یہ ذکر ہے نایاب آبی پرندوں کے مسکن، انٹارکٹیکا کے ایک سرد، ویران اور چھوٹے جزیرے کا، جو ایک ناقابلِ یقین کہانی کا مرکز بن گیا ہے
بات جب جنگلی حیات، خاص طور پر خوبصورت اور کمیاب آبی پرندوں کی نسلوں کو لاحق خطرات کی آتی ہے، تو خطرے کے طور پر سب سے پہلے ہمارے ذہن میں انسان ہی آتا ہے، کیونکہ وہی ہے جو سردیوں کے موسم میں لمبی پرواز کے بعد آنے والے پرندوں کو شکار کرتا ہے
لیکن اب یہ خطرہ پرندوں کے آبائی مسکن کے اندر پہنچ گیا ہے اور وہ بھی انسان کی بجائے چوہوں کی شکل میں۔۔
جی ہاں، خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قطبی خطے کے ایک سرد جزیرے میں چوہے پرندوں کو مار کر کھا رہے ہیں۔ ان چوہوں کی خوراک آبی پرندے ہیں، جن پر وہ لشکر کی صورت میں حملہ کر کے قابو پا لیتے ہیں
ماہرین کے مطابق جزیرے میں چوہوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ پرندوں کو ہڑپ کر کے ان کی کئی نسلوں کا دنیا سے خاتمہ کر دیں گے۔
دنیا کے انتہائی سرد خطے انٹارکٹیکا کے اس دور افتادہ اور غیر آباد جزیرے کا نام میرین ہے، جو کم یاب نسل کے آبی پرندوں کا آبائی مسکن ہے اور یہاں پرندوں کی تقریباً تیس نسلیں آباد ہیں
میرین جزیرے کا رقبہ صرف!297 مربع کلومیٹر (115 مربع میل) ہے۔ یہاں کا موسم شدید سرد ہے۔ جزیرے میں کثرت سے بارشیں برستی اور برف پڑتی ہے۔ آتش فشانی پہاڑوں سے بنے اس جزیرے کے مرکزی حصے کی بلندی 3900 فٹ کے قریب ہے اور یہ آبی پرندوں کا ایک بڑا اور قدیم مسکن ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہے ہمیشہ سے اس جزیرے میں نہیں تھے، وہ یہاں بعد میں آئے، لیکن چوہے اس جزیرے پر پہنچے کیسے۔۔
اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ وہ تقریباً دو سو سال قبل ان ماہی گیروں کی کسی کشتی میں چھپ کر وہاں پہنچے، جو وہیل کی تلاش میں ان یخ پانیوں میں جاتے تھے اور اس جزیرے پر عارضی پڑاؤ کرتے تھے۔ چوہے بھی انہی کے ساتھ چُپکے سے جزیرے پر اتر گئے۔ ماہی گیر تو چلے گئے، لیکن چوہے وہیں رہ گئے۔
چوہوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے اور زندہ رہنے کا طریقہ جانتے ہیں۔۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی نسل میں انتہائی تیزی سے اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ماہی گیروں کے جانے کے بعد میرین پر چوہوں کو جب پیٹ بھرنے کو کچھ اور نہ ملا تو انہوں نے اپنی جسامت سے کئی گنا بڑے پرندوں پر حملے شروع کر دیے اور انہیں مار کر کھانے لگے. ان پرندوں کے انڈے اور بچے تو چوہوں کا آسان شکار تھے
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میرین جزیرہ تقریباً تیس منفرد اقسام کے آبی پرندوں کا مسکن ہے، جن میں ایک نایاب پرندہ الباٹراسز بھی شامل ہے۔ یہ پرندہ جب اپنے پر پھیلاتا ہے تو وہ دس فٹ تک محیط ہو جاتے ہیں۔
دراصل یہ بھوک اور بقائے جاں کی جبلتوں کی جنگ ہے۔۔ مقصد دونوں طرف جان جان بچانا ہی ہے۔ اس جنگ میں اب تک بڑی جسامت کے پرندوں کے مقابلے میں چوہوں کا پلّہ بھاری ہے
ننھا چوہا، اپنے سائز کے مقابلے میں کئی گنا بڑے اور دیو ہیکل پرندوں کا شکار کرتا ہے اور انہیں مار گراتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چوہے کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان پرندوں کو اپنے بچاؤ کا طریقہ نہیں آتا اور شاید اس لیے بھی وہ اپنے تحفظ سے غافل رہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سے جانور بھلا انہیں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ، کہ یہ دشمن ابھی نیا ہے۔
اپنے سے کئی گنا بڑے پرندے کو گرانے کے لیے چوہے پرندے کے قریب چُھپ جاتے ہیں اور پھر لشکر کی شکل میں اس پر اجتماعی حملہ کرتے ہیں، جس سے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ آبی پرندوں کو چوہوں سے لاحق شدید خطرے کی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے میرین کا موسم اتنا سرد نہیں رہا، جتنا کہ اٹھارہویں صدی میں اس وقت تھا، جب چوہے وہاں پہنچے تھے۔
دو صدی قبل کے برفانی طوفانوں اور یخ ہواؤں کے جھکڑوں سے بچ نکلنے والے چوہوں کے لیے متعدل ہوتا ہوا موسم افزائش نسل کے لیے بہت ساز گار ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ایک چوہیا ساٹھ دن میں جوان ہو کر بچے پیدا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور ہر بار وہ سات سے آٹھ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ سال بھر میں اوسطاً پانچ سے چھ بار بچوں کو جنم دیتی ہے۔
میرین میں اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس چھوٹے سے جزیرے میں ہر طرف چوہے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس سے ان آبی پرندوں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے جو ہزاروں برسوں سے اس علاقے کو اپنے مسکن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جزیرے میں چوہوں کی آبادی کا تخمینہ دس لاکھ ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نایاب آبی پرندوں کو بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ چوہوں سے نجات حاصل کی جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ 297 مربع کلومیٹر کے جزیرے میں، جو غیر آباد بھی ہے اور جہاں آمد و رفت کے ذرائع بھی نہیں ہیں، چوہوں کو مارا کیسے جائے؟
چوہوں سے چھٹکارے کے لیے ’ماؤس فری میرین پراجیکٹ‘ یعنی ’چوہوں سے پاک میرین‘ کے نام سے ایک منصوبہ سامنے لایا گیا ہے۔
اس پراجیکٹ کے منیجر ڈاکٹر ایٹن وولفرڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم چوہوں کے خاتمے کے لیے ہیلی کاپٹروں سے جزیرے میں چوہے مار گولیاں گرائیں گے۔ اس پراجیکٹ میں چار سے چھ ہیلی کاپٹر استعمال کیے جائیں گے اور تقریباً ساڑھے لانچ سو ٹن چوہے مار گولیاں جزیرے میں پھیلائی جائیں گی، جس کے لیے جی پی ایس سے مدد لی جائے گی۔“
ایٹن وولفرڈ کو توقع ہے کہ زہر کی یہ مقدار میرین میں چوہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہوگی۔
وہ اس پراجیکٹ کو بہت تیاری اور احتیاط کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر ایک بھی چوہیا زندہ بچ نکلی تو چند برسوں میں جزیرہ پھر سے چوہوں سے بھر جائے گا۔
وہ کہتے ہیں ”اگر ہم چوہے ختم نہ کر سکے تو وہ اگلے پچاس سے سو برسوں میں جزیرے سے پرندوں کی اکثر نسلوں کو ختم کر دیں گے۔“
پروجیکٹ حکام کے بقول، چوہوں کے خاتمے کے لیے ایک خصوصی زہر استعمال کیا جائے گا، جس سے پرندوں یا جزیرے کی دیگر جنگلی حیات کو نقصان نہیں ہوگا اور اس زہر کا ماحول پر بھی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس پراجیکٹ پر اخراجات کا تخمینہ ڈھائی کروڑ ڈالر ہے جس کا زیادہ تر حصہ جنوبی افریقہ کی حکومت فراہم کرے گی، کیونکہ یہ جزیرہ اسی کی ملکیت ہے۔
واضح رہے کہ ماہرین ماضی میں بھی اس جزیرے کو چوہوں سے پاک کرنے کے لیے ایک تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ 1940ع کے عشرے کی بات ہے۔ چوہوں سے مقابلے کے لئے پانچ بلیاں جزیرے میں چھوڑی گئیں، مگر چوہوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ جبکہ اس کا اثر بھی الٹا نکلا
تحقیق پر پتہ چلا کہ بلیوں نے چوہے مارنے کی بجائے پرندوں کو کھانا شروع کر دیا تھا
1970 کی دہائی میں جزیرے میں بلیوں کی تعداد بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ چکی تھی اور پرندوں کا گوشت انہیں اس قدر پسند تھا کہ وہ ہر سال پانچ لاکھ کے قریب پرندے مار کر ہڑپ کر رہی تھیں۔ بلیوں سے پرندوں کی جان چھڑانے کے لیے ماہرین کو وہاں فلائن فلو کا وائرس پھیلانا پڑا۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ ماہرین ماضی کے تجربے کی روشنی میں مجوزہ پراجیکٹ پر بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔