افواہیں اُس وقت پھیلتی ہیں، جب خبروں پر سینسر شپ ہو۔ معلومات کے ذرائع پر پابندیاں ہوں۔ سوسائٹی میں سیاسی انتشار ہو اور لوگ معاشی بحران سے گزر رہے ہوں تو اس ماحول میں افواہوں کے ذریعے لوگ حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
افواہوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا یہ کوئی فرد پھیلاتا ہے یا افواہ میں کئی افراد شامل ہوتے ہیں، جو اُس میں اضافہ کر کے اُس کو مقبول عام بناتے ہیں۔ یہ کہنا بھی مُشکل ہے کہ افواہ کی بنیاد کسی صداقت پر ہوتی ہے یا اُسے اسی طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سچائی پر مَبنی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں افواہیں بڑی تیزی سے پھیلتی رہی ہیں۔ خاص طور سے جنگ کے دوران فرقے وارانہ فسادات میں یا سیاسی سماجی انتشار میں افواہوں کے لیے بڑی جگہ ہوتی ہے۔
افواہوں کا تعلق معاشرے کی طبقاتی تقسیم سے بھی ہے۔ ماضی میں اشرافیہ اپنے قلعوں اور محلات میں رہتے تھے۔ عام لوگوں سے اکثر کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے عام لوگوں میں یہ جاننے کی جستجو ہوتی تھی کہ محلات کی چار دیواری میں کیا ہو رہا ہے۔ جب اُنہیں اس کی کوئی خبر نہیں ملتی تھی تو وہ افواہوں پر بھروسہ کرتے تھے اور محلاتی سازشوں اور اُن کی عیاشیوں کا ذکر افواہوں کے ذریعے پھیل جاتا تھا۔ مثلاً یہ افواہیں خواتین کے بارے میں زیادہ ہوتی تھیں، جیسے شاہجہاں کی بیٹی جہاں آراء اور اَورنگزیب کی بیٹی زیب النساء کے بارے میں اُن کے عشق کی داستانیں مشہور ہو گئیں تھیں۔ ایک اطالوی سیاح Manochi نے مغل دور میں سیاحت کے بعد بازار میں پھیلی ہوئی افواہوں اور گپ شپ کا ذکر کیا ہے۔ ان افواہوں کی وجہ سے اشرافیہ کے بارے میں عوامی نقطۂ نظر سامنے آتا ہے۔
اسی طرح سے رضیہ سلطانہ بھی افواہوں کی شکار ہوئیں۔ کیونکہ ترکی اُمراء ایک عورت کی حکمرانی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے، اس لیے اُن کے بارے میں ایسی افواہیں پھیلائی گئیں تا کہ لوگ اُنہیں اخلاق سے گِری ہوئی خاتون سمجھنے لگیں۔ مثلاً یہ کہا گیا کہ وہ اپنے حبشی غلام یاقوت سے محبت کرتی ہیں، جو اُنہیں گھوڑے پر سوار کراتا ہے۔ اس افواہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی اُمراء اور رضیہ میں جنگ ہوئی، جس میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یورپ کی تاریخ میں بھی ہم افواہوں کا کردار دیکھتے ہیں۔ مثلاً رومی عہد میں جب مسیحی اقلیت میں تھے۔ اُن کے بارے میں افواہیں پھیلتی تھیں تا کہ لوگوں کو ان سے نفرت ہو جائے۔ NERO کے عہد میں رُوم میں جو آگ لگی تھی اُس کے بارے میں بھی یہی افواہ تھی کہ یہ آگ مسیحیوں نے لگائی ہے۔ مسیحیوں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ وہ بچوں کو اغواء کر کے اُن کے خون سے اپنی رسم ادا کرتے ہیں۔ جب 313 عیسوی میں رومی سلطنت عیسائی ہو گئی تو بچوں کو اغواء کرنے کا الزام یہودیوں پر لگایا جانے لگا۔
یورپ کے عہد وسطٰی میں تنہا رہنے والی اور جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والی بوڑھی خواتین کے حوالے سے بھی افواہیں پھیلائی جاتی تھیں۔ اُن پر جادو گرنیاں ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ اُن کے بارے میں یہ افواہیں بھی پھیلیں کہ وہ کسانوں کے مویشیوں کو مار دیتی ہیں۔ کھیتوں کو تباہ کر دیتی ہیں اور جنگل میں شیطان کے ساتھ رقص کرتی ہیں۔ ان جادوگرنیوں پر یورپ اور امریکہ میں مقدمے چلائے گئے۔ اُنہیں اذیتیں دے کر اعترافات کرائے گئے اور پھر انہیں موت کی سَزاد دی گئی۔ اٹلی کے مورخ Karlo Ginsberg نے مقدمات کی فائلوں کی مدد سے جادوگرنیوں کے بارے میں تحقیق کی ہے۔
برصغیر ہندوستان بھی افواہوں کا مرکز رہا ہے۔ 1739 میں جب نادر شاہ، محمد شاہ مُغل بادشاہ کو شکست دے کر اپنی فوج کے ساتھ دہلی میں آیا اور خود لال قلعے میں قیام کیا۔ اس کی آمد اور دہلی میں اس کی فوج کی وجہ سے دہلی کے فوجی خوف زدہ تھے۔ اس ماحول میں ایک چنڈو خانے میں (جہاں اَفیم پی جاتی تھی) کسی نے نشے میں آکر یہ افواہ اُڑا دی کہ واہ رے محمد شاہ تیرے کیا کہنے، تیری قلم کانیوں نے نادر شاہ کو قتل کر دیا۔ جب یہ افواہ شہر میں پھیلی تو لوگوں نے نادر شاہ کی فوج پر حملہ کر کے فوجیوں کو مارنا شروع کر دیا۔ جب نادر شاہ کو یہ خبر پہنچی تو وہ محل سے نکل کر مسجد میں آ بیٹھا، اور اپنی تلوار نیام سے نکال کر اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ شہریوں کا قتل عام کریں۔ کہتے ہیں کہ تقریباً تین ہزار شہری مارے گئے۔ مُغل امیر نظام المُلک نے مسجد میں جا کر نادر شاہ سے معافی مانگی اور قتل عام روکنے کی درخواست کی۔ جب نادر شاہ نے اپنی تلوار نیام میں ڈالی تو شہریوں کے قتل کا سلسلہ تھم گیا۔
1857 کی جنگ آزادی کے موقع پر جب کمپنی کی فوجوں نے دہلی کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو شہر میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ ایرانی فوج اُن کی مدد کے لیے آ رہی ہے اور اِسے دہلی کی دیواروں پر بھی لِکھ دیا گیا تھا۔ لیکن یہ محض افواہ ہی رہی۔ تقسیم کے وقت جو فرقے وارانہ فسادات ہوئے ان میں افواہوں کا بڑا دخل تھا۔ افواہیں جہاں ایک طرف لوگوں کو خبریں دے کر اُن کو مطمئن کرتی ہیں وہیں یہ بلاسبب خونریزی کا بھی باعث ہوتی ہیں۔ حکمراں طبقے بھی افواہوں کا سہارا لے کر اپنے مخالفوں کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ افواہیں تاریخ کے بیانیے کو ایک نیا موڑ بھی دیتی ہیں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)