’اس کہانی کی شروعات ایک معمے میں چھپی ہوئی ہے۔‘ ایسا کہنا ہے ہفت روزہ نیویارکر کی لکھاری اور کئی کتابوں کی مصنفہ الزبتھ کولبرٹ کا، جن کی تحقیق کے مطابق تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ میں ایک نئی قسم کا انسان نما جاندار (ہومونن) نمودار ہوا تھا۔
کسی کو یہ صحیح سے نہیں معلوم کہ اُس نئی قسم کا انسان کہاں سے آیا یا اس کے والدین کون تھے لیکن ہم اس قسم کو ’جسمانی طور پر معاصر انسان‘، یا ’ہومو سیپئنس‘ کہتے ہیں۔
گریٹا تھیونبرگ کی کتاب دی کلائمیٹ بک میں ’تہذیب اور معدومیت‘ کے نام سے چھپنے والے اپنے مضمون میں وہ مزید بتاتی ہیں کہ ان انسان نما جانداروں کے گول سر اور نوکیلی ٹھوڑی اُن کی شناخت ہوتی تھی۔ وہ اس وقت کے ملتے جلتے جانداروں سے کم وزن تھے اور ان کے دانت چھوٹے تھے۔ جسمانی طور پر وہ کافی دلکش نہیں تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ انتہائی ہوشیار تھے۔
انہوں نے پہلے تو بنیادی نوعیت کے اوزار بنائے جو دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے گئے۔ وہ اگلے ادوار تک اپنی بات پہنچانا جانتے تھے۔ وہ مختلف موسموں میں رہ سکتے تھے اور شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات مختلف اقسام کی خوراک کے ساتھ گزارا کر سکتے تھے۔ جہاں جانوروں کی بہتات ہوتی تھی وہ ان کا شکار کرتے تھے، جہاں شیل مچھلی موجود ہوتی تھی اور وہ اسے کھاتے تھے۔
یہ بار بار برف جم جانے والا دور یعنی پلیسٹوسین کا زمانہ تھا جب دنیا کا بڑا حصہ بڑی برف کی سخت چادروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے انسان کی وہ نئی قسم شمال کی طرف بڑھنے لگی تھی۔ اُن انسانوں نے ایک لاکھ سال پہلے مشرق وسطیٰ، تقریباً 60 ہزار سال پہلے آسٹریلیا، 40 ہزار سال پہلے یورپ اور 20 ہزار سال پہلے امریکا (شمالی اور جنوبی امریکا) تک پہنچنے کی کوشش کی۔
راستے میں کہیں شاید درمیان کے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کی اس نئی قسم ہومو سیپئنس کا اپنی جیسی مگر مضبوط مخلوق سے سامنا ہوا جو نیانڈرتھل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ پھر انسانوں (ہومونن) اور نیانڈرتھل کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوئے اور ان کی اولاد اپنی نسلیں پیدا کرنے تک باقی رہیں۔ تاہم آج کل دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے پاس نیانڈرتھل کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ آئیے مزید تفصیل مصنفہ کی ہی زبانی جانتے ہیں۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ نیانڈرتھل نامی انسان کی قسم دنیا سے غائب ہو گئی۔ شاید ہومو سیپئنس انسانوں نے ان کو اپنی مستعدی سے ختم کیا یا شاید ان سے مقابلہ کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔ حال ہی میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کے ایک گروپ کا یہ بھی خیال ہے کہ ہومو سیپئنس انسان اپنے ساتھ گرم خطوں کی بیماریاں لے کر وہاں گئے، جہاں سردی میں رہنے کی عادی اُن سے ملتی جلتی مخلوق بیماریوں کو برداشت نہیں کر پائی۔ وجہ خواہ کوئی بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ نیانڈرتھل نامی قدیمی انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی وجہ ہومو سیپئنس یعنی انسان ہی تھے۔ جیسا کہ ایک سوئیڈش تحقیق کار سوانٹے پابو نے نیانڈرتھل جینوم کے آثار کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی سربراہی کی تھی، اُس نے مجھے بتایا کہ، ’ان کی بدقسمتی ہم (یعنی انسان) تھے۔‘
نیانڈرتھلز کا تجربہ کوئی خاص توجہ کے قابل ثابت نہیں ہوا۔ جب انسانوں کی آسٹریلیا آمد ہوئی تو وہ خطہ انتہائی بڑے جانوروں کی آماجگاہ تھا۔ ان میں مارسوپیل لائنز شامل تھے جو اپنے وزن سے بالاتر اپنے دانتوں سے کسی بھی ممالیہ جانور سے زیادہ طاقتور گرفت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ میگالینیا یعنی دنیا کی سب سے بڑی چھپکلیاں اور ڈپروٹوڈونز جو گینڈے نما ریچھ کہلاتے ہیں، وہ بھی وہاں پائے جاتے تھے۔ اگلے کئی ہزار سالوں کے دوران تمام بڑے جانور وہاں سے غائب ہو گئے۔
جب انسانوں نے شمالی امریکا میں قدم رکھا تو وہاں پر ان کے پاس اپنے خود سے بڑے جانوروں کا گروپ تھا، جس میں مستوڈونز، میموتھز اور بیورز شامل تھے جو 8 فٹ لمبے اور 200 پاؤنڈ وزن رکھتے تھے، وہ بھی ختم ہو گئے۔ جنوبی امریکا میں بھی بڑے ممالیہ جانور، قوی الجثہ آرمڈیلو جیسے جانور اور ٹوکسوڈون کے نام سے معروف ایک قسم کے گینڈے کے سائز کے سبزی خور جانوروں کا بھی ایسا ہی کچھ حال ہوا اور وہ ختم ہو گئے۔
ارضیاتی اعتبار سے اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ اقسام کے ختم ہونے کا منظر بہت ہی ڈرامائی تھا کہ چارلز ڈارون کے دور میں یہ کہا گیا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت بڑے عجیب و غریب اور خوفناک شکلوں والے جانور حال ہی میں غائب ہو گئے ہیں۔ یہ تبصرہ ڈارون کے مخالف الفریڈ رسل والیس نے 1876ء میں کیا تھا۔
سائنسدان اس وقت سے بڑے جانوروں کے خاتمے پر بحث کرتے آرہے ہیں۔ اب یہ جانا جاتا ہے کہ خاتمہ مختلف براعظموں میں مختلف وقتوں میں ہوا اور جانوروں کا خاتمہ انسانوں کی آمد کے ساتھ ہی ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی بدقسمتی ہم یعنی انسان تھے۔ انسان اور بڑے جانوروں کی مڈبھیڑ پر تحقیق کرنے والوں نے پتا کیا کہ اگر شکاریوں کے گروپ ایک سال کے دوران صرف ایک بہت بڑے جانور کا شکار کرتے ہوں گے تو آہستہ آہستہ نسل بڑھانے والے اُن جانوروں کا کئی صدیوں تک تھوڑا تھوڑا شکار کرنا، انہیں خاتمے کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہوگا۔
آسٹریلیا کی مکوئیری یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر جان الروائے نے اس دور میں بڑے جانوروں کے خاتمے کو ارضیاتی طور پر ایک ماحولیاتی تباہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا خاتمہ اتنا آہستہ آہستہ ہوا کہ ایسا کرنے والوں کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔
جب یورپ میں پندرہویں صدی کے آخر میں لوگ دنیا کے مختلف خطوں کو اپنی کالونیاں بنانے لگے تو جانوروں کے خاتمے کی رفتار بڑھ گئی۔ موریشس کے جزیرے کے مقامی پرندے ڈوڈو کو 1598ء میں ڈچ فوجی ملاحوں نے پہلی بار دیکھا اور پھر 1670ء کے دوران یہ غائب ہو گیا۔ اس کی تباہی کی وجہ شاید انہیں خوراک کے لیے ذبح کرنا اور شاید دیگر پرندوں کو وہاں متعارف کروانا بھی تھا، جہاں بھی یورپی لوگ گئے وہ اپنے ساتھ چوہے لے کر گئے، جو ان کے ساتھ بحری جہازوں میں ہوا کرتے تھے۔
یورپی لوگ جہاں کہیں بھی قدم رکھتے تھے تو دیگر جانوروں کا شکار کرنے والے جانوروں کو بھی ان علاقوں میں متعارف کرواتے تھے جیسے بلیاں اور لومڑیاں جو چوہے تو کیا دیگر کئی جانداروں کا بھی شکار کرتے ہیں۔ 1788ء میں جب اولین یورپی کالونیاں بنانے والوں نے آسٹریلیا میں آنا شروع کیا تو اُن کے ساتھ لائے ہوئے جانوروں نے وہاں کے درجن بھر مقامی جانوروں کی اقسام کو ختم کر دیا جن میں بڑے کانوں والے ہاپنگ ماؤس شامل ہیں اور مشرق کا خرگوش نما جانور بھی شامل تھا جنہیں بلیوں نے کھا کر ختم کر دیا تھا۔
جب انگریزوں نے نیوزی لینڈ میں نوآبادی قائم کرنا شروع کی تو تقریباً سال 1800ء کے آس پاس 20 اقسام کے پرندوں کا خاتمہ کردیا گیا جن میں چتھم آئلینڈز پینگوئن، ڈیفنباک کی ریل اور لائل کی رین شامل ہیں۔ کرنٹ بائیولوجی نامی جریدے میں حال ہی میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق نیوزی لینڈ میں معدوم ہونے والے پرندوں کی اقسام کو وہاں انسانوں سے بسنے سے پہلے والی تعداد پر لانے کے لیے پانچ کروڑ سال درکار ہوں گے۔
یہ تمام نقصانات سادہ ہتھیاروں اور طریقوں سے کیے گئے تھے۔ ڈنڈوں، قدیم بندوقوں، چلتی کشتیوں کے علاوہ کچھ کمزور متعارف کردہ جانداروں کے ذریعے مقامی پرندوں کو ختم کیا گیا اور پھر مارنے کا میکانکی طریقہ استعمال کیا گیا۔
نویں صدی کے آخر میں شکاریوں نے چھروں والی بندوقوں کا استعمال کیا جو ایک فائر میں کئی چھروں سے بہت سے پرندے مار سکتی تھیں جس سے کبوتر کی قسم کا شمالی امریکا کا ایک پرندہ جس کی تعداد پہلے اربوں میں تھی، معدوم ہو گیا۔ ٹرین میں بیٹھے بیٹھے پرندوں کا شکار کرنے والے شکاریوں نے ایک ایسے امریکی پرندے کی قسم کو ختم کر دیا جو اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے تھے کہ اُن کا آسمان پر جھنڈ ستاروں سے بھرا ہوتا تھا۔
اب دنیا میں جانداروں کی جو اقسام موجود ہیں، یہ وہ ہیں جنہوں نے برفانی ادوار میں بھی اپنا وجود قائم رکھا تھا یعنی وہ سخت سردی برداشت کرنا جانتے ہیں لیکن کیا اب وہ گرمی بھی برداشت کر پائیں گے، یہ واضح نہیں ہے۔
دنیا جتنی گرم اب ہے دسیوں لاکھوں سال میں وہ اتنی گرم کبھی نہیں رہی۔ پلیسٹوسین (برفانی) دور کے دوران بھنورے جیسے چھوٹے جانور صدیوں میں ہجرت کرتے تھے تاکہ موافق موسم میں رہ سکیں۔
آج کل ان کی بے شمار اقسام دوبارہ ہجرت کے لیے تیار ہیں لیکن برفانی ادوار کی طرح ان کا راستہ عموماً شہروں، شاہراہوں اور کھیتوں سے گزرتا ہے جسے عبور کرنا اُن کے لیے آسان نہیں ہے۔ ماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں اُن کے ردعمل کی روشنی میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کی موسمیاتی تبدیلی میں اُن کا ردعمل کیسا ہوگا کیونکہ اب ہم نے جانداروں کی نقل مکانی کی راہ میں بے شمار مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
اس کہانی کا انجام قطعی نامعلوم ہے گزشتہ نصف ارب سالوں کے دوران دنیا کا پانچ بار خاتمہ ہو چکا ہے، جس میں دنیا کے ایک تہائی جانداروں کی اقسام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اب ہم چھٹے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن اس کی وجہ پہلی دفعہ ایک حیاتیاتی ایجنٹ یعنی ہم انسان ہیں۔ کیا ہم اس تباہی کو روکنے کے لیے بروقت کچھ کر پائیں گے؟
نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، جن کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔