امریکی نصابی کتب میں پڑھائی جانے والی یک طرفہ تاریخ

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ کے مضمون کو قوم پرستی کے نام پر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ خاص طور سے نصاب کی کتابوں میں، جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، وہ طالب علموں کو یک طرفہ علم دیتی ہے۔ امریکہ نصابی کتب میں تاریخ کا صرف ایک رخ ہی پیش کیا جارہا ہے۔

قومی ریاست میں تعلیمی نصاب کو قوم پرستی اور وطن پرستی کے تحت لکھا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ طالب علموں کو اپنی قوم کی کامیابیوں اور کارناموں کے بارے میں تو علم ہو مگر عالمی دنیا میں اِن کا، جو کردار رہا ہے، اُن واقعات کو حَذف کر دیا جائے۔

امریکہ تاریخ کے مضمون کے بارے میں بہت حساس ہے۔ اُس کی نصاب کی کتابوں کے عنوانات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کا یک طرفہ بیانیہ دے رہی ہیں۔ جیسے کہ ’’Grandeur of America” یا "Magnificent America” جیسی نصاب کی کتابوں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ امریکہ میں جمہوری نظام، فرد کی آزادی، معاشرتی مساوات اور قانون کی بالا دستی ہے۔ امریکہ کی ابتدائی تاریخ میں اُن جنگوں کا ذِکر ہے، جو یورپ کے نوآبادکاروں نے مقامی باشندوں سے لڑیں تھی۔

لہٰذا تاریخ میں وہ جرنیل قابلِ فخر ہیں، جنہوں نے ’ریڈ اینڈینز‘ کا قتل عام اور اُن کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ امریکہ کے سابق صدر’اینڈریو جیکسن‘ کا کہنا تھا کہ ”The only good Indian is a dead Indian“۔ انڈینز کے قتلِ عام کی وجہ سے یہ سفید فام امریکیوں میں مقبول ہوئے اور صدر کے عہدے پر منتخب ہوئے۔ جنگ کا دوسرا سلسلہ میکیسکو میں ہسپانیہ سے تھا۔ امریکہ کے سرمایہ داروں نے جنگ کو منافع بخش پایا کیونکہ انہیں اسلحہ، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور کینٹین کے ٹھیکے ملے۔ لہٰذا امریکہ لاطینی امریکہ میں مختلف جنگوں میں ملوث رہا۔

1783 میں انگلستان سے آزادی کے بعد امریکہ کی تاریخ میں ’فاؤنڈنگ فادرز‘ کی تشکیل کی گئی، جن میں جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن جیسے دوسرے سیاستدان شامل تھے۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ آزادی کے بعد امریکہ کو اپنی نئی تاریخ لکھنا ہو گی۔ اگرچہ دستور میں یہ اعلان ضرور کیا گیا کہ سب انسان برابر ہیں مگر دستور میں امریکی غلاموں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ نصاب کی کتابیں جو تیار کی گئیں، اُن میں قومی ہیروز کا ذکر ہے۔ یہ ہیروز کردار کے لحاظ سے پاکباز اور نیک تھے اور طالبِ علموں کے لیے ماڈل ہیں۔ لیکن جس حقیقت کو چھپایا گیا، وہ یہ تھی کہ جارج واشنگٹن کے پاس کئی سو غلام تھے اور تھامس جیفرسن نے کئی افریقی داشتائیں رکھی ہوئی تھیں، جن سے اُس کے کئی بچے بھی پیدا ہوئے تھے۔

چونکہ ابتدائی دور میں آبادکاروں کی زیادہ تعداد انگلستان سے آئی تھی، اس لیے ان میں اینگلوسیکسن ذات کو اہمیت دی جاتی تھی، جبکہ یورپ کے مہاجرین کو مساوی درجہ نہیں دیا جاتا تھا۔ جو ایشیا سے مہاجرین آئے تھے، جن میں چینی اور جاپانی شامل تھے، اِن سے محنت مَزدوری کے کام کرائے جاتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانیوں کو غدّار قرار دے کر اُنہیں کیمپوں میں رکھا۔

افریقی غلاموں کی وجہ سے امریکی معاشرے میں نسل پرستی کے جذبات شدت کے ساتھ اُبھرے۔ یہ غلام نفرت اور تعصّب کے ماحول میں رہے، اِن کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی پابندی تھی، اگر انہوں نے بغاوتیں کیں تو اُنہیں سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ نسلی تعصب کے ساتھ اسکولوں میں جو نصاب پڑھایا گیا، اُن میں انسانی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ یہاں جو مہاجرین آ کر آباد ہوئے، اُن کے کلچر کو حقیر سمجھا گیا۔ اگرچہ جمہوریت تو تھی مگر اقتدار پر سرمایہ دار طبقے کا تسلط تھا۔

عوام کو ذہنی طور پر کنٹرول کرنے کے لیے یہ پالیسی بنائی جاتی ہے کہ اُن کو عالمی معلومات میں اور تاریخ کے بارے میں بے خبر رکھا جائے۔ اِنہیں اتنا ہی علم دیا جائے، جو حکمراں طبقوں کے لیے ضروری ہو۔ جب عام لوگوں کی بے علمی سے فائدہ اُٹھا کر حکمراں طبقے عام لوگوں کو قابو رکھتے ہوں، اِن کے بارے میں صرف وہی عِلم دیا جاتا ہے، جن کی حکمرانوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام امریکی باشندے کو، جو تعلیم یافتہ بھی ہے، دنیا کے بارے میں اُسے کوئی علم نہیں ہے۔

اس صورتحال میں میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ امریکہ کے اسکولوں میں وطن پرستی کے جذبات کو اُبھارنے کے لیے کئی علامتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور سے امریکہ کے جھنڈے کو اور قومی دنوں کو، جو کئی قسم کے ہوتے ہیں، خاص طور سے اسکولوں میں قومی دنوں کو منایا جاتا ہے، جن میں طالبعلم جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔

لیکن نصاب کی کتابوں میں امریکی حکومت کی مداخلت کا کوئی ذِکر نہیں ہوتا ہے، جو اُس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں کی تھیں اور خاص طور سے ویتنام میں امریکہ نے، جو مظالم کیے، کارپیٹ بمبنگ کی، زہریلی گیس کا استعمال کیا اور اَذیّت کے نئے نئے طریقے استعمال کیے، اِن کے بارے میں امریکہ کی نصابی کتابیں اور تاریخ خاموش ہے۔

ویتنام کی جنگ کا صرف ایک حصّہ اِنہیں معلوم ہے کہ اس جنگ میں کتنے امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ ایک بڑے بورڈ پر ان کے ناموں کو کنندہ کرایا گیا اور نیویارک سٹی میں اُسے رکھا گیا۔ لیکن ویٹ کانگ، جنہوں نے امریکی افواج کو شکست دی تھی، اُن کی بہادری اور قربانی کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہ اَدھوری تاریخ امریکی حکومت کو شکست کے داغ سے بچانے کی کوشش ہے۔

اگر اقوامِ عالم اپنی تاریخ اور نصابی کتابوں کو قوم پرستی کے جذبات کے فروغ کے لیے استعمال کریں گی تو اس صورت میں قوموں کے درمیان اَمن و آشتی مشکل ہو جائے گی۔ جب تک تاریخ کو نفرت اور تعصّبات سے نہیں نِکالا جائے گا، اُس وقت تک کوئی مثبت کردار ادا نہیں ہو سکے گا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close