ان دنوں پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں شدید ترین گرمی پڑ رہی ہے اور نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ کہیں درجۂ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے تو کہیں حبس کی وجہ سے لوگ نڈھال ہیں۔
درجۂ حرارت میں یہ اضافہ انسانی جسم پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ گرمی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ انسانی جسم کے اندر زندگی اور موت کی جنگ چھڑ چکی ہے
آخر گرمی کی اس شدت یا ہیٹ ویو کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں کیسے چلا جاتا ہے؟ انسانی جسم کے اعضا پر گرمی کی وجہ سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس بات کا پتہ چلانے کے لیے ماہرین نے رضاکاروں کو ’ہاٹ باکسز‘ سے گزار کر کچھ تجربات کیے
اس عمل کے دوران رضا کاروں کو ایک گرم باکس میں رکھا جاتا ہے اور مختلف درجۂ حرارت میں اُن کے جسم کے ردِعمل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تجربات کی روشنی میں یہ سامنے آیا ہے کہ جو درجۂ حرارت انسانی جسم کے لیے خطرے کا باعث سمجھا جاتا ہے، اس سے کئی ڈگری کم درجۂ حرارت بھی انسانی جسم کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سڈنی آسٹریلیا میں ہیٹ اینڈ ہیلتھ کے ماہر پروفیسر اولی جے کا کہنا ہے کہ ایک صحتمند انسانی جسم کا درجۂ حرارت 98.6 ڈگری فارن ہائٹ یعنی 37 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جو ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں سے صرف سات ڈگری فارن ہائٹ کم ہے۔
ہیوسٹن میتھوڈسٹ اسپتال کے میڈیسن ڈائریکٹر ڈاکٹر نیل گاندھی کہتے ہیں کہ ہیٹ ویوز کے دوران جو شخص بھی بغیر کسی انفیکشن کے 102 یا اس سے زیادہ بخار میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے گرمی کی وجہ سے تھکن اور ہیٹ اسٹروک ہو سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گرمی کی شدید لہر کے دوران زیادہ تر مریضوں کو 104 یا 105 بخار ہو سکتا ہے۔ اگر مریض کے جسم کا درجۂ حرارت اس سے ایک یا تین درجے زیادہ ہو تو اس شخص کے موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
گرمی سے موت کیسے ہوتی ہے؟ اس حوالے سے پروفیسر اولی جے کہتے ہیں کہ گرمی سے اموات کی تین وجوہات ہیں، جن میں پہلی بنیادی وجہ ہیٹ اسٹروک ہے۔ ایسے میں جسم کا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جب جسم کا اندرونی درجۂ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو جسم ٹھنڈا ہونے کے لیے خون کے بہاؤ کو جلد کی طرف بھیج دیتا ہے، اس دوران معدے اور آنتوں کو آکسیجن اور خون کی سپلائی کم ہو جاتی ہے اور نظام انہضام متاثر ہونے سے فاسد مادے حرکت میں آ جاتے ہیں۔
پروفیسر اولی جے کہتے ہیں کہ یہ عوامل جسم پر کئی مضر اثرات مرتب کرتے ہیں، جن میں جسم کے اندر خون کا جمنا اور اعضا کی ناکامی شامل ہیں، جس سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
اُن کے کہنا ہے کہ گرمی کی وجہ سے زیادہ اموات دل پر پڑھنے والے دباؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جو پہلے سے ہی دل کے مریض ہوتے ہیں۔
اس صورتِ حال میں بھی وہی عمل دوبارہ ہوتا ہے، یعنی جسم خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے خون کو جلد کی طرف بھیجتا ہے، جس کی وجہ سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ اس دوران دل خون کو پمپ کرنے کے لیے مزید زور لگاتا ہے۔
اُن کے مطابق اس صورتِ حال میں دراصل ”آپ پہلے سے ہی کمزور دل کو بہت زیادہ کام کرنے کا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کی ٹانگ زخمی ہے اور آپ چھوٹتی بس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔“
پروفیسر اولی جے کے مطابق تیسری وجہ ڈی ہائیڈریشن یعنی جسم میں خطرناک حد تک پانی کی کمی کا ہونا ہے۔ جب لوگ گرمی میں تھک جاتے ہیں تو جسم سے بہت زیادہ پانی نکل جاتا ہے جو گردوں کو دباؤ کا شکار کرتا ہے۔
ڈاکٹر نیل گاندھی کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال میں بہت سے لوگوں کو خطرے کی نوعیت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر آف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر رینی سالاس کہتے ہیں کہ ڈی ہائیڈریشن یعنی پانی کی کمی کی وجہ سے انسان کی حالت غیر ہو سکتی ہے۔ خون، آکسیجن اور غذائی اجزا کی کمی کی وجہ سے اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جس سے دورے پڑ سکتے ہیں اور موت واقع ہو سکتی ہے۔
اُن کے بقول ڈی ہائیڈریشن ویسے تو ہر کسی کے لیے خطرناک ہے، لیکن یہ ان افراد کے لیے خطرہ مزید بڑھا دیتی ہے، جو پہلے سے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں اور دوائیں لے رہے ہیں۔
پروفیسر اولی جے کہتے ہیں کہ جسم میں پانی کی کمی بھی خون کے بہاؤ کو متاثر کرتی ہے، جس سے دل کے امراض کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
دماغ پر گرمی کے اثرات کے بارے میں کئی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت انسانی دماغ کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اس سے انسان اُلجھن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے صحتِ عامہ اور آب و ہوا کی پروفیسر کرس ایبی کہتی ہیں کہ ہیٹ ویو کا شکار ہونے والے مریض کی سب سے پہلی علامت مریض کا کنفیوز ہونا ہے، لیکن متاثرہ شخص کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا کیوں کہ بڑی عمر کے افراد کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہے۔
پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے فزیالوجی کے پروفیسر ڈبلیو لیری کینی کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو 104 بخار ہے اور اس کا اعصابی نظام کام نہیں کر رہا تو یہ ہیٹ اسٹروک کی سب سے بڑی علامت ہے۔
بعض ماہرین ہیٹ اسٹروک کے تعین کے لیے باہر کے درجہ حرارت اور ہوا میں موجود نمی کی پیچیدہ پیمائش کا طریقۂ کار بھی استعمال کرتے ہیں، جسے ویٹ بلب گلوب ٹمپریچر (ڈبلیو بی جی ٹی) کہا جاتا ہے۔
ڈبلیو بی جی ٹی کے ذریعے درجۂ حرارت اور نمی کے تناسب کے علاوہ دیگر پہلوؤں کا جائزہ لے کر بھی رپورٹ مرتب کی جاتی ہے۔
پروفیسر کینی کہتے ہیں کہ اس طریقۂ کار کے مطابق اگر جسم کا درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ بھی ہو تو جسم مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
پروفیسر کینی نے بھی ہاٹ باکس لیب بنا رکھی ہے، جہاں وہ اب تک چھ سو رضاکاروں پر تجربات کر چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈبلیو بی جی ٹی طریقے کے ذریعے جب رضا کاروں پر تجربات کیے گئے تو نوجوان رضا کار 30.5 ڈگری سینٹی گریڈ جب کہ بڑی عمر کے افراد 28 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہی برداشت کر سکے۔
اسی طرح جب خشک گرمی برداشت کرنے کے لیے تجربات کیے گئے تو نوجوان نے 52 ڈگری سینٹی گریڈ جب کہ بڑی عمر کے افراد نے 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک برداشت کیا۔
اُن کے بقول ہوا میں نمی کے ساتھ ہونے والی گرمی خشک گرمی سے زیادہ اموات کا باعث بنتی ہے۔
اس سلسلے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر مریض کو کیسے ٹھنڈا رکھا جائے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر رینی سالاس کہتے ہیں کہ ہیٹ اسٹروک ایک ہنگامی صورتِ حال ہے اور اس میں طبی عملہ تیس منٹ کے اندر اندر مریض کے جسم کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اُن کے بقول مریض کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اسے ٹھنڈے پانی کے ٹب میں بھی رکھا جاتا ہے، لیکن یہ باتھ ٹب ہر جگہ موجود نہیں ہوتے، لہٰذا طبی عملہ مریضوں کا درجۂ حرارت معمول پر لانے کے لیے ڈرپس بھی لگاتا ہے، مریض کے قریب آئس پیک رکھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر رینی سالاس کہتے ہیں کہ کبھی کبھار یہ طریقہ بھی کام نہیں آتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ہیٹ اسٹروک کے ذریعے موت ایک خاموش قاتل کی طرح ہی ہے، کیوں کہ اسے دیکھنے میں کوئی ڈرامائی حالات نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ چھپا ہوا ہے۔