آپ اب بھی ایک جانور ہیں!

پیٹر گارڈن فورس (ترجمہ: امر گل)

ارتقائی نقطہ نظر سے خود شعوری بہت دیر سے پیدا ہونے والی خصوصیت ہے اور اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ یہ ہمیں خود کو سمجھنے میں مدد دے سکے گی۔ شعور ایک تالاب میں کمل کے پھولوں کی مانند ہے: ہم پھولوں کو دیکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان کی پرورش اندھیرے میں موجود طویل تنوں کے ذریعے ہوتی ہے۔

فلسفی فریڈرش نطشے لکھتے ہیں: ”شعور کی اس مضحکہ خیز حد سے زیادہ قدر اور غلط فہمی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے سے روکا جا سکے۔ چونکہ انسان پہلے ہی شعور کا مالک ہونے پر یقین رکھتا تھا، اس لیے اس نے اسے حاصل کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کی—اور آج بھی یہی حال ہے۔“ نطشے نے شعور اور عقل کی حدود کی طرف جلد ہی اشارہ کیا، اور تجرباتی سائنس نے انسانوں کی خود آگاہی کی محدود صلاحیتوں پر ان کے بصیرت کو دوبارہ ثابت کیا ہے۔

شاید قدرتی انتخاب نے ہماری خود انعکاسی کی صلاحیت میں فریب کے آئینے شامل کر دیے ہیں تاکہ ہم اپنی خود آگاہی میں موجود خلاؤں سے زیادہ مایوس نہ ہوں۔ آپ کی اپنی تصویر اس نقطہ نظر کی طرح ہے جس میں اندھا دھبہ ہوتا ہے—آپ محسوس نہیں کرتے کہ یہ مکمل نہیں ہے۔ یہ فریب آپ کو ایک خاص حد تک تحفظ اور خود پر قابو کا احساس دیتا ہے۔ اس کے بغیر، آپ شاید خود کو برداشت نہ کر پاتے—شاید کوئی ’خود‘ ہوتا ہی نہ۔

جو محدود عقل ہمارے پاس ہے، اس سے نہ تو دنیا کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی انسانوں کو،۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دماغ خود کو سمجھنے کے لیے نہیں بنا ہے — جیسے دوسرے جانوروں کے لیے، یہ دنیا میں عمل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہماری عقل اور خود شعوری محدود ہیں اور ہماری مرضی فریب زدہ ہے۔ ہمیں یہ قبول کرنا چاہیے کہ ہم اب بھی جانور ہیں۔ یہ صرف غرور اور خود فریبی ہے کہ یہ یقین کرنا کہ ہم کچھ زیادہ ہیں۔ نوبل انعام یافتہ کونراڈ لورینز نے کہا: ”میرے خیال میں میں نے جانوروں اور انسانوں کے درمیان گمشدہ کڑی کو ڈھونڈ لیا ہے: وہ ہم ہیں۔“ انسان وہ جانور ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ اب جانور نہیں رہے۔

شاید یہ اعتراض کیا جائے کہ آخر کار ہم وہ واحد جانور ہیں، جن کے پاس زبان، مذہب، فن اور سائنس ہے۔ پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کہ خود شعوری محدود ہے اور عقل فریب زدہ ہے، ہمارے علم کے تصور پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، ایک طرف تو مذہبی لوگ ہیں جن کا ایمان ان کے الٰہی تجربات پر مبنی ہے۔ ان کے تجربات کا نظریہ کارتیسیائی علم کے نظریہ کا ایک متبادل ہے: میں الٰہی کو محسوس کرتا ہوں، لہٰذا یہ موجود ہے۔ جدید نیوروسائنس یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان میں سے بہت سے تجربات کو جسمانی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، مثلاً یہ کہ انتہائی حالات میں کوئی سرنگ سے گزرنے کا تجربہ کر سکتا ہے جس کے آخر میں روشنی ہوتی ہے۔ مناسب طریقے سے دماغ کو متحرک کر کے خدا کے تجربات کو تجرباتی طور پر پیدا کیا جا سکتا ہے۔ جسم سے باہر ہونے کے تجربات بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف، کچھ سائنسدان، جیسے رچرڈ ڈاکنز، کا ماننا ہے کہ سائنس بالآخر ہر چیز کی وضاحت کر سکتی ہے اور مذہب گمراہ کن ہے۔ تاہم، اس طرح کا علم کا نظریہ اس عقیدے پر مبنی ہے کہ انسان سائنسی طریقوں کا استعمال کرکے ہر اس چیز تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جو جانا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سائنس میں اس عقیدے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی محدود فکری صلاحیتوں کے نتائج کے بارے میں ایک عاجزانہ رویہ اس عقیدے کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ مختصراً، ہمیں سقراطی نظریہ اپنانا چاہیے کہ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔

ذیل میں امبروز بیئرس کی کتاب ’شیطان کی لغت‘ کا ایک اقتباس دیا گیا ہے:

انسان – ایک ایسا جانور جو اس پر مسرور ہے کہ وہ کیا سمجھتا ہے کہ وہ ہے، لیکن یہ نظرانداز کرتا ہے کہ وہ اصل میں کیا ہونا چاہیے۔ اس کا سب سے بڑا مشغلہ دوسرے جانوروں اور اپنی ہی نسل کا خاتمہ کرنا ہے، جو اس قدر تیزی سے بڑھتی ہے کہ پورے قابل رہائش زمین اور کینیڈا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

(لکھاری پیٹر گارڈن فورس پی ایچ ڈی لند یونیورسٹی، سویڈن میں علم الادراک کے پروفیسر ہیں۔)

بشکریہ: فلاسافی ٹوڈے
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close