ترقی یافتہ معاشرے میں ہیروز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ اُس کے ریاستی ادارے مضبوط ہوتے ہیں، ہیروز آتے جاتے رہتے ہیں اور ادارے اپنی جگہ قائم رہتے ہوئے معاشرے کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اس کی مثال برطانیہ کے وزیرِاعظم چرچل کی ہے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کی راہنمائی کی۔ مگر جنگ کے خاتمے کے بعد اہلِ برطانیہ نے یہ نہیں کیا کہ اُن کو تاحیات وزیرِاعظم مُنتخب کیا بلکہ انتخاب میں اُسے ہَرا کر یہ ثابت کر دیا کہ اب اُنہیں جنگی وزیرِاعظم کی ضرورت نہیں ہے اور وہ برطانوی سلطنت کو ختم کر کے فلاحی معاشرہ چاہتے ہیں۔
تاریخ میں اس کے برعکس کبھی قوم پرستی، مَذہبی جذبات اور ایمپیریل ازم کی خواہشات کے تحت ہیروز کو مُقدّس بنا کر اُن کی شخصیت کو افضل اور برتر قرار دیا جاتا ہے اور ان شخصیتوں کے جرائم کو بھی معاف کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسکندر کی ہے جس نے اپنے ذاتی عزائم کے لیے ایران، مِصر، بابُل اور ہندوستان پر حملے کیے۔ اپنی فتوحات کے لیے ہر جنگ میں ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کیا۔ اس قتلِ عام میں فوجی اور شہری دونوں شامل تھے۔ اِن جرائم کے باوجود اُسے ’گریٹ‘ یا عظیم بنا دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اُن قوموں نے بھی اُسے عظیم قرار دیا، جنہوں نے شکست کھائی تھی اور اُس کی فوجوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اُس کے قدیم ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔ پاکستان میں جہلم کے قریب جہاں اُس نے پورَس کو شِکست دی تھی، اُس کی فتح کی یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ اس طرح ہم اُس کے قتل و غارت گری کے عمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔
جولیس سیزر کو جب بروٹس اور اُس کے ساتھیوں نے قتل کیا تو اُسے نہ صرف ہیرو قرار دیا گیا بلکہ دیوتا کا درجہ دے کر آسمان کا ستارہ بنا دیا گیا۔ پھر اُس کے نام پر جولین فیملی نے بادشاہت کے ساتھ نیرو تک حُکومت کی۔ جب سیزر کے دوسرے جانشین ٹائبیریس کی حکومت آئی تو ایک مؤرخ نے سیزر کی بجائے بروٹس اور اس کے ساتھیوں کو ہیرو قرار دیا، جنہوں نے رومی جمہویہ کی خاطر سیزر کو قتل کیا تھا۔ اس پر رومی سینٹ نے مؤرخ کی تمام کتابوں کو جلا دینے کا حکم دیا تا کہ سیزر بحیثیت ہیرو کے زندہ رہے۔
انگلستان کے مؤرخ کارلائل (d.1881) نے ہیرو ورشپ پر ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں خاص طور سے ہم دو ہیروز کا تذکرہ کریں گے۔ جن کے بارے میں کارلائل نے تعریف اور توصیف کی ہے۔ اِن میں سے ایک (d.1658) کرامویل Cromwell تھا جو برٹش (British) پارلیمنٹ کا رُکن تھا۔ اس نے نہ صرف انگلستان کے بادشاہ چارلس (اوّل) کو شکست دے کر موت کی سزا دِلوائی بلکہ آئرلینڈ میں جا کر آئریش (Irish) لوگوں کی بغاوت کو کچل کر اُن کا قتلِ عام کیا۔ اپنے اقتدار کی خاطر اُس نے پارلیمینٹ کا کوئی اجلاس بھی نہ ہونے دیا۔ کارلائل کی کتاب کے بعد یہ ہیرو بن کر اُبھرا اور اب اِس کا مجسمہ پارلیمنٹ کے احاطے میں کھڑا ہے۔
کسی بھی شخصیت کو ہیرو بنانے کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس کی شخصیت میں اہم خصوصیات ہیں جسے جرمن ماہر عمرانیات Max Weber (d. 1920) (Charismatic) کہتے ہیں۔ اب تیسری دنیا کے عوام اپنے ہیروز میں یہ خصوصیات پا کر اُن کے پیروکار ہو جاتے ہیں اور اُن کی شخصیت کا ناقدانہ تجزیہ نہیں کر پاتے۔
جب کسی سوسائٹی میں کوئی شخصیت ہیرو بن جاتی ہے تو دوسری قومیں بھی اُس کی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ مثلاً جب مصطفےٰ کمال نے ترکی کی ریاست کو جدید ریاست بنایا تو اُسی سے مسلم ممالک کے کئی راہنما مُتاثر ہوئے اور انہوں نے بھی یہ کوشش کی کہ اُس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے مُلکوں کو بھی جدید بنائیں۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی اور افغانستان میں اَمیر حبیب اللہ نے مصطفےٰ کمال کی تقلید کرتے ہوئے اپنے مُلکوں میں اصلاحات کرنا چاہیں، مگر وہ اس لیے ناکام رہے کیونکہ نہ تو اِن میں مصطفےٰ کمال جیسی صلاحیت تھی اور نہ اہلیت۔
پاکستان میں ماضی کے ہیروز کو استعمال کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی آمر اقتدار میں آتا ہے تو اُسے فوراً صلاح الدّین ایّوبی یا محمود غزنوی بنا دیا جاتا ہے تا کہ اُس کا اصل رُوپ ماضی کے ہیروز میں ڈھل جائے اور قوم اُن سے اُن ہی کارناموں کی اُمید کرے، جو تاریخ میں اُن کے ہیروز کر چکے ہیں۔
پاکستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں نام نہاد ہیروز کے خاندان اپنے مُفادات کے لیے اُنہیں استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل ایسا ہی ہے، جیسا صوفیا کے سجادہ نشین اپنے امتیاز کو قائم رکھتے ہوئے خود کو برتر سمجھتے ہیں۔
ہیرو ورشپ کا جادو اُسی وقت ٹوٹے گا، جب معاشرے میں تعلیم آئے گی۔ دانشور اور مُفکّرین نئے خیالات اور اَفکار پیدا کریں گے اور اس سے نجات پائیں گے کہ ماضی کے ہیرو اور اُن کے افکار، جو فرسودہ ہو چکے ہیں، وہ کبھی بھی راہنمائی کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ماضی کبھی بھی واپس نہیں آتا ہے۔ حال کو ماضی سے وابستہ رکھنے کی بجائے مُستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے اور اُن نظریات و اَفکار کی تقلید کرنا چاہیے جو جدید دنیا کی ضرورتوں کو پورا کریں۔ ہیرو ورشپ لوگوں کو اپنے سائے میں لے کر اُن کے اعتماد اور آزادی کو ختم کر دیتی ہے۔ ہیروز گزری ہوئی تاریخ کا حصّہ ہوتے ہیں اُنہیں یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ زندہ لوگوں پر حُکومت کریں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)