سال کے اس وقت، کرسمس سے متعلق بہت سی تاریخی معلومات انٹرنیٹ پر گردش کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے، ان میں کافی غلط معلومات بھی شامل ہوتی ہیں۔ بعض ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ کرسمس کی روایتی تاریخ، یعنی 25 دسمبر، قبل از مسیح مشرکانہ مذاہب سے آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ مشرکانہ دیوتاؤں کی پیدائش روایتی طور پر اسی تاریخ پر منائی جاتی تھی۔ تاہم، کچھ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ تو حقائق کیا کہتے ہیں؟
کیا حضرت عیسیٰ واقعی 25 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے؟
یہ دعویٰ سب سے پہلے اس لیے سامنے آیا کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی روایتی تاریخ بائبل کے بیانات سے واضح طور پر متصادم ہے۔ مثال کے طور پر، انجیل میں چرواہوں کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے وقت اپنے بھیڑوں کے ساتھ رات کو باہر رہ رہے تھے۔ یہ دسمبر میں ممکن نہیں کیونکہ یہ مہینہ بارشوں کا موسم ہے اور یروشلم میں اس وقت شدید سردی ہوتی ہے۔
مزید برآں، حضرت عیسیٰ کی ولادت کا بیان ایک رومی مردم شماری یا رجسٹریشن سے منسلک ہے۔ یہ مردم شماری لوگوں کو مجبور کرتی تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقوں کی طرف سفر کریں۔ یہ عمل عام حالات میں بھی غیر مقبول تھا، اور رومی یقیناً یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک مشکل قوم یعنی یہودیوں کو سردیوں کے موسم میں سفر کرنے پر مجبور کرکے مزید ناراض کیا جائے۔
آخر میں، حضرت یحییٰ کی ولادت کے وقت کے شواہد (جو حضرت عیسیٰ کی ولادت سے چھ ماہ پہلے کا وقت ہے) واضح طور پر 25 دسمبر کی تاریخ کو مسترد کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ سوال کہ آخر 25 دسمبر کو کرسمس کی تاریخ کے طور پر کیوں منتخب کیا گیا، ایک جواب کا تقاضا کرتا ہے۔
کیا کوئی مشرکانہ دیوتا 25 دسمبر کو پیدا ہوا تھا؟
ایک مشہور نظریہ یہ ہے کہ 25 دسمبر کی تاریخ ایک قبل از مسیح مشرکانہ دیوتا کی سالگرہ سے لی گئی ہے۔ اکثر یہ دعویٰ اس تصور کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ خود بھی ایک دوبارہ اپنایا گیا ’دیوتا‘ ہیں۔ تاہم، ماہرین کی بڑی تعداد اس نظریے کی تائید نہیں کرتی۔ تاریخی شواہد واضح طور پر یہ دکھاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ایک حقیقی شخصیت تھے۔
اس کے باوجود، اس بات کا امکان موجود ہے کہ کرسمس کی تاریخ کسی مشرکانہ دیوتا سے لی گئی ہو۔ آخرکار، یہ تاریخ کسی نہ کسی جگہ سے لی گئی ہوگی۔ کچھ محققین کے مطابق، ایک دیوتا جس پر غور کیا جاتا ہے، وہ ’حورس‘ ہے۔ حورس مصر کا ایک شمسی دیوتا تھا جو (اساطیری کہانیوں کے مطابق) مختلف اشکال میں ظاہر ہوتا تھا، اور ان میں سے ایک شکل ’ہارپوکرٹس‘ تھی، جو خاص طور پر بچے کی حیثیت سے حورس کی صورت تھی۔
یونانی مصنف پلُوٹارک ہمیں ایک اہم بیان فراہم کرتے ہیں:
”اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آئسس نے جب محسوس کیا کہ وہ حاملہ ہیں، تو چھٹے دن ماہ ’فاؤفی‘ میں ایک تعویذ پہن لیا؛ اور موسم سرما کے قریب انہوں نے ہارپوکرٹس کو جنم دیا، جو کہ نامکمل اور قبل از وقت تھا، ابتدائی پھولوں اور کونپلوں کے درمیان۔“
اس بیان کے مطابق، مصری (اور یونانی) یہ مانتے تھے کہ حورس، اپنی شکل ہارپوکرٹس (بچے کی حیثیت سے حورس) میں، موسم سرما کے قریب پیدا ہوا تھا۔ چونکہ حورس ایک شمسی دیوتا تھا، اس وقت بندی کا تعین منطقی معلوم ہوتا ہے۔
تو کیا کرسمس کی تاریخ اسی مشرکانہ دیوتا حورس سے لی گئی ہے؟
قدیم رومی سلطنت میں، موسم سرما کے مختصر ترین دن (winter solstice) کی تاریخ 25 دسمبر ہوتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں، پلُوٹارک کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ مبینہ طور پر حورس اسی تاریخ کو پیدا ہوا، جسے ہم آج کرسمس کے طور پر مناتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کرسمس کی تاریخ مشرکانہ دیوتا حورس سے آئی ہے؟
ہو سکتا ہے۔ پلُوٹارک نے پہلی صدی عیسوی میں لکھا تھا۔ اس کے برعکس، حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی تاریخ 25 دسمبر کا پہلا حوالہ تیسری صدی میں ملتا ہے۔ اس وقت تک، عیسائیت یونانی فلسفے اور حتیٰ کہ اساطیری اثرات سے بھر چکی تھی۔ لہٰذا، یہ بالکل ممکن ہے کہ 25 دسمبر کی تاریخ حورس سے لی گئی ہو۔
آخرکار، خود بائبل حضرت عیسیٰ کا موازنہ کئی بار ’سورج‘ سے کرتی ہے۔ چنانچہ، چونکہ حورس ایک شمسی دیوتا تھا، یہ تعلق ابتدائی عیسائیوں کے لیے منطقی معلوم ہو سکتا تھا۔
کرسمس کی تاریخ کے لیے دیگر امکانات
دوسری جانب، حورس کی پیدائش کی تاریخ کا کرسمس کی تاریخ سے اتنا براہِ راست تعلق نہیں ہو سکتا۔ ہر کوئی یہ دیکھ سکتا تھا کہ سورج موسم سرما کے مختصر ترین دن (winter solstice) کے فوراً بعد گویا ’پیدا‘ ہوتا ہے۔ اینٹیوکس آف ایتھنز کے کیلنڈر، جو ممکنہ طور پر دوسری صدی عیسوی یا اس سے پہلے لکھا گیا تھا، میں 25 دسمبر کو سورج کی پیدائش کا دن کہا گیا ہے۔
لہٰذا، یہ ممکن ہے کہ 25 دسمبر کو محض سورج کی نئی پیدائش کی تقریبات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے چُنا گیا ہو، بغیر کسی خاص تعلق کے حورس سے۔۔ یہ یقیناً ایک ایسا وقت تھا جو مصریوں اور یونانیوں کے علاوہ دیگر کئی ثقافتوں کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا تھا۔
یقینی طور پر یہ ماننے کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ تیسری صدی کے عیسائیوں نے 25 دسمبر کو کرسمس کی تاریخ کے طور پر اس لیے چُنا کیونکہ اس کی مشرکانہ مذاہب میں علامتی اہمیت تھی۔ جیسا کہ اس موضوع کے کئی جدید ماہرین وضاحت کرتے ہیں، غالباً یہ اس لیے کیا گیا تاکہ نئے کنورٹس (عیسائیت قبول کرنے والوں)کو سورج کی پیدائش کی تقریبات جاری رکھنے کا جواز دیا جا سکے۔ یہ دسمبر کے وسط میں منائے جانے والے رومی تہوار ’سیٹرنیلیا‘ کی تقریبات کو جاری رکھنے کا بہانہ بھی فراہم کرتا تھا۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)