سلطنتِ عدلیہ کے ڈھلتے سائے

وسعت اللہ خان

چلیں جی اشرافیہ کو بالخصوص اور اہلِ وطن کو بالعموم آئی ایم ایف کا 24 واں سات ارب ڈالر کا قرض پیکج مبارک ہو۔ اس شبھ گھڑی میں وزیرِ اعظم برادرِ بزرگ چین، سعودی عرب، امارات نیز قرض کھینچ سرکاری ٹیم اور آرمی چیف کے بھرپور تعاون اور کوششوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے۔ آپ نے حسبِ معمول یہ تکیہ کلام بھی دھرایا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکج ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، انشااللہ۔۔۔

آپ کی آواز میں اس شخص کا اعتماد پایا جاتا ہے، جسے منت ترلے کے بعد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ آج کا دن ٹالنے کے لیے دو چار بھرواں سگریٹیں خریدتے وقت پُریقین انداز میں آس پاس والوں کو سنائے کہ ’اللہ رسول دی قسم آج دے بعد میں بالکل چھڈ دینی اے۔‘

اگلے تین سال کے لیے کارآمد مالیاتی ٹیکہ لگنے کے بعد ایک بار پھر پارلیمنٹ سے ’عدالتی اصلاحات کا آئینی پیکیج‘ منظور کروانے کی ایک اور بھرپور کوشش ہونے والی ہے اور لگتا ہے اس بار مطلوبہ ووٹ پورے ہو جائیں گے۔

آج بھی آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کا ترازو مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہے مگر پچھلی عاجلانہ خِجالت سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب ایک پلڑے میں آئینی پیکج اور دوسرے میں مولانا صاحب کی مرضی کے باٹ رکھ کے پارلیمانی ترازو برابر کیا جا رہا ہے۔ اس کا عندیہ جہاندیدہ مولانا کی رائے میں لچک سے بخوبی مل رہا ہے۔

(لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ مولانا کتنے کمال چمتکاری ہیں۔ اکتوبر سنہ 2007 کے صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف کو بارِ دگر منتخب کروانے کے بعد ہی انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑی تھی۔ پہلے ٹوٹ جاتی تو مشرف صاحب کو منتخب کرنے والا الیکٹورل کالج بھی ٹوٹ جاتا)۔

موجودہ چنتخب پارلیمنٹ ویسے بھی فارم 47 کے بارِ احسان تلے دبی پڑی ہے۔

گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے احاطے سے جس طرح پُراسرار نقاب پوشوں نے من چاہے انداز میں پکڑ دھکڑ کی ایک نئی مثال قائم کی اور پارلیمنٹ نے اپنی خودمختاری پر ٹوٹنے والے شب خون کو جس خندہ پیشانی سے سہا، اس کے بعد سے فضا اس قدر سازگار ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیاراتی پر کُترنے کا اس سے بہتر موقع ملنا مشکل ہے۔

جس طرح جدید جنگوں میں حریف کو بے بس کرنے کے لیے پہلے جم کے بمباری کی جاتی ہے، اس کے بعد پیادہ فوج آگے بڑھ کے مطلوبہ ہدف حاصل کر لیتی ہے، اسی طرح پچھلے ایک برس سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حرمت تار تار کر کے شہریوں کی نگاہ میں اس آئینی نگہبان کو بے وقعت بنانے کا کام زوروں پر ہے۔

گذشتہ برس 90 روز کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے کا عدالتی حکم جوتے کی نوک پر رکھا گیا، پھر الیکشن کمیشن نے ٹھینگا دکھانا شروع کیا اور اب ججوں اور عدالت کے اکثریتی فیصلوں کو بھی وزرا کی ٹیم، سوشل اور پروفیشنل میڈیا اور شاہراہوں پر اچانک لٹک جانے اور پھر غائب ہو جانے والے پُراسرار کردار کش بینروں کے ذریعے کُھلم کُھلا رد کرنا نیا معمول بن گیا ہے۔

خود عدالت کے اندر بھی سیندھ لگی ہوئی ہے۔ برادر ججز برادر ججوں کے فیصلوں کی صحت پر ایک دوسرے کا نام لے کر انگشت نمائی کر رہے ہیں۔ بہت سے منصف طویل عرصے سے خود پر مسلسل پڑنے والے بالائے قانون دباؤ کی گوہار لگائے ہوئے ہیں مگر عدالتِ بزرگ ان کی تحریری شکایتوں پر بھی کوئی ٹھوس پیش رفت دکھانے کے موڈ میں نہیں۔

وہ دن گئے جب ناپسندیدہ فیصلوں کے سامنے بھی وزیرِاعظم سر جھکا کے استعفیٰ دے دیتے تھے۔ کبھی ہوتا ہوگا فیصلہ سازوں کے دل و دماغ میں توہینِ عدالت کا خوف بھی، اب تو یہ سُننے کو ملتا ہے کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں مگر عدالت بھی اپنی حدود میں رہے۔

حال ہی میں چہار جانب کے غیر عدالتی دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے معزز عدالتِ عظمیٰ نے ’مبارک ثانی نظرِ ثانی کیس‘ کے اپنے ہی فیصلے پر جس سعادت مندانہ عجلت کے ساتھ نظرِ ثانی کر کے اسے ’درست‘ کیا اس کے بعد روایتی عدالتی رٹ اور عدالتی دبدبے کے بارے میں مزید کچھ کہنا زوالِ انصاف کے سورج کو چراغ دکھانا ہے۔

مگر اس سب میں نیا کیا ہے؟ اگر نئے آئینی پیکج کی شکل میں سپریم کورٹ کے متوازی آئینی عدالت بنا بھی دی گئی تو کیا قیامت آ جائے گی۔ چیف جسٹس محمد منیر کی چیف کورٹ (سپریم کورٹ) کی سوتن تو کوئی متوازی عدالت نہیں تھی تو پھر انہوں نے تب کے طالع آزماؤں کو ’نظریۂ ضرورت‘ کی تلوار کیوں تھما دی جو آج تک آئین اور عدالت کی گردن سہلا رہی ہے۔

جسٹس انوار الحق، نسیم حسن شاہ، سجاد علی شاہ، سعید الزماں صدیقی، ارشاد حسن خان، افتخار چوہدری، عبدالحمید ڈوگر، جاوید اقبال، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال، قاضی فائز عیسٰی۔ کس کس سنگِ میل کو ناپیں؟

رہا عام آدمی تو وہ اور اس کی رائے کبھی بھی بڑی گیم میں شامل ہی نہیں تھی، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے عضوِ معطل فرض کر کے یکسر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ خوف تو بہرحال رہتا ہی ہے کہ کسی دن روٹی اور انصاف کے متلاشی کروڑوں جوتیاں چٹخانے والے خدانخواستہ ایک ساتھ پھٹ ہی نہ پڑیں۔ (تاریخ غلاموں کی بغاوت کے واقعات سے بھری پڑی ہے)۔

چنانچہ اس غلام ابنِ غلام کو بھی روزمرہ کی کمرتوڑ معیشت کے شکنجے میں بُری طرح جکڑ دیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ چیخ تو سکتا ہے۔

کوئی نہ کوئی عدالت کبھی کبھار یہ چیخ سُن ہی لیتی تھی مگر اب اس چیخ کو دبانے کے لیے سائبر قوانین، فائر وال اور ڈیجیٹل دہشت گردی کے قلع قمع کے نام پر آنکھ، منہ، کان پر رنگارنگ ٹیپیں لگا کر عام شہری کے چہرے کو پارسل جیسا بنا دیا گیا ہے۔ توہینِ مذہب کی بُو سونگھنے والے گروہ اور ڈیجیٹل ٹرولی محلہ در محلہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔

جن سخت جانوں کو اس طرح کے غولوں سے نہیں لرزایا جا سکتا، اُن کے لیے قومی سلامتی، غداری اور فساد فی الارض کے کوڑوں کی شوں شاں کا تسلی بخش انتظام ہے۔ دیکھتے ہیں ایسا کب تلک چلے ہے۔

لگانا پڑتی ہے ڈبکی اُبھرنے سے پہلے،
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے۔۔
( پروین شاکر)

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close