اگر یہ کہا جائے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کون سا ایک سفارت کار ہے، جس نے دنیا پر سب سے زیادہ منفی اثرات چھوڑے تو ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے۔۔ ڈاکٹر ہنری کسنگر۔
کسنگر کی پیدائش ایک جرمن یہودی خاندان میں ہوئی، جس نے ہٹلر کی یہود کش پالیسیوں سے تنگ آ کے انیس سو اڑتیس میں امریکا ہجرت کی۔ کسنگر نے بطور فوجی سارجنٹ دوسری عالمی جنگ میں یورپ کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعد انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور وہیں جوہری ہتھیاروں اور خارجہ پالیسی کے مضامین پڑھانے لگے۔ بہت سے تھنک ٹینک اور سرکاری عمل دار ان سے علمی و تجزیاتی رہنمائی لیتے رہے۔ انیس سو انہتر میں صدر رچرڈ نکسن نے انہیں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا اور انیس سو تہتر میں وہ وزیرِ خارجہ بن گئے۔ اس عہدے پر وہ صدر فورڈ کے عہد میں نومبر انیس سو پچھتر تک برقرار رہے۔
کسنگر نے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیرِ خارجہ کے طور پر سوویت یونین سے تخفیفِ اسلحہ اور پُرامن بقائے باہمی کے معاملات پر کامیاب مذاکرات کیے۔ کمیونسٹ چین سے سفارتی مراسم کا آغاز ہوا۔ اکتوبر انیس سو تہتر کی جنگ کے بعد عربوں اور اسرائیل کے مابین قیامِ امن کے لیے شٹل ڈپلومیسی کی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی مصر کو واپس کر دیا اور بعد ازاں مصر اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
اپریل انیس سو پچھتر میں ویتنام کی جنگ ختم ہوئی۔ ہنری کسنگر اور ویتنامی وزیرِ خارجہ لی ڈک تھو کو مشترکہ امن نوبیل انعام ملا۔ مگر کسنگر پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کی پالیسیوں کے سبب کمپوچیا اور لاؤس پر بے تحاشا بمباری کی گئی۔ انہوں نے چلی میں صدر آلندے کی منتخب مارکسسٹ حکومت کا تختہ الٹوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ افریقہ اور لاطینی امریکا میں امریکا نواز فوجی آمریتوں کی حمائیت کی۔ مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے جبری قبضے کو تسلیم کیا۔
انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان میں یحیٰی حکومت کی عسکری پالیسی کی حمائیت کی کیونکہ یحیٰی حکومت نے امریکا اور چین کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ البتہ کسنگر ایٹمی پروگرام آگے بڑھانے کے تناظر میں بھٹو کو سخت ناپسند کرتے تھے اور انہوں نے بھٹو کو ایٹمی ہتھیاروں کا منصوبہ ترک نہ کرنے پر سنگین نتائج سے بھی خبردار کیا۔
کہا جاتا ہے کہ کسنگر کا عملیت پسند سفاک سیاست کا نظریہ اس دنیا میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنا اور بعد ازاں کسنگر کے سفارتی شاگردوں نے اس عمل کو اور سیقل کیا۔
حکومت سے سبکدوشی کے بعد کسنگر نے مختلف حکومتوں اور عالمی اداروں کو مشاورتی سہولت دینے کے لیے کسنگر ایسوسی ایٹس کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ انہوں نے بارہ امریکی صدور کو مشاورتی خدمات فراہم کیں۔ عالمی سیاست پر لگ بھگ ایک درجن تصنیفات ترکے میں چھوڑیں۔ نومبر دو ہزار تئیس میں سو برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
کیا کسنگر اسرائیل نواز تھے؟
اس کا جواب ہے ہاں اور نہیں۔ ان کی وفات پر اسرائیلی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ میں شایع ایک مضمون کے مطابق کسنگر کو اپنی یہودی وراثت پر فخر نہیں تھا۔ کسنگر نے انیس سو بانوے میں شایع ہونے والی اپنی سوانح عمری کے مصنف والٹر ایزاکسن کو بتایا کہ ’’میرا یہودی ہونا ایک پیدائشی اتفاق ہے۔ اگر میں کسی اور خاندان میں پیدا ہوتا تو شاید یہود مخالف ہوتا۔ جو لوگ دو ہزار برس سے مصائب کے نشانے پر ہیں انہوں نے ضرور کچھ تو غلط کیا ہوگا‘‘۔
انیس سو پچھتر میں کسنگر جرمنی میں اپنا آبائی مکان دیکھنے گئے مگر نازی ہالوکاسٹ کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا۔ اس رویے پر اسرائیل کی یشیوا یونیورسٹی کے چانسلر رباعی نورمن لام نے کہا کہ قومِ یہود کو ایسے شخص سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔
اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو یقین ہے کہ جب اکتوبر انیس سو تہتر میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تو کسنگر نے اس کے کئی دن بعد اسرائیل کو فوجی امداد بھیجنے کی حمائیت کی۔ امریکا کے قومی سلامتی کے محکمے کی ریکارڈنگز دو ہزار دس میں عام لوگوں کے ملاحظے کے لیے کھول دی گئیں۔ ایک ریکارڈنگ میں ہنری کسنگر اکتوبر انیس سو تہتر میں امریکا میں متعین سوویت سفیر اناطولی ڈوبرینن سے کہہ رہے ہیں کہ دونوں (عرب اسرائیل) میں سے کسی کا بھی فیصلہ کن انداز میں جیتنا خطے (مشرقِ وسطٰی) کے لیے برا ہوگا۔
اس زمانے میں سوویت یونین نے روسی یہودیوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ امریکی کانگریس نے سوویت یونین سے تجارت کو روسی یہودیوں کی نقلِ مکانی سے مشروط کرنے کے لیے بیرونی تجارت کے قانون میں جیکسن وانک ترمیم کی منظوری دی۔ ہنری کنسگر نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ روسی یہودیوں کی نقلِ مکانی ہماری خارجہ پالیسی کا دردِ سر نہیں۔ کسنگر نے صدر نکسن سے کہا کہ اگر روسی اپنے یہودیوں کو گیس چیمبر میں بھی بھیج دیں تو یہ ایک انسانی مسئلہ ضرور ہو سکتا ہے مگر امریکی مفادات کا مسئلہ نہیں ہے۔
کسنگر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست و سفارت کاری کو بنیادی انسانی اقدار سے نتھی کرنے کے بجائے خالصتاً ریاستی مفاد کی خود غرض عینک سے دیکھنے کے عادی تھے۔ ان کی بیشتر عالمی پالیسیاں اس سوچ کا بین ثبوت ہیں۔
تاہم جب کسنگر ریاستی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو گئے تو انہیں اپنی یہودی شناخت رفتہ رفتہ یاد آنے لگی۔ انہوں نے انیس سو ستتر میں کہا کہ اسرائیل کا تحفظ تمام آزاد انسانوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ وفات سے تین ماہ پہلے اسرائیلی اخبار ماریف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’میں ایک یہودی ہوں۔ اس حیثیت میں آلِ یہود اور اسرائیل کی بقا میرا ذاتی مسئلہ ہے‘‘۔
کسنگر کے رویے میں تبدیلی کو اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے بھی بادلِ نخواستہ تسلیم کر لیا۔ دو ہزار بارہ میں اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے اسرائیلی ریاست کے لیے خدمات کے اعتراف میں ہنری کسنگر کو تمغہِ صدارت سے نوازا۔ دو ہزار چودہ میں عالمی جیوش کانگریس نے ہنری کسنگر کی غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں صیہونی نظریے کے بانی کے نام پر قائم تھیوڈور ہرزل ایوارڈ سے نوازا۔ اس موقع پر اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے اسرائیل کے لیے ہمدردی اور محبت رکھنے کے لیے ہنری کسنگر کو سراہا۔
البتہ سب سے بڑا یہودی اعزاز ’جینیسس پرائز‘ ہنری کسنگر کو نہ مل سکا۔ جینیسس پرائز امیریکی جریدے ٹائم میگزین کے بقول یہودی نوبیل انعام ہے۔ اس انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کے ارکان نے وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ کسنگر کی پالیسیوں میں انسانی شفقت کی کمی رہی۔ وہ بطور وزیرِ خارجہ اسرائیل کے لیے موجودہ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کی طرح بہت کچھ کر سکتے تھے، مگر انہوں نے خود کو الگ تھلگ رکھا، چنانچہ وہ سب سے اونچے یہودی اعزاز کے اہل نہیں ہیں۔
اگلے مضمون میں ہم ان یہودی شخصیات کا ذکر کریں گے جو مختلف ادوار میں بطور وزیرِ خارجہ امریکی پالیسی کی نگراں رہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔