دنیا سے شہد کی مکھیوں کا خاتمہ، ہماری موت۔۔۔! اندوہناک پیشنگوئیاں

ترجمہ و ترتیب: امر گل

سائنسدانوں کی مختلف امور پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انسانوں کو دس ایسے خطرات درپیش ہیں، جن کے لئے فوری اقدامات ضروری ہیں، ان میں سے خطرہ شہد کی مکھیوں کے معدوم ہونے کا ہے

زمین پر شہد کی مکھیوں کی بقا انسانی زندگی کے لئے کتنی اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں کھائے جانے والے کھانے کے ہر تین میں سے ایک کی کامیاب فصل کا انحصار پولینٹرز (بیج پھیلانے والے) پر ہوتا ہے، جن میں خاص طور پر شہد کی مکھی شامل ہے

یہ پولینیٹرز یا کیڑے مکوڑے خوراک کی پیداوار اور ایکو سسٹم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایکو سسٹم کا مطلب ہے وہ نظام جس کے تحت جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت تمام جانداروں کی زندگیوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق کیڑے مکوڑے انسانوں کو پولینیشن جیسی جو اہم اور مفت سروس فراہم کرتے ہیں، اس کی وجہ سے انسانوں کو 350 ارب ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر تمام شہد کی مکھیاں مر جائیں تو انسان بھی جلد مر جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پورے ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ شہد کی مکھیوں کے مر جانے کی صورت میں ایسے جانور یا پرندے، جن کی غذا شہد کی مکھیاں ہیں، وہ اپنے شکار سے محروم ہو جائیں گے اور یہ قدرتی نظام اور فوڈ ویب (غذائی جال) کو بھی متاثر کرے گا۔ شہد کی مکھیوں کی موت انسانی کھیتی باڑی کو بھی متاثر کر دے گی۔

اسی حوالے سے آئن اسٹائن سے غیر مصدقہ طور پر منسوب ایک بات بھی مشہور ہے کہ ’اگر دنیا سے شہد کی مکھیاں ختم ہو جائیں تو انسانی نسل چار سال کے اندر ختم ہو جائے گی۔‘

جبکہ دوسری جانب بعض ماہرین ایسے بھی ہیں، جن کے نزدیک اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ان مکھیوں کے بغیر نسل انسانی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ تاہم وہ بھی اس کے ناقابلِ تلافی نقصان سے انکار نہیں کرتے۔

قیامت کے منتظر افراد شہد کی مکھیوں کی معدومیت سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کی نسل معدوم ہونے سے ایک طرف شہد کا حصول ناممکن ہو جائے گا تو دوسری جانب انسانوں کےاستعمال میں آنے والی کئی فصلیں بھی ختم ہو جائیں گیجن میں سویابین، کپاس، برا سیکا، برازیل نٹ، بادام، انگور، سیب اور سورج مکھی جیسی اہم فصلیں بھی شامل ہیں۔ نباتاتی ذرائع سے حاصل ہونے والی خوراک کا تقریباً ایک تہائی حصہ ان مکھیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے، کیونکہ ان فصلوں کا زردانہ ان مکھیوں کے ذریعے ہی نر پودے سے مادہ پودے تک پہنچتا ہے۔ اگر شہد کی مکھیاں ختم ہو گئیں تو بہت سی فصلیں ناپید ہو جائیں گی۔ خوراک کی کمی، قحط، اور قتل و غارت گری کے واقعات اس کا لازمی نتیجہ ہوں گے، جنہیں پھیلنے سے روکنا ناممکن ہوگا۔

آج دنیا بھر میں ماحول ناکامی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور کسی کو بھی کچھ اندازہ نہیں کہ اس عمل کو کیسے روکا جائے۔ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں سمیت کم و بیش پانچ ہزار حیوانات کی انواع کو معدوم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ ان میں سے سینکڑوں انواع مکمل طور پر ناپید ہو جائیں گی۔ ہر دور میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں مختلف انواع کو خطرات لاحق رہے ہیں مگر پورے کرۂ ارض پر اتنی بڑی تعداد میں انواع کے معدوم ہوجانے کا خطرہ پہلے کبھی لاحق نہیں رہا۔ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں واضح اکثریت کو ماحول میں پیدا ہونے والی گراوٹ کی کچھ پروا نہیں۔ ماحول کی گراوٹ کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔ یہ خیال، غیر معمولی کوششوں کے باوجود، اب تک عام نہیں کیا جاسکا کہ زمین اور اس کے ماحول کو پہنچنے والا نقصان ہم سب کا ذاتی نقصان ہے، کیونکہ ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ کے شدید منفی اثرات سے ہم کسی طور بچ نہیں پاتے۔

قدرت نے کرہ ارض پر ایک غذائی جال بچھا رکھا ہے، جس کے تانے بانے آپس میں ملتے ہیں۔ پولنیٹرز اس جال کا اہم حصہ ہیں، جن میں شہد کی مکھیوں کی کلیدی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور بھوک سے لڑنے میں غذائیت سے بھرپور غذا کی فراہمی کے لیے شہد کی مکھیوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے 2018 سے ہر سال 20 مئی کو شہد کی مکھیوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی کٹائی، بعض کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے استعمال اور فضائی آلودگی کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

شہد کی مکھیاں خطرے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق انسانی اثرات کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کے معدوم ہونے کی شرح معمول سے 100 سے 1000 گنا زیادہ ہے۔ شہد کی مکھیوں کے بغیر، ہمیں عالمی سطح پر غذائی عدم تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کا خطرہ ہے۔

تتلیوں، چمگادڑوں اور ہمنگ برڈز اور ایسے دوسرے پرندے جو پولینیشن (پرندوں کے ذریقے پھولوں کی نشوونما اور افزائش کے لیے ان کے بیجوں کے پھیلاو کا قدرتی عمل) کا کام کرتے ہیں، اب انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خود ان پرندوں کی بقا خطرے میں ہے۔

یاد رہے کہ پولنیشن کا عمل اس وقت ہوتا ہے، جب پولن کے ذرے ایک پھول سے دوسرے پھول میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ گری دار میوے اور بیج بناتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصد پودوں میں یہ عمل شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔

جب شہد کی مکھیاں پھولوں سے رس اکٹھا کرتی ہیں تو شہد کی مکھیوں کے پاؤں سے پولن چپک جاتا ہے اور پھر دوسرے پھولوں تک انہی مکھیوں کے ذریعے پھیل جاتا ہے۔ یہ جنگلات اور نخلستانوں کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ شہد کی مکھیاں ایک پھول سے دوسرے پھولوں میں پولن کے ذرات منتقل کرنے میں پودوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ”شہد کی مکھیوں کے بغیر نہ صرف سبزیوں اور تیل کے بیجوں بلکہ بادام، اخروٹ، کافی، کوکو بینز، ٹماٹر، سیب وغیرہ کی فصلوں کے پولینیشن کو بھی نقصان پہنچے گا۔ یہ انسانی خوراک میں غذائیت کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے شہد کی مکھیاں نہ صرف شہد کی پیداوار کے لیے بلکہ عالمی خوراک کی پیداوار کے لیے بھی اہم ہیں۔“

حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار ترقی میں تحقیق کرنے والے ادارے ’اشوکا فاؤنڈیشن فار ایکولوجی اینڈ انوائرنمنٹل ریسرچ‘ کے سینئر ماہر ڈاکٹر پریا درشنن دھرم راجن کا کہنا ہے ”موسمیاتی تبدیلیاں شہد کی مکھیوں کو درپیش خطرات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھنے سے شہد کی مکھیوں کا نظام انہضام (میٹابولک ریٹ) بھی تیز ہو جاتا ہے، اس کی وجہ سے شہد کی مکھیاں کھانا اکٹھا کرنے میں معمول سے زیادہ توانائی خرچ کرتی ہیں۔“

شہد کی مکھیاں چھتے میں جمع کیا ہوا شہد انڈیلتی ہیں اور نمی کو خشک کرنے کے لیے اپنے پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ اس سے چھتے کا درجہ حرارت متوازن رہنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر درجہ حرارت بڑھ جائے تو ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر پریا درشنن کہتے ہیں ”دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیاں پھولوں کی پیداوار کو متاثر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پھول بہار کے اوائل میں کھلتے ہیں، تو شہد کی مکھیاں ان سے چارہ نہیں کھا سکیں گی، لہٰذا موسم بہار میں وہ بغیر کھائے مر جاتی ہیں۔“

شہد کی مکھیاں سورج مکھی کے پودے کے پولن کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سورج مکھی کے پھول کی مدت کے دوران اچھی پولینیشن کے نتیجے میں زیادہ پیداوار حاصل ہوگی۔

ڈاکٹر پریا درشنن کہتے ہیں، ”مخصوص قسم کی کیڑے مار ادویات اور جڑی بوٹی مار ادویات کا استعمال شہد کی مکھیوں کو مار سکتا ہے یا کمزور کر سکتا ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو وہ شہد کی مکھیوں کی تباہی کی بنیادی وجہ ہیں۔“

اس کے علاوہ شہد کی مکھیوں کے رہائش گاہوں میں تبدیلی بھی اہم عنصر ہے۔ مکھیاں خوراک اور پولن کے لیے پھولوں اور پودوں کا رخ کرتی ہیں۔ اگر وہ زمینیں جہاں فصلیں اگتی ہیں تباہ ہو جائیں تو وہ بھی معدوم ہو جائیں گی۔

شہد کی مکھیوں میں جنگلی مکھیوں کی انواع سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ عام شہد کی مکھیوں کے برعکس، جنگلی مکھیوں کو بڑے مسکن کی ضرورت ہوتی ہے، اگر جنگلات اور درخت تباہ ہو جاتے ہیں تو ان کے رہنے کی جگہیں اور خوراک جمع کرنے کی جگہیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر پریا درشنن کا کہنا ہے ”ترقی یافتہ ممالک شہد کی مکھی کی انہی قابلِ قدر حصوصیات کے باعث ان کے لیے پولینیشن سائٹس اور پارکس بھی قائم کرتے ہیں۔ ایسی پالیسیاں یہاں بھی لاگو ہونی چاہئیں۔ دیہات میں چھوٹے جنگلات کی حفاظت کی جانی چاہیے۔“

وائلڈ لائف فوٹو گرافر اور کالم نگار اے شان موکانندم کے مطابق بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شہد کی مکھیاں اس دنیا میں صرف شہد دینے کے لیے موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں ”انسانوں کو شہد کی مکھیوں کو پولینیشن کے عمل کے لیے بچانا چاہیے۔ وہ دنیا کے بہترین پولینیٹر (بیج پھیلانے والے) ہیں۔ اگر شہد کی مکھیوں کے ذریعے پولنیشن نہیں ہوتی ہے تو پودے شدید متاثر ہوں گے۔ پھر خوراک کی پیداوار بھی کم ہو جائے گی۔ یہ نسل انسانی کی تباہی کا آغاز ہوگا۔“

کارل وون فریسچ جانوروں کے رویے کا مطالعہ کرنے کے ماہر ہیں جنھیں کیڑوں پر تحقیق کرنے پر 1973 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

کارل نے شہد کی مکھیوں کے رقص کو دلچسپ انداز سے بیان کیا ہے، ”شہد کی مکھیاں چمبیلی اور گلاب جیسے پھولوں کو نہیں ڈھونڈتیں جن کی خوشبو بہت تیز ہوتی ہے بلکہ یہ مکھیاں زیادہ تر آم کے پھول، سورج مکھی کے پھول، تل کے بیج اور دیگر بہار کے پھولوں کو تلاش کرتی ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون سے پھول کس موسم میں کھلتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ پھول، یا ان کی خوراک کہاں ہے اور وہ یہ سونگھ کر پتا چلاتی ہیں۔ یہ بہت سمجھدار مخلوق ہیں۔ یہ مخصوص پھولوں کو سونگھتی ہیں اور صرف ان سے رس اکٹھا کرتی ہیں۔ ہر ایک مکھی شہد جمع کرتی ہے۔ یہ مکھیاں انجینئرنگ کے اصول کے تحت اپنے چھتے بناتی ہیں۔“

شان موکانندم کہتے ہیں کہ ایسی شاندار مخلوق کو انسان بہت عام کیڑے سمجھتے ہیں۔ وہ ان کی بالکل پروا کیے بغیر انہیں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر شہد کی مکھیوں کی آبادی میں کمی آئی تو سب سے پہلے انسان متاثر ہوں گے۔

دنیا میں کیڑے مکوڑے انسانی نسل کے وجود سے ایک ملین سال پہلے موجود تھے۔ پائیدار ترقی اسی وقت ممکن ہے جب لوگ اس کا ادراک کریں اور فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔

شان موکانندم کہتے ہیں ”اپنے اردگرد موجود ہرے بھرے جنگلات، درختوں اور پودوں کو محفوظ کرکے شہد کی مکھیوں اور حشرات الارض کی بقا کے لیے موزوں ماحول کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ انسان کو اسے پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔“

 آپ پولینیٹرز کی حفاظت میں کیسے مدد کر سکتے ہیں؟

پھول لگائیں: شہد کی مکھیوں کی مدد کرنے کے آسان ترین طریقوں میں سے ایک پھولوں کی بہتات، شہد کی مکھیوں کے لیے موزوں درخت اور دیگر چارہ لگانا ہے۔ مقامی پودوں کا انتخاب کرکے جو سال بھر کھلتے ہیں، آپ ان اہم کیڑوں کو زندہ رہنے اور اپنی نسل بڑھانے کے مزید مواقع دے سکتے ہیں۔

پتے نہ کاٹیں: شہد کی مکھیاں جنگل کے ساتھ پھلتی پھولتی ہیں۔ درختوں کے پتے نہ کاٹ کر، آپ شہد کی مکھیوں کو شکاریوں سے چھپنے اور عناصر سے محفوظ رہنے کی جگہ دے سکتے ہیں ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پتوں کو بھی نہ کاٹیں، کیونکہ یہ کیڑوں کے انڈے یا لاروا کو مار سکتا ہے۔

لان کے متبادل پر غور کریں:

جب قدرتی رہائش گاہوں کو گھاس سے بدل دیا جاتا ہے، تو یہ جمالیاتی طور پر خوشنما نظر آتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکثر، گھاس کے لان میں کیڑے مار ادویات جیسے کیمیکلز کے ساتھ اہم دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو پودوں، کیڑوں اور جانوروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اپنے لان کے کچھ حصے یا تمام لان کو مقامی پرجاتیوں، جیسے کلور، کریپنگ تھیم، یا دیگر گراؤنڈ کور سے بدل کر، آپ نہ صرف لان کی دیکھ بھال کے لیے اپنا وقت اور پیسہ بچاتے ہیں بلکہ شہد کی مکھیوں اور جرگوں کے لیے ایک فروغ پزیر ماحولیاتی نظام بھی فراہم کرتے ہیں۔

کیڑے مار ادویات کا استعمال بند کریں: کیڑے مار دوائیں، بشمول کیڑے مار ادویات، فنگسائڈز، اور جڑی بوٹی مار دوائیں، شہد کی مکھیوں، انسانوں اور ماحول کے لیے ناقابل یقین حد تک نقصان دہ ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو نقصان پہنچانے کا ایک طریقہ ان کے اعصابی نظام کو بہت زیادہ نقصان پہنچانا اور ان کے مدافعتی نظام کو مستقل طور پر کمزور کرنا ہے۔ Xerces سوسائٹی کے مطابق ، شہد کی مکھیوں کے چھتے سے 90 فیصد سے زیادہ جرگ کے نمونے ایک سے زیادہ کیڑے مار ادویات سے آلودہ ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں اور ماحولیات پر ان کیمیکلز کے منفی اثرات کا واحد حل کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کم یا ختم کرنا ہے۔

حوالہ جات: گریٹر گڈ چیریٹیز، برٹانیکا، بی بی سی، بَگ لائف، گلوبل سٹیزن

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close