
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور پکڑ دھکڑ پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے سماعت ہوئی۔ اس دوران ایک سوال اٹھا، جو شاید تاریخ میں محض ایک جملہ نہ رہے بلکہ ایک بڑے فکری مکالمے کی بنیاد بن جائے، لیکن شاید۔۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم (یعنی عدلیہ) کسی کو بازیاب نہیں کرا سکتے۔۔ کیونکہ ہم اس معاملے کو روک نہیں سکتے۔۔ پی ٹی آئی پارلیمان کا فورم استعمال کرے، پارلیمان بہت کچھ کر سکتی ہے۔۔ جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دوٹوک انداز میں کہا، ”پارلیمان کچھ بھی نہیں کر سکتی۔“
اس کے جواب میں معزز جج جسٹس مسرت ہلالی صاحبہ کا کہنا تھا ”(جب پارلیمان کچھ نہیں کر سکتی) تو پھر آپ اپنے لوگ وہاں بھیجتے ہی کیوں ہیں!؟“
اکثر میمز میں پاریش راول کا ایک مکالمہ، جو انہوں نے فلم ’ہیراپھیری‘ میں ادا کیا تھا، سنائی دیتا ہے، ”یہ بڑی اچھی بات کہی آپ نے۔۔“ تو یہ بڑا اچھا سوال کیا ہے محترمہ جج صاحبہ نے، کہ جب پارلیمان کچھ نہیں کر سکتی تو پھر سیاسی جماعتیں اپنے لوگ وہاں بھیجتی ہی کیوں ہیں!؟
یہ سوال سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ سادہ اس لیے کہ بظاہر ایک منطقی استفسار ہے، اور پیچیدہ اس لیے کہ اس کے اندر کئی پرتیں، کئی نہ کھلنے والے راز اور کئی چھپے ہوئے زخم موجود ہیں۔
معزز جسٹس صاحبہ کا یہ سوال بہت اہم ہے۔۔ لیکن نا امیدی کی کوکھ سے جنما یہ سوال خود امید سے ہے اور اس کی کوکھ میں کئی سوالات کے جڑواں بچے پل رہے ہیں اور وہ بھی شدید قسم کے شرارتی بچے۔۔ وہ سوالات جو ہم سب کے ذہنوں میں ہیں، زبان پر لانے سے مگر ہم کتراتے ہیں۔ یہ سوال پوچھے جا سکتے ہیں، بس شرط صرف یہ ہے کہ انسان بچہ جمہورا نہ ہو!
یہاں ہمیں مریخ کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری لینے کی ضرورت نہیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے ملک میں اختلافِ رائے رکھنے والوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پکڑ دھکڑ اور کریک ڈاؤن جیسے الفاظ تو شاید بہت ہلکے ہیں اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے۔۔ جو کچھ سیاسی کارکنوں، قوموں اور مخالف آوازوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے لیے شاید زبان کو نئے الفاظ ایجاد کرنے پڑیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اسی سماعت میں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جسٹس مندوخیل بھی یہی تسلیم کر چکے تھے کہ ”ہم کسی کو بازیاب نہیں کرا سکتے، کیونکہ ہم اس معاملے کو روک نہیں سکتے۔“ تو جناب، اگر پارلیمان کچھ نہیں کر سکتی، اور عدلیہ بھی کچھ نہیں کر سکتی، تو پھر عوام کی نظریں آخر کس کی طرف اٹھیں؟ انصاف کی امید کہاں رکھی جائے؟ وہ کون سا دروازہ ہے، جس پر دستک دی جائے؟
جسٹس مسرت صاحبہ کا یہ سوال کہ ’اگر پارلیمان کچھ نہیں کر سکتی تو پھر پی ٹی آئی والے اپنے لوگ وہاں بھیجتے ہی کیوں ہیں‘ ۔۔ یہ سوال اپنی جگہ، مگر اس سوال کے سائے میں ایک اور سوال جنم لیتا ہے، جو کہیں زیادہ تلخ اور کہیں زیادہ بنیادی ہے۔ جب عدلیہ خود یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پکڑ دھکڑ، کریک ڈاؤن اور جبری گمشدگیوں کو روک نہیں سکتی، کسی کو بازیاب نہیں کرا سکتی، تو پھر کیا یہ سوال اٹھانے کا وقت نہیں آیا کہ، جنابِ عالی، آپ لوگ وہاں انصاف کی مسندوں پر بیٹھ کر، کر کیا رہے ہیں!؟
یہ سوال بھی اب ہمارے اردگرد گھوم رہا ہے، مگر کیا کوئی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوگا؟ یا یہ بھی کسی فائل میں دب کر، کسی کمرہ عدالت کی دیواروں میں جذب ہو کر، یا کسی جج کی اگلی مسکراہٹ میں کھو کر گم ہو جائے گا؟ وقت خود اس سوال کا جواب دے گا۔۔ ہمیں، مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جن سوالوں کے جواب مسندِ انصاف پر بیٹھے منصفوں اور برسرِ اقتدار حکام کی جانب سے بروقت دیے جانے کے بجائے، وقت دیتا ہیں، ان کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اخلاقی طور پر اس قدر کنگلے ہیں کہ یہ قیمت ادا نہیں کر پائیں گے!
منصفوں کی جانب سے یہ سوال بجا کہ جب پارلیمان کچھ نہیں کر سکتی تو سیاسی جماعتیں اپنے لوگ وہاں کیوں بھیجتی ہیں۔۔ یہ سوال مگر کون پوچھے کہ جب برسرِ مسندِ انصاف بیٹھے منصف کچھ نہیں کر سکتے، تو وہ وہاں بیٹھے ہی کیوں ہیں!؟
چلیں اختتام کرتے ہیں، دو تازہ خبروں پر۔۔ منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں انصاف میں تاخیر کے خلاف احتجاج میں خود سوزی کرنے والا شخص جمعہ کو ہسپتال میں دم توڑ گیا ہے۔
منگل کو عینی شاہدین نے اس شخص کو، جس کی شناخت آصف جاوید کے نام سے کی گئی، جسٹس شجاعت علی خان کے کمرہ عدالت سے باہر نکلا اور اس نے خود پر پیٹرول ڈالا، لائٹر نکالا اور خود کو آگ لگا لی۔
شعلوں میں لپٹا ہوا آصف جاوید چیختا رہا کہ اسے انصاف نہیں مل رہا اور وہ انصاف چاہتا ہے۔ جائے وقوعہ پر موجود لوگوں نے جاوید پر پانی پھینکا اور شال اوڑھ لی۔۔ لیکن وہ اس قدر جل چکا تھا کہ جانبر نہ ہو سکا۔
بتایا جاتا ہے کہ آصف جاوید کبیروالا میں ملٹی نیشنل فوڈ اینڈ بیوریج کمپنی نیسلے کے پلانٹ میں یونین لیڈر تھا۔ اسے 2015 میں کچھ دیگر ملازمین کے ساتھ اس کی یونین کی سرگرمیوں کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
برطرف کارکنوں نے لیبر کورٹ اور نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (این آئی آر سی) کا رخ کیا، جس نے ان کے واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کی بحالی کا حکم دیا۔
تاہم ملٹی نیشنل کمپنی نیسلے نے این آئی آر سی کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جہاں یہ کیس گزشتہ پانچ سالوں سے زیر التوا تھا۔۔ جی ہاں گزشتہ پانچ سالوں سے ۔۔۔عدالتی فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے آصف جاوید اس قدر دل گرفتہ تھا کہ بالآخر اس نے خود کو آگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔
اور دوسری خبر یہ ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت لاہور ہائی کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے جسٹس جواد ظفر نے فیصلہ سناتے ہوئے 27 کلو منشیات برآمدگی کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے دو ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔