیل کی طرح ہمارے آس پاس منڈلاتا رہا۔ یحییٰ خاں بولا، ”بھئی ہم لوگ صرف سڑکیں صاف کرنے والے خاکروب ہی تو نہیں۔ تم دیکھتے جاؤ۔ ہم تو بہت بڑے بڑے کام کرنے والے ہیں۔“

میں نے جواب دیا۔ ”آپ بے شک بڑے بڑے کام کریں ، لیکن ایک بات کا ضرور خیال رکھیں۔“

”وہ کیا؟“ یحییٰ خاں نے پوچھا۔

میں نے کہا۔ ”آپ کو معلوم ہے کہ انگریزی فوج میں اگر کوئی ٹامی رومن حروف میں تھوڑی بہت اردو سیکھ لیتا تھا تو اسے برصغیر کے معاملات کا ماہر سمجھ لیا جاتا تھا۔ یہ میجر جنرل پیرزادہ، جو ہماری طرف کان لگائے آس پاس منڈلا رہا ہے، کچھ عرصہ صدر ایوب کا ملٹری سیکرٹری رہ چکا ہے۔ اب کہیں اس وجہ سے آپ اسے پاکستانی امورِ سلطنت کا ماہر نہ سمجھ بیٹھیں۔“

یہ سن کر یحییٰ خاں جنگلی بلے کی طرح مجھ پر غرایا۔ اُس کی دیکھا دیکھی پیرزادہ بھی غراتا ہوا ہماری طرف لپکا۔ ان دونوں کی غراہٹ آس پاس کھڑے ہوئے کئی دوسرے افسروں نے بھی سنی۔ جب میں اپنے لیے چائے کی پیالی لینے اُن کی میز پر گیا تو یہ لوگ بد حواسی میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے وہاں سے فوراً تتر بتر ہو گئے، البتہ ہوم سیکرٹری اے۔ بی۔ اعوان صاحب سکون سے کھڑے رہے اور میرے ساتھ باتیں کرتے رہے۔

قدرت اللہ شہاب کی سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ سے ماخوذ۔
انتخاب، تلخیص و عنوان: امر گل۔

 

یحییٰ خان اور میرا استعفیٰ (پہلا حصہ)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close