ملیر کے اجتماعی حقوق کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت

ڈاکٹر ابوبکر بلوچ

سندھ میں برسرِ اقتدار زرداری سرکار، پوری سرکاری مشنری کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے کارندوں اور آلہ کاروں کے ذریعے زرخیز اور شاداب ملیر کو لقمہِ تر سمجھ کر ملیر پر اس طرح ٹوٹ پڑی ہے کہ مستقبل میں ہمارے لیے ایک پارک کے لیے بھی جگہ نہ بچ پائے گی۔۔

پورے پاکستان کو ملیر میں بسانے اور ملیر کو ایک طرف ٹھٹہ اور دوسری طرف جام شورو اور حیدرآباد سے ملانے کے نتیجے میں ہماری نسلیں اس قابل بھی نہیں ہوں گی کہ اپنا ایک کونسلر منتخب کر سکیں۔

ہمارے پاس پہلے سے ہی پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت، قبرستان اور انفرااسٹرکچر کی سہولتوں کا فقدان ہے، ہاؤسنگ پروجیکٹس کی یلغار کے باعث ہمارے رہے سہے وسائل پر بےدردی کے ساتھ ڈاکہ زنی کی جا رہی ہے، مستقبل میں صورتحال بدرجہا بدتر، سنگین اور بھیانک ہو جائے گی۔

زرعی زمینوں کی لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد سرکار لیز کی تجدید سے گریزاں ہے، جس کے باعث قبضہ مافیا کے کارندے، مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ زرعی زمینوں پر قبضے اور ان کو ہاؤسنگ پروجیکٹس کی بھینٹ چڑھانے کے لیے پورے ملیر میں سرگرم عمل ہیں.

ہمارے لیڈر تصویروں کی سطح پر گوٹھوں کی ترقی کے لیے بادی النظر میں بہت متحرک اور کوشاں نظر آتے ہیں، تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ لیڈر صدیوں سے آباد گوٹھوں کو ابھی تک قانونی حیثیت دلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ قانونی عدم تحفظ کی تلوار کسی بھی وقت صدیوں سے آباد ان گوٹھوں کو خاکم بدہن ’نسلا ٹاور‘ بنا سکتی ہے۔

2020 کے سیلاب کے نتیجے میں بہہ جانے والے ’بیلی باغ ڈیم‘ بدستور موہن جو دڑو کا منظر پیش کر رہا ہے مگر معتبر اداروں کی انوائرمنٹل اسیسمنٹ رپورٹس، ملیر کے شاداب ماحول، لائف سائیکل اور ملیر ندی کے ساختیاتی توازن کی دھجیاں بکھیرنے والے بھٹو ایکسپریس وے کا کام بڑی تیزی اور عجلت کے ساتھ جاری وساری ہے۔

مہذب ممالک میں صنعتوں کے لیے مکمل ایس او پیز کے ساتھ صنعتی زون مخصوص ہیں، ہمارے یہاں مگر ملیر جیسے زرخیز اور زرعی علاقے اور صدیوں سے آباد قدیم گوٹھوں کے بیچوں بیچ نہ صرف صنعتوں کا جال پھیلایا جا رہا ہے، بلکہ ان کے زہریلے دھویں اور فضلہ جات کے ذریعے ملیر کی شاداب اور صحت بخش فضاؤں کو مسموم کرتے ہوئے صدیوں سے آباد قدیم گوٹھوں کے مکینوں کو بھانت بھانت کی بیماریوں کا تحفہ دیا جارہا ہے۔

پابندی کے باوجود سرکاری سرپرستی میں ایک طرف وسیع پیمانے پر ملیر ندی سے ریتی بجری کا اخراج کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بڑی بے رحمی کے ساتھ ٹریٹمنٹ کے بغیر اس میں سیوریج اور صنعتی فضلہ جات کی نکاسی کی جارہی ہے۔

بحریہ ٹاؤن کی غارت گری کا سلسلہ ملیر کو فتح کرنے کے بعد کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں داخل ہو چکا ہے تو دوسری طرف ڈی ایچ اے سٹی اور نام نہاد ایجوکیشن سٹی کی استحصالی توسیع پسندی کا سلسلہ بھی دراز تر ہوتا جارہا ہے۔ ایجوکیش سٹی میں وہ ادارے بھی فطری ماحول کو تباہ کر رہے ہیں جو دنیا کے سامنے بہت اسمارٹ بن کر حفظانِ صحت اور تحفظِ ماحول کے چیمپئن نظر آتے ہیں، ان اداروں میں بین الاقومی معیار کا حامل ادارہ آغا خان ہاسپٹل سر فہرست ہے جو مسلمہ ماحولیاتی قوانین اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنے فضلہ جات کو ایجوکیشن سٹی میں ڈمپ کر رہا ہے، جن کے مہلک دھویں سے قدیم گوٹھوں میں نہ صرف پراسرار بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ اموات بھی ریکارڈ ہوچکی ہیں۔

ہمارے نمائندوں کی حالتِ زار یہ ہے کہ ملیر کی زرعی، تہذیبی، ماحولیاتی اور جغرافیائی شناخت کو قانونی تحفظ دینے کے بجائے وہ خوشی و غمی کے مواقع پر محض تصویر کشی اور فوٹو سیشن کو اپنے کمال فن کی معراج سمجھ رہے ہیں۔

ملیر میں ماضی میں پیپلز پارٹی سیاسی اعتبار سے کبھی اتنی طاقتور نہیں تھی، جتنی کہ آج ہے۔ ملیر تین عدد ایم این ایز، چھ عدد ایم پی ایز (جن میں سے دو عدد وزیراعلی کے معاونِ خصوصی ہیں)، مخصوص نشستوں پر ایک عدد خاتون صوبائی وزیر، ایک عدد ڈپٹی میئر، تین عدد ٹاؤن چیئرمینز سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے وجود، بقا اور شناخت کے تحفظ کے باب میں آج قیادت کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔

پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کو اجتماعی حیثیت سے کبھی ایک ساتھ زرداری، فریال یا بلاول سے ملاقات کرتے نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ جب بھی ان تینوں سے ملتے ہیں، فرداً فرداً تنہا ملتے ہیں۔

علاقائی سطح پر ملیر کے اجتماعی مسائل کے لیے قانون سازی تو دور کی بات، انہوں نے کبھی سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اور نہ ہی ان کے پاس ملیر کی زرعی، تہذیبی، ماحولیاتی اور جغرافیائی شناخت سے متعلق کوئی ایجنڈا یا وژن ہے۔

اس تمام صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملیر کے لوگوں کی اکثریت کو بھی اس صورتحال کی سنگینی کا سرے سے ادراک ہی نہیں ہے۔ زمین ہمارے پیروں تلے سے سرکتی جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ خوابِ خرگوش کا مزا لے رہے ہیں۔

حفیظ بلوچ، عظیم دھکان، ماسٹر صدیق بلوچ اور ان کے چند ساتھی ہیں، جو گاہ بہ گاہ اس معاملے میں آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں مگر ان کا کردار بھی اپنی تمام تر قدر و قیمت کے باوجود ایک دائرے تک محدود نظر آتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ مزاحمانہ کردار اپنے محدود اور مخصوص دائرے سے نکل کر ملیر کے اس پیغام کو ملیر کے ایک ایک فرد تک پہنچائیں، ایک ایک گوٹھ میں یونٹ سازی کرتے ہوئے نوجوانوں اور خواتین کو اس ضمن میں فعال اور متحرک کرنے میں کردار ادا کریں۔ ملیر کی موجودہ صورتحال پرامن اور منظم مزاحمت کا تقاضا کر رہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام تر سیاسی مصلحتوں اور رنگ و بو کے امتیازات سے بالاتر ہو کر ملیر کے کوچہ و بازار میں بیداری کی ایک بھرپور تحریک چلائی جائے، بصورتِ دیگر تاریخ کے بے رحم کوڑا دان میں بھی شاید ہمارا نام و نشان نہ باقی نہ رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close