بحیرہ عرب کا نیلگوں پانی جب بلوچستان کے شہروں گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے چمکتے ریتیلے ساحلوں سے ٹکرا کر ایک منظر ایک خوبصورت پیش کرتا ہے۔ اس ساحلی پٹی پر الگ تھلگ ساحلی علاقے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو آوارہ پھرتے ہوئے اونٹ، کھجور کے درختوں کے خوبصورت جھنڈ، چھوٹی چھوٹی ندیوں اور ٹھنڈی گدگداتی اور آلودگی سے پاک ہوا اسے صدیوں پہلے کی کسی الف لیلیٰ کی داستان کا حصہ محسوس کراتی ہے۔ اس علاقے کو قدرت کے کئی قسم کے امتزاج کی سر زمین کہا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں صحرا اور بنجر پہاڑ بھی ہیں اور ندی نالے بھی۔
مشہور و معروف بلوچی کلاسیکل گلوکار محمد جاڑوک بلوچ نے مکران کے ساحلی شہر پسنی کا ذکر کچھ یوں کیا ہے”پسنی ء ریکاں چاراناں، منی دل بوتگ دیوانہ“ یعنی پسنی کے ریت کو دیکھتا ہوں تو میرا دل دیوانہ ہو جاتا ہے۔“
لیکن اسی ساحل کے صحرائے مستانی استانی (مستانی ریک) کی یہ رَیت ضلع گوادر کے علاقے پسنی میں سمندر کنارے آباد کلانچی محلہ، ھشتی کنڈ، نصراللہ محلہ اور عیدگاہ محلہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب اور خوفناک حقیقت بن چکی ہے۔ یہاں مسلسل سرکتے ہوئے رَیت کے ٹیلے اب تک ستر گھروں کو نگل کر ان کے مکینوں کو بے گھر کر چکے ہیں۔ گاؤں کے تین محلے مکمل طور پر ساحلی ریت کی لپیٹ میں ہیں اور گاؤں کے باسی بے بسی سے اپنے گھروں کو ریت میں دفن ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں:
”تیزی سے پھیلتے صحرا“ رہنے کے قابل زمین کو کیسے بچایا جا سکتا ہے
کہتے ہیں کہ پسنی کا نام اصل میں رَیت کی وجہ سے ہی پڑا۔ یہ بلوچی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے پھنسنا یعنی گاڑی، انسان اور جانور ریت میں دھنس کر پھنس جاتے ہیں۔ تاہم بعض محققین اس نام کے لفظی مطلب سے اتفاق نہیں کرتے
پسنی کی وجہ تسمیہ یہ ریت ہو یا کچھ اور، لیکن یہ ریت بہرحال اب ایک مسلسل عذاب کی شکل اختیار کر چکی ہے، جسے یہاں کے باسیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے، جو صبح ہوتے ہی گھروں کو بچانے لگ جاتے ہیں۔۔ اور دن کو محنت مزدوری کر کے جب واپس لوٹتے ہیں تو انہیں رات دیر تک ریت کو گھروں سے نکالنا پڑتا ہے
گاؤں کے ’محلہ نصراللہ‘ کی ماسی جماعتی کا کہنا ہے کہ اس ریت کی وجہ سے ان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کا باورچی خانہ مٹی کے نیچے دب چکا ہے اور اب تو صحن میں کھانا بنا کر بھی ان کا خاندان روٹی کے ساتھ ریت کھا رہا ہوتا ہے۔
ماسی جماعتی کہتی ہیں ”اس مہنگائی میں اگر گھر کا مرد ایک دن بھی مزدوری پر نہ جائے تو بچے خالی پیٹ سوتے ہیں۔ میرے شوہر صبح سمندر میں جاتے تھے تو ہم اس امید میں ہوتے تھے کہ واپسی پر کچھ مچھلیاں گھر بھی لے آئیں گے لیکن وہ گھر سے ریت نکالتے نکالتے خود بیمار پڑ گئے ہیں۔ اب ہم ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ مدد کے لیے کونسلروں سے لے کر ایم پی اے تک کے پاس گئے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔“
مصنف و کالم نگار ظریف بلوچ کا کہنا ہے کہ پسنی بیک وقت سمندری اور صحرائی تحفظ کی ضمانت ہے۔ ایک طرف سمندر تو دوسری طرف طویل صحرائی سلسلہ ہے، جو کہ پسنی شہر سے لے کر ماہی گیروں کی ایک قدیم بستی چربندن تک پھیلا ہوا ہے اور تقریباً 25 کلومیٹر پر مشتمل یہ صحرائی سلسلہ پسنی کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ مقامی لوگ اس صحرائی سلسلے کو مستانی ریک کہتے ہیں، یہ مستانی ریک ایک طرف عوام کے لئے تفریح گاہ ہے تو دوسری طرف شہر کے عین وسط میں موجود قدیم آبادی کو کسی اژدھے کی طرح نگلتی جا رہی ہے. متعدد مکانات اور چاردیواریاں اس ریت کی زد میں آ کر دب چکے ہیں.جبکہ کئی خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں. تدارک نہ ہونے سے مسقبل میں یہ قریبی آبادی کو نگل سکتا ہے۔“
پسنی سے تعلق رکھنے والے سوشل ایکٹیوسٹ اور لکھاری ملک جان کے-ڈی کہتے ہیں ”پسنی کبھی مکران کے ساحلی علاقوں کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، جہاں سے خشک مچھلی سری لنکا، نیپال، سنگاپور وغیرہ کو برآمد ہوتی تھی اور لوگ خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ اب یہ باتیں اگرچہ ماضی کا حصہ بن چکی ہیں تاہم اب بھی یہاں کے باسیوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہی ہے۔
وہ بتاتے ہیں ”شہر کے جنوب مغرب میں ایک بڑا ٹیلہ ہے، جسے مقامی لوگ ’مستانی ریک‘ کہتے ہیں۔ ’مستانی‘ بلوچی میں پاگل اور ’ریک‘ ریت کو کہا جاتا ہے۔ ساحل کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کے نتیجے میں یہ ’پاگل ریت‘ آگے بڑھتی اور شہر ایک حصے کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔“
ضلع گوادر کی تحصیل پسنی کے اس مرکزی شہر کی آبادی 64 ہزار ہے، جس کے جنوب مغرب میں پاگل ریت کے ٹیلے کی لمبائی تقریباً چھ کلومیٹر اور چوڑائی نصف کلومیٹر ہے۔ اب اس ریت نے کلانچی محلہ، ھشتی کنڈ، نصراللہ محلہ اور عیدگاہ کو گھیر رکھا ہے۔
ملک جان کے مطابق ریت میں گھرے ان محلوں میں 64 خاندانوں کے گھر زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ محلہ نصراللہ کے ساتھ ٹیلے کی اونچائی لگ بھگ اَسی فٹ، ہشتی کنڈ اور بنگلہ بازار کے قریب پچاس فٹ جبکہ عیدگاہ کے علاقے میں اونچائی ستر فٹ ہے۔
مقامی ادیب کامران اسلم کے مطابق ہر سال دس فٹ کے قریب یہ صحرا مقامی آبادی کی طرف آتا ہے اور اس کے راستے میں جو مکانات آتے ہیں وہ ریت کی نذر ہوتے ہیں.
مقامی لوگوں کے مطابق موسم گرما میں ریتیلا سیلاب زیادہ آبادی کو متاثر کرتا ہے کیونکہ گرمیوں کے موسم میں موسمی ہواؤں کا رخ آبادی کی طرف ہونے سے ریت بھی اسی سمت سے آگے بڑھتا ہے. نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایک طرف یہ صحرائی سلسلہ ایک لحاظ سے مقامی لوگوں کے لئے کسی زحمت سے کم نہیں تو دوسری طرف ممکنہ سونامی کی صورت میں شہر کا محفوظ ترین پوائنٹ بھی ہے۔ سطح سمندر سے کافی اونچا ہونے کی وجہ سے سونامی کی لہریں یہاں پہنچ نہیں پاتیں
سونامی پر کام کرنے والا اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ڈی پی اس صحرائی پوائنٹ ’مستانی ریک‘ کو سونامی کی صورت میں شہر کا محفوظ پوائنٹ قرار دے چکا ہے۔ علاقے کے ان لوگوں کے مطابق جو کہ 1945میں ساحلی شہر پسنی میں ہونے والے سونامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، بتاتے ہیں کہ یہ صحرا اس وقت بھی محفوظ رہا۔
لیکن فی الوقت یہ یہاں ساحلی ٹیلے کی ایک بڑی آبادی کے گھروں کو نگل رہی ہے۔ یہاں کے باسی چھیالیس سالہ محمد عمر، جو ٹرک اڈے پر مزدوری کرتے ہیں، بتاتے ہیں ”سورج طلوع ہوتے ہی میں اور میرے بچے گھر سے ریت نکالنے میں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کے بچے اسکول جا رہے ہوتے ہیں۔ کون نہیں چاہتا کہ ان کے بچے اسکول جائیں، لیکن ہم افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ میں مزدور آدمی ہوں اور ماہانہ پچیس ہزار روپے کماتا ہوں۔ ہم تو کہیں اور جا بھی نہیں سکتے اور اگر جائیں بھی تو کہاں؟“
ریت میں دفن ہوتے گاؤں کے باسی محمد عمر کا کہنا ہے ”جب بھی ہوائیں چلتی ہیں شہر بھر میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ریت کے ذرات آنکھوں، منہ اور ناک میں گھس جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ماسک تو پہن لیتے ہیں مگر آنکھوں کو کیسے بچائیں کاش اس کا بھی کوئی حل نکل سکتا۔“
ملک جان کے مطابق، ستم ظریفی یہ ہے کہ گوادر کی ضلعی انتظامیہ نہ صرف اس صورت حال سے پوری طرح واقف ہے بلکہ تصدیق کرتی ہے کہ اب تک پسنی میں 70 کے قریب گھر ریت برد ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
محمد عمر کہتے ہیں ”ہم پچھلے چالیس برس سے اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں کئی گھر ٹیلوں کے نیچے چلے گئے ہیں۔ تاہم ہم وہاں سے تھوڑا پیچھے آ گئے تھے، اب یہاں بھی وہی حالت ہے۔ جب ہم سرکار سے زمین مانگتے ہیں تو سرکاری نمائندے آتے ہیں اور تصویر کھینچ کر چلے جاتے ہیں۔ ایک بار گوادر کے ڈپٹی کمشنر نے متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کا وعدہ بھی آج تک پورا نہیں ہوا۔“
اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر پسنی بتاتے ہیں کہ ریت سے متاثرہ چونسٹھ گھرانوں کو ببر شور کے علاقے میں پچیس ایکڑ رقبہ جلد الاٹ کر دیا جائے گا۔ کوشش ہے کہ ان لوگوں کو جلد سے جلد زمین الاٹ کر کے کاغذات حوالے کر دیے جائیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ریت متاثرین کے لیے چیئرمین ضلع کونسل گوادر سید معیار جان نوری نے انتظامیہ کو ببرشور وارڈ نمبر 1 میں اپنی ذاتی زمین دینے کی پیشکش کی ہے، جس کو انتظامیہ نے قبول کر لیا ہے۔
معیار جان نوری نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ مسئلہ نوے فیصد حل کر چکے ہیں اور پسنی میں ریت متاثرین کو جلد اچھی خبر دیں گے۔
اربن پلاننگ کے ماہر غلام یاسین کے مطابق ساحلی شہر پسنی کے ایک طرف بحیرہ عرب اور دوسری طرف صحرا مستانی واقع ہے۔ ہر سال موسم گرما میں ہوائیں چلنے سے شہر کی قدیمی آبادی متاثر ہو رہی ہے اور گھر ریت کے نیچے آتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ”اگر ہیوی مشینری سے صحرا مستانی کے اوپر کی سطح پر لیولنگ کی جائے تو شہر کو نہ صرف آبادی کے لیے نئی جگہ میسر آئے گی بلکہ نیچے میں قدیمی آبادی کا بچاؤ بھی ممکن ہوگا۔ اور اس سب پر ایک اندازے کے مطابق دو سے ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوں گے“
ماہر سول انجیئنر طاہر میر سمجھتے ہیں کہ ریت کو پیچھے دھکیلنے پر زیادہ اخراجات نہیں آئیں گے لیکن یہ مسئلے کا عارضی حل ہوگا، اس سے ریت ہمیشہ کے لیے نہیں رکے گی
وہ کہتے ہیں ”شہر میں کوئی پارک نہ ہونے کی وجہ سے شام کے وقت ٹیلے پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ٹیلے کو تفریح پارک میں بدل دیا جائے۔ جس سے ریت آگے نہیں بڑھے گی اور شہریوں کو بھی صاف ستھرا ماحول میسر آئے گا۔“
وارڈ نمبر پانچ کے رہائشی ساٹھ سالہ حاصل مزدوری کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا پورا محلہ ریت میں دھنستا جا رہا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ سیاسی لوگ انتخابات کے وقت آتے ہیں، وعدے کر کے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
حاصل، بے بسی کے ساتھ طنزیہ کہتے ہیں ”ہمیں ایک لحاظ سے اس ریت کا بہت فائدہ ہے۔۔ ہمیں قبر اور کفن کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ایک دن ریت کا یہ ڈھیر ہمیں بھی اپنے نیچے زندہ دفن کر دے گا۔۔ اور پھر سیاست دان آ کر ہماری بے نشاں قبروں پر اپنی سیاست چمکائیں گے۔“