قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا آخری سال اتنا ہنگامہ خیز تھا کہ ان کی وہ بیماری جو ان کے اندر چھپی ہوئی تھی، وہ ان پر غالب آ گئی۔ ممکن ہے وہ کچھ سال مزید جی لیتے مگر حالات نے انہیں نڈھال کر دیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد اپنے ارد گرد جن ’کھوٹے سکوں‘ کی موجودگی کا وہ برملا اظہار کرتے تھے، یہ ان کا کیا دھرا تھا یا پھر تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے بدترین فسادات کا دکھ، کہ وہ اندر سے مکمل ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔
انڈیا کے پاکستان میں پہلے ہائی کمشنر سری پراکاسا نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل 1965 میں چھپنے والی کتاب Pakistan: Birth and Early Days کے صفحہ 83 پر قائد اعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال لکھتے ہیں:
”وزیراعظم جواہر لال نہرو نے مجھے کہا کہ جناح کا ممبئی والا گھر حکومت اپنے مصرف میں لینا چاہتی ہے، ہم اس کا ماہانہ کرایہ دیں گے، آپ جناح سے مل کر ان کی رائے معلوم کریں۔“
”میں جب ان سے کراچی میں ملنے گیا تو انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا، جہاں ان کی میز پر فائلوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ میں نے انہیں اپنے وزیراعظم کا پیغام پہنچایا۔ وہ بہت حیران ہوئے اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے مجھ سے ملتمس ہوئے کہ ’سری پراکاسا، میرا دل مت توڑو، جواہر لال نہرو کو بتاؤ ایسا نہ کرے۔ میں نے اس گھر کا ایک ایک پتھر سینچا ہے۔ اس میں رہنے کا حق کسی اور کو کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے برآمدے، سب کچھ لاجواب ہے۔ یہ ایک چھوٹا گھر ہے جو کسی چھوٹے یورپی خاندان یا پھر کسی مہذب ہندو شہزادے کے لیے موزوں ہو سکتا ہے۔ آپ بالکل نہیں جانتے میں بمبئی سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ ابھی بھی میری خواہش ہے کہ میں بمبئی واپس چلا جاؤں۔‘
”میں نے کہا، ’کیا واقعی جناح صاحب آپ بمبئی واپس جانے کی خواہش رکھتے ہیں؟ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ بمبئی آپ کا بہت ممنون ہے۔ اس شہر کے لیے آپ کی خدمات بے مثال ہیں۔ کیا میں وزیر اعظم کو بتا دوں کہ آپ واپس جانا چاہتے ہیں؟ قائد اعظم نے جواب دیا، ’ہاں، آپ بتا دیں۔“
”میں نے وزیر اعظم کو بتا دیا کہ ان کے گھر کو جوں کا توں رہنے دیں۔ کچھ ماہ بعد مجھے وزیر اعظم کی دوبارہ کال آئی تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ گھر خالی رہ کر خراب ہو جائے۔ اس لیے اسے کرائے پر دینا ہی مناسب فیصلہ ہوگا۔ آپ جناح کو بتا دیں کہ ان کی رضامندی ہو تو یہ گھر برٹش ڈپٹی ہائی کمشنر کے خاندان کو تین ہزار روپے ماہانہ کرایے پر دے دیں۔“
”اس وقت جناح کی صحت ٹھیک نہیں تھی، وہ غالباً زیارت میں تھے۔ میں نے انہیں پیغام پہنچایا کہ آپ کی خواہش چھوٹے اور مہذب خاندان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم اسے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دینا چاہتے ہیں۔ اتنا کرایہ طے ہوا ہے اور جب جناح چاہیں گے، یہ گھر خالی کرا لیا جائے گا۔“
”میرے لیے یہ بات حیرانی کی تھی کہ محمد علی جناح کا دل گورنر ہاؤس میں نہیں ہے، جہاں وہ رہتے ہیں بلکہ ان کا دل بمبئی میں مالا بار کی پہاڑی پر واقع جناح منزل میں ہے۔“
● جناح منزل کیا ہے؟
1916 میں قائد اعظم محمد علی جناح نے سوا لاکھ روپے میں بمبئی کے سب سے مہنگے علاقے مالابار میں واقع پہاڑی کی چوٹی پر ایک خوبصورت بنگلہ خرید لیا جو تین ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط تھا۔ اس بنگلے سے بحیرۂ ہند کا دلکش نظارہ ملتا تھا۔
نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان، جو آج کل تہران میں واقع ای سی او کلچرل انسٹی ٹیوٹ کے صدر ہیں، اپنی کتاب ’محمد علی جناح، دولت، جائیداد اور وصیت‘ میں لکھتے ہیں: جناح 1842 میں بننے والے اس شاندار بنگلے کے چوتھے خریدار تھے جنہوں نے اسے سر آدم جی پیر بھائی ابراہیم سے خریدا تھا۔ اس سے پہلے جناح لٹل گبز والے بنگلے میں رہائش پذیر تھے جو اس بنگلے سے ایک میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ سر آدم جی کے صاحبزادے اسے فروخت کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اسے خرید لیا۔
● قائد اعظم کو اس بنگلے سے محبت کیوں تھی؟
3 ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع اس بنگلے کو ساؤتھ کورٹ کہا جاتا تھا جسے قائد اعظم نے خرید تو لیا مگر وہ یہاں رہتے نہیں تھے۔ اس بنگلے کو وہ صرف سیاسی ملاقاتوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ڈاکٹر سعد ایس خان لکھتے ہیں کہ 1918 میں جب ان کی شادی رتی جناح سے ہوئی تو رسمِ نکاح اور ولیمہ اسی بنگلے میں ہوا تھا۔ شاید قائد اعظم نے یہ بنگلہ رتی جناح کے لیے خریدا تھا، اس لیے شادی پر رتی کو یہ بنگلہ تحفے میں دے دیا۔
چونکہ اس زمانے میں جو لوگ میونسپل ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے وہ جائیداد خرید نہیں سکتے تھے، اس لیے نکاح نامے میں مکان کی بجائے سوا لاکھ روپے کی رقم دلہن کو بطور ہدیہ دینے کا ذکر ہے جبکہ حق مہر کی رقم ایک ہزار اس کے علاوہ درج ہے۔
قائد اعظم کی شادی شدہ زندگی اسی بنگلے میں گزری۔ رتی جناح کو پرتگالی طرز کا بنا ہوا یہ مکان اس لیے پسند نہیں تھا کیونکہ اس کے قریب ہی ان کے والدین اور خالہ کے سفید سنگ مر مر کے بنے ہوئے نہایت شاندار محلات واقع تھے، جن کے سامنے ساؤتھ کورٹ کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی تھی۔
اس کی تزئین و آرائش پر خطیر رقم صرف کرنے کے باوجود وہ چاہتی تھیں کہ اس گھر کو گرا کر اسے از سر نو تعمیر کیا جائے۔ مگر رتی کی زندگی میں ایسا نہ ہو سکا اور وہ 1929 میں انتقال کر گئیں۔ جس کے بعد قائد اعظم انگلستان منتقل ہو گئے انہوں نے اس مکان کو بیچنے کی کوشش کی مگر سودا طے نہیں ہوا۔
● ساؤتھ کورٹ یا تاج محل؟
قائد اعظم جب 1934 میں ہندوستان واپس آئے تو انہوں نے اپنے لٹل گبز والے گھر میں ہی رہائش اختیار کی۔ 1936 میں انہوں نے 92 سالہ پرانے اس گھر کو گرا کر نیا بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس گھر کے ایک ایک چپے سے ان کی مرحوم اہلیہ کی یادیں وابستہ تھیں۔ اس کی تعمیر نو کے لیے بمبئی کے مہنگے ترین ماہرین تعمیرات کلاڈ باٹلے سے نقشہ بنوایا گیا۔
اخبار میں اشتہار دے کر ایک اطالوی کمپنی میسرز گینن ڈنکر لی اینڈ کمپنی کو مکان کی تعمیرِ نو کا ٹھیکہ دیا گیا۔ جس نے پانچ ذیلی کمپنیوں کو الگ الگ کام ٹھیکے پر دیے۔ میسرز رائل کمپنی کو اٹلی سے سنگ مر مر منگوا کر لگانے کا کام دیا گیا۔ بھولا اینڈ کمپنی نے پانی کے پائپ لگانے کا ٹھیکہ حاصل کیا۔ کامدار اینڈ کمپنی نے لکڑی کا کام سنبھالا، جس میں اخروٹ کی لکڑی استعمال کی گئی۔
میسرز جی ای ایس نے غسل خانے مکمل کیے جبکہ بجلی کا کام ملک الیکٹرونک کمپنی نے سر انجام دیا۔ جناح نے اس گھر کو بالکل ویسا ہی بنوایا، جیسا کہ ان کی مرحومہ اہلیہ چاہتی تھیں۔ اس مکان کے تین حصے تھے، پہلے حصے میں چار کشادہ خواب گاہیں، دیوان، ڈائننگ اور اسٹڈی رومز، سیکرٹری کا کمرہ اور خواتین کے لیے مختص دیوان خانہ شامل تھے۔
دوسرا حصہ مہمان خانہ تھا اور تیسرا حصہ ملازمین کے لیے وقف تھا۔ مکان ساڑھے تین سال میں مکمل ہوا اور اس کی تعمیِر نو پر سوا دو لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ اتنا خوبصورت تھا کہ شیلا ریڈی نے اسے جناح کی جانب سے اپنی اہلیہ کی یاد میں تعمیر ہونے والا تاج محل قرار دیا۔ 23اپریل 1940 کو قائد اعظم یہاں اپنی بہن فاطمہ جناح کے ہمراہ منتقل ہو گئے۔
● جناح نے اسے فروخت کرنے کی کوشش کیوں کی؟
قائد اعظم کے سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو کے بقول، ان کا دل جلد ہی ساؤتھ کورٹ سے اچاٹ ہو گیا اور تین سال کے اندر ہی وہ اسے فروخت کرنے کی کوشش کرنے لگے، جس کی وجہ اس مکان سے جُڑی ان کی اہلیہ کی یادیں تھیں۔
اسے بڑودا کی مہارانی، نظام حیدر آباد اور اس گھر کے سابق مالک سر آدم جی کے پوتے نے بھی خریدنے کی کوشش کی۔ سب سے زیادہ پیشکش نظام حیدر آباد نے کی جو 18 لاکھ روپے تھی مگر قائد اعظم اسے 25 لاکھ میں فروخت کرنا چاہتے تھے۔
اسی دوران لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تین جون کو تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کر دیا، جس کے بعد انہیں اسے فروخت کرنے کا وقت ہی نہیں مل سکا۔ سات اگست 1947 کو جب گورنر جنرل بننے کے لیے وہ کراچی روانہ ہوئے تو اس گھر کو انہوں نے آخری بار دیکھا۔ انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ اس کے بعد وہ دوبارہ یہاں نہیں آ سکیں گے۔
قائد اعظم جب فوت ہوئے تو ان کی وصیت کھولی گئی، جس میں یہ گھر انہوں نے اپنی بہن کے نام کر دیا تھا۔ فاطمہ جناح نے 22 ستمبر 1948 کو اسے امریکی سفیر کو فروخت کرنے کی کوشش کی مگر انڈین حکومت آڑے آ گئی اور انہوں نے اسے متروکہ املاک قرار دے دیا۔
اس کے بعد سے یہ گھر مقفل ہے۔ پاکستان اسے اپنے قونصل خانے کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ قائد اعظم کی بیٹی دینا، نواسا نصلی اور قائداعظم کی ہمشیرہ مریم کا پڑنواسا شاکر ابراہیم بھی اس کے قانونی طور پر دعوے دار بن کر عدالتوں میں حق ملکیت کی جنگ لڑ تے رہے۔
طویل عرصے تک بھارت نے پاکستان – بھارت چار جنگوں کے باوجود جناح کے گھر کو دشمن کی جائیداد قرار دے کر ضبط نہیں کیا۔ اگر ایسا کر دیا جاتا تو اس کے بعد یہ جائیداد بھارتی حکومت کی تحویل میں چلی جاتی۔ مگر یہ واحد جائیداد ہے، جسے انڈین حکومت نے جناح کے احترام میں ضبط نہیں کیا۔ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد بھارتی پارلیمان میں حکمران پارٹی کے رکن کے منگل پربت لودھا نے اسے دشمن کی جائیداد قرار دے کر ضبط کرنے کا مطالبہ ہی نہیں بلکہ اسے اس لیے منہدم کرنے کا مطالبہ بھی کیا کہ اس گھر میں تقسیمِ ہند کے منصوبے نے جنم لیا اور جناح منزل تقسیم ہند کی علامت ہے۔
2010 میں انڈین وزارتِ خارجہ نے بمبئی ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا کہ متروکہ املاک کے تحت اس کی ملکیت ریاست کے پاس ہے، جس کے بعد اس پر اس کے کسی وارث کا حق نہیں ہے۔
2018 میں وزیر خارجہ ششما سوراج نے بیان دیا تھا کہ ان کی وزارت اس بنگلے کا کنٹرول حاصل کر رہی ہے، جس کے اگلے دن پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بیان دیا کہ ممبئی کا جناح ہاؤس پاکستان کی ملکیت ہے اور یہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا کہ انڈیا اسے ہتھیا لے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)