’مرنا آپ کی اور لاش منگوانا حکومت کی ذمہ داری ہے‘

وسعت اللہ خان

یہ خبر کئی برس سے سال میں ایک بار ضرور آ جاتی ہے کہ بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے سے جو درجنوں یا سینکڑوں تارکینِ وطن ہلاک ہوئے، اُن میں اِتنے پاکستانی ہیں۔ ایسی ہر خبر سُننے کے بعد جو بھی وزیرِ اعظم ہو، اُس کی صدارت میں کابینہ اجلاس ہوتا ہے، جو سب سے پہلے مرنے والوں کے لیے فاتحہ خوانی کرنے کے بعد بیرونِ ملک پاکستانی سفارتی عملے کو متاثرین کی ہر ممکن امداد کا حکم دیتا ہے۔

اس کے بعد یہ اجلاس پولیس اور ایف آئی اے کو اُن کی پیشہ ورانہ نااہلی پر سخت سست سُناتا ہے اور دوسرے ہی سانس میں اِن ’نااہل اداروں‘ کے لیے انسانی اسمگلرز کے خلاف فول پروف کریک ڈاؤن کا فرمان جاری کرتا ہے۔

پھر یہ اجلاس پاکستان کو ’بدنام‘ کرنے والے اس قبیح کاروبار کو مزید مضبوط تعزیراتی ’نتھ‘ ڈالنے کے لیے ایک اور سخت قانونی بل پارلیمنٹ سے منظور کروانے کا عزم ظاہر کرتا ہے۔

محکمہ اطلاعات اور میڈیا کو 221ویں بار نصحیت کرتا ہے کہ وہ عوامی آگہی کی مہم تیز کر دیں کہ باہر جنت نہیں ہے۔ اپنا گھر جیسا بھی ہو اپنا ہوتا ہے، بچوں کو سنبھالیں، انہیں قناعت کے فوائد سمجھائیں اور محنت کر کے اپنی ہی جگہ پر رزقِ حلال کمانے کا درس دیں اور راتوں رات امیر بننے کی منحوس ہوس سے بچائیں۔

ایسے ہر سانحے کے بعد ایف آئی اے اپنی تازہ ریڈ بُک لہراتی ہے، جس میں انسانی اسمگلروں کے نام درج ہوتے ہیں۔۔ اور یہ کہ ہم کتنی جانفشانی سے اس سنگین مسئلے کے گڑھ (بالخصوص وسطی و شمالی پنجاب) میں موجود ناسوروں اور اُن کے گاؤں گاؤں پھیلے چیلے چماٹوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں، گرفتار کر رہے ہیں، پرچے کاٹ کر رہے ہیں، تفتیش تیز کر رہے ہیں۔

اور آخر میں وزیرِ اعظم کو بتایا جاتا ہے کہ جو 174 کیسز گذشتہ برس عدالت میں پیش ہوئے، اُن میں سے صرف چار کو اب تک الحمدللہ سزا سنائی جا چکی ہے۔

ایف آئی اے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو موت کے سفر پر روانہ کرنے والے خاندان اُن مشکلات سے اچھے سے واقف ہیں۔ وہ اُن سے پہلے جانے والوں کو لاشوں کی صورت گھر واپسی کا منظر دیکھ چکے ہیں، اگر دیکھا نہیں تو آس پاس والوں سے سُنا ضرور ہوگا۔

یہ متاثرین اس ایجنٹ اور دلال کو بھی جانتے ہیں جو کئی برس سے ورغلانے کا کاروبار کر رہا ہے، مگر جب اِن متاثرین سے ایسے کسی سانحے کے بعد اپنے بچے کی موت کے ذمہ دار دلال کے خلاف گواہی دینے کے لیے رابطہ کیا جائے تو اکثر یہ کہہ کر صاف مکر جاتے ہیں کہ ہمیں کسی قانونی چکر میں نہیں پھنسنا۔۔ بس اللہ کی امانت، اللہ نے لے لی۔

اور پھر اُن میں سے بہت سے متاثر خاندان اسی ایجنٹ کی ویسی ہی یقین دہانی پر دوبارہ اعتبار کر کے اپنا اگلا بیٹا موت کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں کہ ہم آپ سے اور پیسے نہیں لیں گے، یا پھر آدھے پیسوں میں آپ کے دوسرے بیٹے کو ڈنکی کروا دیں گے۔

عین ممکن ہے کہ یہی افسر آپ کے کان کے قریب اپنا منہ لا کر کہے ’خان صاحب آپ کو تو سب پتہ ہے۔ یہ انسانی اسمگلر اتنی آزادی سے کیسے کام کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں تو چھوٹ کیسے جاتے ہیں۔ یقین کریں اگر ان کی پشت پر کوئی طاقتور سیاسی یا ادارہ جاتی ہاتھ نہ ہو تو ہم پورا نیٹ ورک ایک دن میں اکھاڑ سکتے ہیں۔۔ مگر یہ اربوں روپے کا دھندہ ہے اور اس حمام میں حمام والے سے لے کر گاہک تک سب ننگے ہیں۔ ہم تو چاکر لوگ ہیں۔ جتنی کاروائی ڈالنے کا اُوپر سے حکم ملتا ہے، اتنی ڈال دیتے ہیں۔‘

اور پھر آپ کو اس افسر کی بے چارگی پر بھی ترس آنے لگتا ہے۔

ایسے ہر سانحے کے بعد یو ٹیوبرز، لائسنس یافتہ نیوز چینلز کے رپورٹر اور بین الاقوامی میڈیا ادارے رُدالی بن کر متاثرہ خاندانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اُن سے پوچھتے ہیں کہ گھر کا سامان اور زیور بیچ کر پچیس تیس لاکھ روپے جٹا کے اپنے تیرہ سالہ لختِ جگر کو اجنبی اسمگلروں کے ہاتھوں سونپ کر انجان راہوں پر دھکیلنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟

پھر باپ یا بھائی یا چچا اُن میڈیا والوں کو بتاتا ہے کہ بچےکی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے ہیں۔۔۔ پھر وہ ڈنکی لگا کے کامیابی سے سمندر پار پہنچ کر گھر پیسے بھیجنے والے ممیروں چچیروں کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس کے بعد خود کو معصوم اور انجان ثابت کرتے ہوئے نااہل حکومت کو دو چار گالیاں دیتا ہے۔

یوٹیوبر اور چینلی رپورٹر اسی گھر کے اندر متاثرہ خاندان کو پیچھے بٹھا کر اپنا درد بھرا بھاشن ریکارڈ کرتے ہیں، گھر کی عورتوں کے بین کرتے مناظر ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر ایک دردیلا میوزک رپورٹ میں ڈال کے ریٹنگ کے کنوئیر بیلٹ پر چڑھا کر مطمئن واپس لوٹتے ہیں۔

ویسے بھی جہاں 1950 کی ساڑھے تین کروڑ آبادی چوہتر برس میں پچیس کروڑ سے اوپر ہو چکی ہو، وہاں سے ہر سال اوسطاً ساڑھے آٹھ لاکھ قانونی اور نامعلوم تعداد میں غیر قانونی راستوں سے چند لاکھ لوگ چلے بھی جائیں، اُن میں سے ایک تہائی یا آدھے راستے میں مر کھپ بھی جائیں یا بیچ راہ میں لاپتہ جائیں، لگ بھگ پچیس ہزار لوگ خلیجی و غیر خلیجی ریاستوں کی جیلوں میں سالہا سال قید رہیں اور اُن میں سے چند سو کے سر قلم بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔

معیاری تعلیم، مناسب روزگار، جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دینے والا بہتر مستقبل نہ ہونا کوئی سانحہ نہیں، اصل سانحہ امید کا دم توڑ جانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا مستقبل تاحدِ نگاہ شاندار ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی راہ سے موت کے منہ میں جائیں، آپ کی لاش بذریعہ پی آئی اے گھر واپس لانا ریاست نے پچھلے بیس برس سے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔

بھلا ہو چوہدری شجاعت حسین آف گجرات کا، جو دورِ پرویزی میں اپنی ساڑھے تین ماہ کی وزارتِ عظمی کے دوران کم ازکم یہ ثوابی کام تو کر گئے۔۔ مگر اب تو خود پی آئی اے وہ لاش ہے، جسے کوئی دفنانے کو تیار نہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close