صنعتی انقلاب سے قبل کا یورپ

ڈاکٹر مبارک علی

صنعتی انقلاب سے قبل کا یورپی معاشرہ پسماندگی کی ایک تصویر تھا اور اس میں عدم مساوات اپنی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ لیکن پھر ٹیکنالوجی کی آمد اور صنعتوں کے قیام نے یکدم اس کی کایا پلٹ دی۔

 

تاریخ میں بعض حادثات اور واقعات اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ وہ ماضی اور حال کو جدا کر کے دو حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ماضی قدامت پسندی کی علامت بن جاتا ہے، جبکہ حال مستقبل کی ترقی کے لیے راستے دریافت کرتا ہے۔ صنعتی انقلاب کی اہمیت کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب اس سے پہلے یورپ کے معاشرے کا تجزیہ کیا جائے اور اُس کی پسماندگی پر غور کیا جائے۔ صنعتی انقلاب نے نہ صرف یورپ کی معاشی اور سماجی زندگی کو تبدیل کیا بلکہ ذہنی ترقی کے باعث اُس نے ماضی سے نجات پا کر مستقبل کے لیے راہیں ہموار کیں۔ اس موضوع پر Carlo M. Cippolla نے اپنی کتاب Before the industrial Revolution یا صنعتی انقلاب سے پہلے یورپ کا ذکر کیا ہے۔

یورپ کا معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم تھا۔ مذہبی عہدیدار، اُمراء اور عوام۔ پہلے دو طبقے مراعات یافتہ تھے، ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر ان ہی کا تقرر ہوتا تھا۔ اُمراء کے لیے جنگ ایک پیشہ تھی، کیونکہ اس میں وہ لوٹ مار کر کے دولت اکٹھی کرتے تھے۔ یہ دونوں طاقتور طبقے کوئی ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے تھے، ٹیکسوں کا بھاری بوجھ عوام پر تھا۔ عدم مساوات کی وجہ سے امیر و غریب میں بہت زیادہ فرق تھا۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے جرائم کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ بڑے جرائم فیوڈل لارڈز کی سرپرستی میں ہوتے تھے، ان میں مویشیوں کی چوری قابلِ ذکر ھے۔

بےروزگار نوجوانوں کے لیے کام کے مواقع بہت کم تھے۔ یہ اُن بھٹیوں پر کام کرتے تھے، جہاں لوہے کو پگھلایا جاتا تھا، دھوئیں میں سانس لینے سے ان کے پھیپھڑے کمزور ہو جاتے تھے۔ کچھ نوجوان کوئلے کی کانوں میں کام کرتے تھے، جہاں تازہ ہوا کی کمی ہوتی تھی۔ کچھ نوجوان مویشیوں کی کھالوں کی صفائی کرتے تھے، اس لیے ان میں بیماریاں عام تھیں۔ ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ علاج کے لیے دوائیں کم دستیاب ہوا کرتیں تھیں۔ ہسپتال میں ایک ہی بستر پر دو مریض لیٹا کرتے تھے، لہٰذا نوجوانوں میں موت کی شرح زیادہ تھی۔

معاشرے میں چرچ کا ادارہ نہ صرف طاقتور تھا بلکہ صاحبِ جائیداد بھی تھا، کیونکہ اُمراء مرنے سے پہلے اپنی زرعی زمین کا ایک حصہ چرچ کو دے دیتے تھے تا کہ اُس کے عوض اُنہیں جنت میں جگہ مل جائے۔ دوسرا مذہبی ادارہ خانقاہوں کا تھا، یہاں راہب دن رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ یہ ایک ایسا ادارہ تھا، جہاں نااہل اور بےکار نوجوان راہب بن کر زندگی گزارتے تھے۔ خانقاہ کے اخراجات کے لیے بھی اُمراء کی جانب سے قابلِ کاشت زمینیں عطیہ کر دی جاتی تھیں۔ راہبوں کا یہ فرقہ غیر پیداواری تھا، جو معاشرے پر ایک مالی بوجھ تھا۔

یورپ میں گیارہویں سے تیرھویں صدی تک اُس وقت تبدیلی آئی، جب اس میں شہروں کی بنیادیں پڑیں۔ رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد فیوڈل لارڈز اپنی جاگیروں پر بنے قلعوں میں رہتے تھے۔ یہاں ان کے ملازم اور فوج بھی رہا کرتی تھی۔ مذہبی عہدیداروں، تاجروں اور عوام کے لیے چھوٹی بستیاں ہوتیں تھیں، جن کی آبادی کم ہوا کرتی تھی لیکن جب تاجروں نے دوسرے ملکوں سے تجارت شروع کی تو امپورٹ کیے ہوئے مال کے لیے اُنہوں نے پندرہ روزہ اور ہفت روزہ بازار لگانے شروع کیے۔ یہاں قریبی قصبوں اور دیہاتوں سے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ یہ بازار مستقل منڈیاں بن گئے، جہاں دکانیں ہوتیں تھیں، جو ضرورت کی ہر شے فروخت کرتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں بورژوازی طبقہ پیدا ہوا، جو ذہنی طور پر ترقی پسند تھا، اور فیوڈل لارڈز کے مقابلے میں زیادہ با عمل اور کامیابی کے لیے ہر موقع استعمال کرتا تھا۔

شہروں کو اہمیت اس وقت حاصل ہوئی، جب حکمرانوں نے نئے شہروں کی سرپرستی کی۔ شہروں میں آباد تاجروں نے مختلف ادارے تشکیل دیے، جس میں میونسلپٹی بھی شامل تھی۔ میونسپلٹی کا کام تھا کہ شہر میں صفائی کا انتظام ، جرائم کی روک تھام کرے اور لوگوں کو اُن کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرے۔ شہر میں اس طرح سے تاجروں کی حکومت تھی اور اگر کوئی کسان بھاگ کر شہر میں آ جاتا تھا تو اُسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک جرمن کہاوت تھی کہ شہر کی فضا آزاد کر دیتی ہے۔ (Stadt Luft Macht Frei)

شہروں نے ایک نئے کلچر کو بھی متعارف کرایا۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ ادب، آرٹ، موسیقی اور تعمیرات میں بھی نئے افکار و خیالات کو روشناس کرایا۔

بورژوازی طبقے نے اپنے سرمائے، تعلیم اور سیاسی تجربے کی بنیاد پر فیوڈل لارڈز کے اثر و رسوخ کو ختم کیا، جب فیوڈل لارڈز نے شہروں کی ترقی کو دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ اپنی جاگیروں پر اپنے قلعوں میں بند رہیں گے تو اُن کے تسلط کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لیے انہوں نے شہروں میں بھی اپنے محلات تعمیر کرائے، جہاں آ کر وہ کچھ وقت گزارتے تھے، لیکن بورژوازی طبقے کے آگے اُن کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔

اس تجزیے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی اپنے آپ سے نہیں آتی ھے بلکہ اسے لانے کے لیے معاشرے کے ذہن کو بدلنا ہوتا ہے، جو یہ تسلیم کرے کہ فرسودہ روایات میں ترقی نا ممکن ھے، ترقی کے لیے نئے خیالات و افکار اور نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یورپ کے معاشرے میں اس ضرورت کو نئی ٹیکنالوجی نے بھی پورا کیا۔ خاص طور سے واٹر مِل نے، جس نے انسانی مشقت کو کم کر کے اُسے سہولت دی۔ اس نقطۂ نظر سے جب صنعتی انقلاب کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ھے کہ اس نے دُنیا کو بدلنے میں کیا کردار ادا کیا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close