ہم مالک ہیں، غلام نہیں!

حفیظ بلوچ

اک عذاب ہے زمیں زادوں کے لیئے، جو صدیوں سے اپنے گھروں گاؤں کھیتوں میں اپنی شناخت رسم رواج کے مطابق زندگی گذارتے آ رہے تھے کہ ناگاہ شہر ناگ کی صورت پھن پھیلائے ان کے گھروں گاؤں کھیتوں کو نگلتا جا رہا ہے۔۔

امیر زادوں، زرداروں اور منصب کی کرسیوں پر بیٹھے وہ کلف زدہ لوگ، جن کو صرف سرمایہ، عہدہ اور اپنے طبقے کی بقا کے لیئے ان زمین زادوں کی جمع پونجی، ان کے گھروں گاؤں اور کھیتوں کے ساتھ ان کی شناخت رسم رواج زبان کی بَلی چاہیئے۔

یہ صدیوں کے باسی، جن کے لیئے انگریز سامراج نے اپنے قوانین بدلے، انہیں عزت دی ان کے گھروں گاؤں اور کھیتوں کا تحفظ یقینی بنایا، آج دیسی حکمران، زردار، سرمایہ دار اور کرسی پر بیٹھے اشرافیہ انہیں بے توقیر اور بے گھر کرنے پر تلے ہوئے ہیں، انہیں تیس دن کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ ان تیس دنوں میں آ کر بتائیں کہ کیوں انہیں بے گھر نہ کیا جائے، کیونکہ صاحبِ عزت عالی مقام کو ان گھروں کھیتوں کی جگہ اپنے محلوں تک آسانی سے رسائی کے لیئے ایک روڈ بنانا ہے، جو اس خطے کے آب ہوا دریا کو تباہ کر کے بنایا بھی جا رہا ہے، جب صاحب کے لیئے سب کچھ تباہ ہو رہا ہے تو آپ زمین زادے غریب حقیر لوگ کیوں اتنے آرام سے ہو؟

بات ہو رہی ہے ملیر کی، ملیر کے خانماں برباد لوگوں کی، ان پر مسلط بے حس حکمرانوں کی، ان حکمرانوں کے چہیتے امراء کی، اور ان کی پوش رہائش گاہوں تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے زیرِ تعمیر ملیر ایکسپریس وے کی، جو صدیوں سے بسے لوگوں کی زرعی زمینوں، گوٹھوں اور ماحول کو تہس نہس کر کے بنایا جا رہا ہے۔

مجھے نہیں پتہ یہ زمین زادے اب کیا کریں گے، ہاں اک التجا ضرور ہے کہ ہم زمین زادوں کو یک مشت ہو کر یہ ضرور کہنا چاہیئے کہ اب بس، بہت ہو چکا۔۔ میری التجا ہے ملیر کے تمام فرزندوں سے، ملیر کے دھکان مزدوروں سمیت تمام آدیسیوں سے کہ بات صرف صدیوں سے آباد غلام محمد گاؤں کی نہیں، نہ ہی عظیم دھقان کی زمینوں کی ہے، نہ ہی سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائیبریری کی ہے، اب بات آپ کے اور میرے وجود، بقا اور شناخت کی ہے۔۔

یہ تیس دن نہیں اک مہلت ہے ہم سب کو متحد ہونے کی، اپنے گاؤں اپنے کھیتوں اپنے پہاڑوں اپنے ندیوں کے لیئے۔۔ اگر آج بھی ہم صرف یہ سوچ کر اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں گے کہ غلام محمد گوٹھ عظیم دھقان اور اک لائیبریری کی بات ہے تو یاد رکھیں آج ان کی تو کل ہماری باری ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری باری آئے گی تو اسی طرح کا سناٹا ہمارے مقدر میں ہوگا، جس میں بربادیوں کے رِستے گھاؤ ہونگے اور کچھ بھی نہیں۔۔

آؤ سب مل کر ہاتھوں میں ہاتھ دے کر، سروں سے سر جوڑ کر ان زرداروں سرمایہ داروں، کلف زدہ سرکاری عہدوں پر بیٹھے تمام طاقتوں کو یہ پیغام دیں کہ ملیر کوئی بے سر پڑا ہوا زمین کا ٹکڑا نہیں، ہمارے اجداد کا صدیوں سے جوڑا وہ نگینہ ہے جس کے لیئے ایک سر تو کیا ہزار سر قربان۔۔ ہم مالک ہیں۔

(لکھاری سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائنس کے رہنما ہیں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close