ماضی کا احیا اور تاریخ میں لوگوں کی بڑھتی دلچسپی

ڈاکٹر مبارک علی

وقت کے ساتھ تاریخ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ تاریخ کی ایک قسم اکیڈمک ہے، جس میں مورخ بنیادی ماخذوں کی مدد سے تاریخ کی تشکیل کرتا ہے۔

ابتدا میں یہ تاریخ وسیع موضوعات کا احاطہ کرتی تھی۔ جیسے رومی سلطنت پر ایڈورڈ گبن کی کتاب (Destined Fall of Roman Empire) ہے۔

لیکن اس کے مقابلے پر اب وسعت کے بجائے تہذیب یا سلطنت کے کسی ایک پہلو پر گہرائی کے ساتھ تحقیق کی جاتی ہے، جیسے ’رومی دور میں حمام‘ یا ’ایرانی عہد میں ڈاک کا نظام‘ وغیرہ۔

یہ علمی تاریخ جو حوالہ جات کے ساتھ لکھی جاتی ہے۔ علمی حلقوں ہی تک محدود رہتی ہے، اور عام لوگوں تک اس وقت پہنچتی ہے جب اسے آسان زبان میں پیش کیا جائے۔

علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کی تاریخ سے دلچسپی دیکھتے ہوئے ایک جانب وہ مورخ ہیں جو سادہ زبان میں اور کم حوالہ جات کے ساتھ تاریخی شخصیات کی اہمیت کو ابھارتے ہیں۔

شخصیات میں حکمراں، فوجی جرنیل، ادیب، شاعر، آرٹسٹ، ماہر تعمیرات اور مذہبی شخصیات ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنی یاداشتیں، ڈائریاں اور خط و کتابت چھوڈ دی ہیں۔

یہ ان کے عہد کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔

موجودہ زمانے میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، سینیما، اخبارات اور رسالوں نے بھی تاریخ کو مقبول بنایا ہے۔ اخباروں اور رسالوں میں تاریخ کے موضوعات پر برابر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔

ریڈیو، ٹیلی ویژن پر تاریخی دستاویزات کو پیش کیا جاتا ہے، لیکن سب سے زیادہ اہمیت تاریخی فلموں کی ہے۔ جدید دور کے انسان کو ماضی سے رومانوی رشتہ رہتا ہے۔

وہ ماضی کو واپس نہیں لا سکتا ہے، مگر فلموں کے ذریعے اس کی عکاسی ضرور ہو جاتی ہے۔

مثلاً روسی فلم نگار سرگے بوندارچک نے ٹالسٹائی کے مشہور ناول ’جنگ اور امن‘ پر پانچ گھنٹے پر محیط دنیا کی مہنگی ترین فلم بنائی۔

ہالی وڈ اور یورپ کے فلم سازوں نے یونان، روم اور یورپ کی قدیم اور عہد وسطیٰ کی تاریخ کو فلموں میں ڈال کر اس طرح عکاسی کی ہے کہ دیکھنے والا اسی عہد میں پہنچ جاتا ہے۔

یورپ کے ایمپیریل ممالک جو کبھی نوآبادی طاقتیں تھیں، ان سے محروم ہو کر ان کے پاس ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں ہندوستان پر، ان کے دور حکومت پر نہ صرف ناول اور کتابیں لکھیں گئیں بلکہ بےشمار فلمیں بنائی گئی ہیں، جو انہیں ہندوستان پر حکومت کی یاد دلاتی ہیں۔

ان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اپنے شاندار ماضی کو فلموں کی شکل میں پردہ سکرین پر دکھا کر شاندار ماضی کو یاد کیا جائے اور لوگوں میں قوم پرستی اور فخر کے جذبات کو ابھارا جائے۔

یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قومیں عروج سے گزر کر زوال پذیر ہوتی ہیں۔

یونان اور روم کے محروم لوگ
فلموں کے علاوہ تاریخی ڈراموں کے ذریعے بھی ماضی کو واپس لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اداکار تاریخی ملبوسات میں جب سٹیج پر آ کر مکالمے ادا کرتے ہیں، تو کبھی یہ یونانی ڈراموں کو زندہ کرتے ہیں اور کبھی شیکسپیئر کے ڈرامے ماضی کو واپس لاتے ہیں۔

یہ تاریخی ڈرامے اس قدر مقبول ہو جاتے ہیں کہ سالوں ان کو برابر دہرایا جاتا رہتا ہے۔

ماضی کو واپس لانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پرانے تاریخی واقعات جن میں خاص طور سے جنگیں ہیں۔ ان کو اصل شکل ہی میں دہرایا جائے۔ مثلاً 1812 عیسوی میں نیپولین نے روس پر حملہ کیا تھا۔

اب روسی اس حملے کو اس کی اصلی شکل میں دکھا کر اپنے قومی فخر کو اجاگر کرتے ہیں۔

تاریخ کی دہرائی کا یہ عمل امریکہ اور یورپی ملکوں میں جاری ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر لوگ ذہنی طور پر ماضی میں چلے جاتے ہیں۔ تاریخ کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ٹیلی ویژن کی دستاویزی فلموں نے بھی اہم کردار ادار کیا ہے۔

آثار قدیمہ کی دریافت نے بھی قدیم تہذیبوں کی گمشدگی کو روشنی میں لا کر تاریخ کو نئی وسعت دی ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان نے ارتقائی طور پر کون کون سے مراحل طے کیے تھے، جن میں دکھایا گیا ہے کہ قدیم انسان بھی ہماری طرح ذہین تھا اور اس نے خاص طور پر فنِ تعمیر میں زبردست کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ اہرامِ مصر اس کی زندہ مثال ہے۔

ماضی کو دہرانے کا ایک طریقۂ کار یہ بھی ہے کہ انگلستان اور جرمنی میں قدیم اور عہد وسطیٰ کے گاؤں بنا کر وہاں کچھ عرصے کے لیے لوگوں کو رکھا گیا کہ وہ ماضی کے عہد کی زندگی ہی گزاریں۔

اس عہد کے مکانوں میں رہیں۔ اس کے بعد یہ تحقیق کی گئی کہ اس تجربے سے وہاں کے رہنے والوں نے کیا حاصل کیا۔ قدیم اور جدید کے فرق کو کیسے محسوس کیا۔

عجائب گھروں نے بھی تاریخ کو لوگوں تک پھیلانے میں اہم حصہ لیا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے عجائب گھروں میں قدیم عہد سے لے کر جید دور تک کی گیلریاں ہوتی ہیں۔

ان گیلریوں میں ان کے عہد کے آلات اور مورتیں شامل ہوتیں ہیں۔ جن سے تہذیب کے ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے۔

میوزیم کی جانب سے تاریخی نمائشوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

مثلاً مصر کے تاریخی نوادرات کی نمائشیں یورپ اور امریکہ میں ہوتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے تہذیبوں کے بارے میں برتر اور کمتر ہونے کا فرق کم ہو جاتا ہے۔

انگلستان میں البرٹ اینڈ وکٹوریہ میوزیم میں مغل دور کے نوادرات ہیں، جن کی وہ اکثر نمائش کرتے رہتے ہیں۔ برٹش میوزیم میں دنیا کی تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔ یہاں ہزارہا لوگ روزانہ ان کو دیکھ کر تاریخ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔

جب تاریخ پبلک میں آتی ہے تو مورخ نچلے طبقے کے لوگوں کی تاریخ کو بیان کر کے اس کو ایک نئی زندگی دیتے ہیں۔

ان میں کسانوں کی محنت و مشقت، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور، گھریلو کاموں میں مصروف عورتیں، نچلے طبقے کے لوگوں کی آبادیاں، بیکار اور آوارہ گرد نوجوان، بھیک مانگنے والوں کی تنظیمیں، دھوکہ، غریب اور نت نئے جرائم، جب یہ سب تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں، تو پورے معاشرے کی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔

اس لیے سوال یہ ہے کہ اگرچہ تاریخ مختلف ذرائع سے پبلک تک پہنچ جاتی ہے، مگر کیا اشرافیہ اور عام لوگ اس کو محض تفریح کا سبب سمجھتے ہیں یا اس سے کچھ سیکھتے ہیں؟

جہاں تک پاکستانیوں کا تعلق ہے۔ یہ عالمی تاریخ اور قدیم تہذیبوں سے بے خبر ہو کر اپنی ہی تہذیب کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ جب تک ان کا ذہن اپنے ماضی کے شان و شوکت سے نکل کر موجودہ دور کی حقیقتوں کو نہیں سمجھے گا، اس وقت تک تاریخ کا علم ہمارے معاشرے کے لیے بےمصرف رہے گا۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close