ہمیں غیر معمولی ذہانت، بصیرت آمیز تخیل اور گہرے وجدان سے نوازا گیا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ انسانی ارتقائی تاریخ میں کئی سائنسی دریافتوں اور تکنیکی کامیابیوں کا ذکر ملتا ہے، جنہوں نے ہمیں مختلف طریقوں سے تبدیل کیا ہے۔
ہم پتھر کے پہلے اوزار کی تخلیق سے، آگ کی دریافت، پہیے کی ایجاد، بھاپ کے انجن کی آمد، بجلی کے لیمپ، گاڑیاں، ہوائی جہاز، راکٹس اور کمپیوٹرز کی ترقی سے لے کر آج کے وقت تک پہنچے ہیں، جہاں ہم آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) یا مصنوعی ذہانت کے انقلاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اے آئی (AI) جدید مشینوں کا تصور پیش کرتا ہے جو ’انسانوں کی طرح‘ سوچ سکتی ہیں، معلومات کو پروسیس کر سکتی ہیں اور عمل کر سکتی ہیں۔
یہ نئی دور کی مشینیں باہر کی دنیا سے کئی طرح کی معلومات وصول کر سکیں گی، ان کا وسیع تاریخی ڈیٹا سے موازنہ کریں گی، ان کا بغور تجزیہ کریں گی، مستقبل کے نتائج کی پیشین گوئی کریں گی، مؤثر فیصلے لیں گی اور کسی انسانی مداخلت کے بغیر موزوں اقدامات کریں گی۔ اے آئی کے حامی پرامید ہیں کہ چند سالوں میں یہ مشینیں ہماری زندگی میں ہر جگہ موجود ہوں گی اور تمام بڑی صنعتوں میں سب سے آگے ہوں گی۔
یہ نئی مشینیں مؤثر طریقے سے مختلف صارفین کی مصنوعات ڈیزائن، تیار، فراہم اور مارکیٹ کریں گی۔ اے آئی چیٹ بوٹس مؤثر ذاتی معاون بن جائیں گے، ای میلز کا جواب دیں گے، ملاقاتوں کا شیڈول بنائیں گے، کیلنڈرز سنبھالیں گے اور صارفین کی دیکھ بھال کی تمام خدمات کو سنبھالیں گے۔ خود مختار گاڑیاں جو آپس میں رابطہ کر سکیں گی، ترقی یافتہ شہروں میں مختصر اور طویل سفر کو تیز، آسان اور خطرات سے پاک بنا دیں گی۔
صحت کے میدان میں، اے آئی طبی تشخیص، علاج کی منصوبہ بندی، نفسیاتی تعلیم، مشاورت اور جراحی کے طریقہ کار کا ایک لازمی حصہ بن جائے گی۔ اے آئی موسیقی، فن اور ادب کے دلچسپ نمونے بھی تخلیق کر سکے گی۔
جبکہ بہت سے لوگ امید کرتے ہیں کہ یہ انقلاب ہماری زندگیوں کو مزید آرام دہ بنا دے گا، کچھ لوگ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اے آئی مشینیں انسانوں پر سبقت لے جائیں گی اور ہمیں غیر ضروری بنا دیں گی۔ اس بات کا وسیع پیمانے پر خدشہ ہے کہ زیادہ تر کام کے کردار اے آئی کی آمد کے سبب یا تو مکمل طور پر بدل جائیں گے یا ختم ہو جائیں گے۔
اگرچہ یہ کچھ حد تک سچ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسانی شعور کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ابھی تک ہمارے لیے نامعلوم ہیں، اور اسی لیے ہم اس نامعلوم کو اے آئی میں منتقل نہیں کر سکتے۔ اور یہی شعور کے نامعلوم پہلو ہمیں واقعی خاص بناتے ہیں۔ پھر ہمارے ذہن کی کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اتنی پیچیدہ ہیں کہ انہیں چھوٹے حصوں میں نہیں توڑا جا سکتا اور اس لیے انہیں اے آئی سسٹمز میں نقل نہیں کیا جا سکتا۔
منطق وجدان تک نہیں پہنچ سکتی؛ حسابات تخلیق کو تحریک نہیں دے سکتے، اور پیشین گوئیاں کبھی بھی جاندار تخیل میں تبدیل نہیں ہو سکتیں۔ اکثر، ‘کُل‘ اپنے اجزاء کے مجموعے سے زیادہ ہوتا ہے، اور انسانی ذہن کی نقل کرنے والی تیز ترین مشینیں بھی صرف ایک مدھم نقل بن کر رہ جائیں گی۔
انسانیت نے تمام تکنیکی ترقیات کو برداشت کیا ہے، اور اے آئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود، جب اے آئی وہ معمولی کام اور ذمہ داریاں سنبھال لے گی، جو اس وقت ہماری توجہ کو متزلزل کرتے ہیں، تو ہمارے پاس بہت زیادہ وقت اور ذہنی سکون ہوگا۔
کیا یہ ایک شاندار موقع نہیں ہوگا کہ ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنی ذات، اردگرد کی دنیا اور کائنات سے گہرے تعلقات بنائیں؟ تو آئیے ہم بے جان مشینوں کے بارے میں غیر منطقی خوف میں مبتلا نہ ہوں۔ شاید، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اردگرد اس ’زین بلی‘ کو تلاش کریں جو ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح آسانی سے جینا ہے، اپنے ’خود‘ کو لچکدار بنانا ہے اور موجودہ لمحے میں جینا ہے۔
(’زین کیٹ‘ (Zen Cat) ایک چینی اصطلاح ہے جس سے مراد ذہنی سکون، سادگی اور مراقبے پر زور دینا ہے۔ زین دراصل ایک چینی مشق ہے جو صدیوں پرانی ہے۔ یہ پرامن، پرسکون، اور مشاہدہ کرنے والے ذہن کے حصول میں مدد کے لیے مراقبہ کی مشق کا احاطہ کرتی ہے۔ ’زین کیٹ‘ کی اصطلاح کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بلیاں قدرتی طور پر زین (سکون کا مراقبہ) کرنے کی صلاحیت کی مالک ہیں۔ زین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ذہن سازی ہے، جس کا مقصد اس لمحے میں رہنا، کیا ہو رہا ہے اس پر توجہ دینا، اور مستقبل کی فکر نہ کرنا یا ماضی کے بارے میں نہ سوچنا ہے۔ اس لمحے میں رہنا زندگی کے لطف کو بڑھا سکتا ہے اور پریشانی کو کم کر سکتا ہے۔ مترجم)
(مصنف ایک کلینیکل ماہرِ نفسیات ہیں۔)
بشکریہ ٹائمز آف انڈیا
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)