حالیہ واقعات اور طلبہ سیاست میں شاندار تبدیلی

پروفیسر ریاض احمد (کراچی یونیورسٹی)

دن کے ۲ بجے پوائنٹ ٹرمنل پر قریب دو سو طلبہ و طالبات پوائنٹس بسوں کے سامنے کھڑے احتجاج کر رہے تھے کہ اعلان ہوا کہ وائس چانسلر نے پوائنٹس کینسل کر دیے ہیں۔ چند احتجاجی طلبہ بسوں میں داخل ہوئے اور اپیل کی کہ فیسوں میں اضافے پر احتجاج کا ساتھ دیں اور ہمارے ساتھ چلیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بیس کے قریب بسوں سے ایک ہزار طلبہ بسوں سے اتر کر احتجاجیوں میں شامل ہو گئے۔ ڈیڑھ بجے چلنے والے پوائنٹس پہلے احتجاج اور پھر انتظامیہ کی وجہ سے نہ چل پائے۔ پھر یہ جلوس ایڈمن بلاک کی طرف روانہ ہوا، جہاں دوسری منزل پر یہ احتجاجی دھرنا دے کر وی سی آفس کے باہر بیٹھ گئے۔ قائدین نعروں کے ساتھ بار بار بتاتے کہ احتجاج پرامن ہے اور ہم نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا۔ رات ۸ بجے تک یہ احتجاج جاری رہا۔ انتظامیہ اور وائس چانسلر نے مذاکرات تو کیے مگر مطالبات منظور نہ کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طلبہ نے ۱۷ اکتوبر کو یونیورسٹی میں ہڑتال کی کال دے دی۔

۱۷ اکتوبر کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ ۲۰ سالوں میں وہ پہلا دن تھا، جب طلبہ نے ہڑتال کی کال دی۔ رات ۸ بجے تک ایڈمن بلاک پر پھر دھرنا جاری رہا اور یہ تاریخ ساز دن اگلے روز تک پھیل چکا ہے اور آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو یونیورسٹی میں پھر ہڑتال ہے۔

اُدھر پنجاب میں نجی مالکان کے پنجاب گروپ آف کالجز کے ہر شہر میں کالج جیسے احتجاج گاہ بن گئے۔ طالبہ ریپ کیس میں ۱۷ اکتوبر کو ہی پنجاب کے قریب پندرہ شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات پنجاب کالج لاہور کے احتجاجی طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نکلے۔ صرف پنڈی میں ۳۸۰ طلبہ گرفتار ہوئے۔ اس احتجاج کا زور اتنا ہے کہ پنجاب بھر میں اسکول کالجز یونیورسٹیاں تین روز کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ ایسا جنسی ہراسانی اور زناء بالجبر جیسے واقعات تو قریب روز ہی ہوتے ہیں مگر اظہار یکجہتی یعنی غم بانٹنا جیسے ایک اوبال کی طرح امڈ آیا ہے۔

کراچی یونیورسٹی میں طلبہ مسائل پر تحریک کی کوششیں گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہیں۔ ماہ ستمبر میں اسلامی جمعیت طلبہ، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر تنظیموں نے ’حق دو جامعہ کراچی کو‘ کے عنوان سے اس کوشش کا آغاز کیا۔ طلبہ کلاسز میں جا کر اپنا مدعا بیان کرتے، جس میں فیسوں میں ۱۰ فیصد اضافہ، پوائنٹس، ہاسٹلز، ٹوائلٹس، واٹر کولر اور تباہ ہوتا ہوا انفراسٹرکچر جیسے مسائل پر بات کرتے۔ کئی سالوں میں یہ پہلی بار تھا کہ طلبہ کو جگانے کی لیے طلبہ متحرک تھے۔ البتہ اس تحریک کو جلا اس وقت ملی، جب کراچی یونیورسٹی نے سمسٹر فیس جمع کرانے کی تاریخ ۵ اکتوبر کر دی اور ساتھ میں ڈیفالٹر لسٹ بھی جاری کر دی۔ اس لسٹ میں اگر کسی طالب علم پر تین سال کی واجب الادا فیس ڈھائی لاکھ تھی تو پچاس فیصد فائن ملا کر یہ تین لاکھ پچاس ہزار ہو گئی۔ اس قدر مہنگائی کے دور میں طلبہ پہلے ہی فیس نہیں دے پا رہے تو یہ اتنا فائن کہاں سے دیتے۔ اسی ماہ پروفیسران پر مشتمل اکیڈمک کونسل کے اساتذہ نے گزشتہ سال فیسوں میں ۳۰ فیصد اضافے پر اس سال ۱۰ فیصد اضافے پر تنقید کی تھی۔ یوں فائن اور فیس میں اضافہ طلبہ الائنس کی جاری مہم کے لیے تحرک بن گیا۔

احتجاج کی کال ۱۶ اکتوبر کو دی گئی اور یوں کراچی یونیورسٹی میں دو ہائیوں بعد طلبہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم ہو گئے۔ احتجاج کے چوتھے روز ابھرتی ہوئی طلبہ تنظیم ’سندھی شاگرد ستھ‘ نے بھی طلبہ تحریک کی حمایت کر دی۔ اسی یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین بھی گزشتہ ۴ سالوں سے مسلسل حقوق کی پامالی اور انتظامی بحران کے خلاف متحرک ہیں۔ لیکن ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی طرح سخت گیر انتظامیہ نجکاری کے لیے موضوں ہے اسی لیے انتظامی بحران کو جاری رکھا جاتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ پانچ سالوں میں یونیورسٹی چلانے کے لیے طلبہ سے فیس پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔ اس سال کے ۱۰ ارب روپے کے بجٹ میں ۵ ارب روپے فیس کے ہیں۔ پانچ سال قبل ۶ ارب روپے کے بجٹ میں فیس دو ارب روپے سے کم تھی۔ ہر سال فیسوں میں ۱۰ فیصد اضافہ ۱۹۹۶ سے ہو رہا ہے۔ لیکن اب حکومتی پالیسی یہ ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کو اندرونی طور پر وائس چانسلروں کے حوالے کر دیا جائے اور وہ کم اجرت پر اساتذہ و ملازمین سے کام کروائیں اور طلبہ سے فیس لے کر یونیورسٹی چلائیں۔ تعلیم کو کاروبار بنانے کی نج کاری کی یہ پالیسی نجی یونیورسٹیوں کے سیلاب کی شکل میں پہلے ہی موجود ہے، جہاں فیسیں ۳ لاکھ سے ۲۵ لاکھ سالانہ وصول کی جا رہی ہیں اور ان نجی یونیورسٹیوں کی طرح اب ۸۰ فیصد غریب عوام کو یونیورسٹی تعلیم سے باہر کیا جا رہا ہے۔

عالمی اداروں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہمارے حکمران تو یقیناََ عوام کے حقوق کا سودا کر رہے ہیں مگر طلبہ کو اس سودے میں بیچنا مشکل ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک اس بابت شاندار ہے کہ یہ سماج میں بنیادی مسئلہ یعنی لوئر مڈل کلاس کے لیے سَستی اور معیاری تعلیم کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک عرصہ بعد کراچی یونیورسٹی کے طلبہ، گزشتہ ۷۷ سال کی تاریخ کی طرح، پورے ملک کے طلبہ کو یہ ثابت کر کے دکھا رہے ہیں کہ یونیورسٹیاں کاروبار کے لیے نہیں اور یہ طلبہ ہی ہیں جن کے دم سے یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔

طلبہ اپنا بنیادی مدعا جب بھی تلاش کر لیں، دیگر طلبہ میں اس کی مہم چلائیں تو یقیناً یہ متحد ہو جاتے ہیں اور یونیورسٹی کی سب سے بڑی قوت بن کر ابھرتے ہیں۔
جہاں بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی، پختونخوا میں پی ٹی ایم جرگہ عوام الناس کو موبیلائیز کر کے حکومتی پالیسیوں پر سراپا احتجاج ہیں اور جبر و تشدد سے گبھرا نہیں رہے۔ اسی سال کشمیر میں بجلی بل کے خلاف عوام الناس ابھرے اور بہت بڑی تحریک بنی اور حقیقی معنوں میں ’جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا‘ اب عوامی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

ہر جگہ جبر اور استحصال کی شکل مختلف ہے، اسی لیے اس کے جواب میں تحریک کی شکل بھی۔ لیکن ایک بنیادی نکتہ سب میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ’ساڈا حق، ایتھے رکھ۔‘ اس حق کی جدوجہد میں ابھرنے والوں کو اپنے اطراف کی جدوجہد میں جبر و استحصال پر نظر رکھنی چاہئیے اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہئیے۔ یہ یکجہتی پھیلے گی تو یقیناً ہمارے حکمران جو ملک کی پارلیمان، آئین، اداروں کو ایک مذاق بنا چکے ہیں اور عالمی قوتوں کے آگے غریبوں کا سودا کر رہے ہیں، ان کی جانب سے تفریق کی کوششیں جیسے مذہبی، لسانی، گروہی ظلم و جبر کی جانب جانے والی عوام اپنے بنیادی معاشی حقوق کے لیے سرگرم ہوگی۔

طلبہ یونیورسٹیوں کی روح ہیں۔ یہ متحد ہو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی برداشت بڑھ رہی ہے۔ ایک توانا آواز کراچی یونیورسٹی، پنجاب کے اداروں سے ابھر رہی ہے۔ فیسوں میں اضافے اور جنسی ہراسانی کے خلاف طلبہ ڈٹ گئے ہیں۔ اساتذہ و ملازمین کو طلبہ کا ساتھ دینا چاہِیے۔ یہی طلبہ اس سماج میں سب سے بڑی امید ہیں۔
(۱۸ اکتوبر، ۲۰۲۴)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close