انسانی وجود کائنات کے وسیع تر منظرنامے میں نسبتاً قلیل عرصے سے ہے۔ اگرچہ ہم نے بہت ترقی کی ہے، لیکن ہمیشہ یہ امکان موجود رہتا ہے کہ ہماری نسل ناپید ہو سکتی ہے۔
یہ سوال کہ یہ کب اور کیسے ہو سکتا ہے، ایک دلچسپ موضوع ہے۔
کائنات کے خاتمے کے بارے میں مذہبی اور سائنسی نظریات کئی مختلف زاویوں سے بحث کرتے ہیں، جن میں ہر ایک اپنی منفرد تفہیم اور تشریح پیش کرتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم اسلامی نظریے کی بات کریں تو اسلام کے مطابق، کائنات کے خاتمے کو قیامت کا دن کہا گیا ہے، جب اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو فنا کر دے گا۔ قرآن میں کئی مقامات پر قیامت کے دن کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جس میں کائنات کے مختلف مظاہر میں تبدیلیوں کا ذکر ہے ، جیسے زمین کا لپیٹا جانا، ستاروں کا بکھرنا، پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہونا اور سورج کا زمین کے قریب آنا
دوسری جانب سائنس کائنات کے خاتمے کے بارے میں مختلف مفروضے اور نظریات پیش کرتی ہے جو کائنات کے فزیکل اصولوں اور کائناتی مشاہدات پر مبنی ہیں. ان میں سر فہرست بگ کرنچ (Big Crunch) ، بگ فریز (Big Freeze)، بگ ریپ (Big Rip) ، حرارتی موت (Heat Death) کے نظریات شامل ہیں
بہرحال یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ کچھ سائنسی بنیادوں پر مبنی پیشین گوئیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔
ایک بات تو طے ہے: انسان ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں!
بہت سے عوامل ہمارے ناپید ہونے میں کردار ادا کر سکتے ہیں، جن میں قدرتی آفات، بیماریاں، جنگیں اور بہت سی دیگر وجوہات شامل ہیں۔
کیوریئس میٹرکس کے ایک جامع مضمون میں انسانی نسل کے ناپید ہونے کے تمام ممکنات کا احاطہ کیا گیا ہے، جن کا ذکر ہم ذیل میں کر رہے ہیں۔
ناپیدگی کے تاریخی تناظر
اجتماعی ناپیدگی کے واقعات
تاریخ کے دوران، زمین نے کئی اجتماعی ناپیدگی کے واقعات کا سامنا کیا ہے، جہاں بہت بڑی تعداد میں انواع ایک مختصر مدت میں ختم ہو گئیں۔
ان میں سب سے مشہور واقعہ کریٹیشیئس-پیلوجین ناپیدگی کا ہے، جو تقریباً 66 ملین سال پہلے ہوا اور جس نے ڈائنوسارز کو ختم کر دیا۔
دیگر اجتماعی ناپیدگی کے واقعات میں پرمئن-ٹرائیسک ناپیدگی شامل ہے (جسے ’عظیم موت‘ بھی کہا جاتا ہے)، جو تقریباً 252 ملین سال پہلے ہوا اور اس نے تقریباً 96 فیصد سمندری انواع کو ختم کر دیا۔
ایسے تین اور بڑے ناپیدگی کے واقعات بھی ہوئے ہیں، لیکن یہ سب اس وقت پیش آئے، جب انسان زمین پر موجود نہیں تھے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے واقعات سے کسی طرح بچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
کوئی نہیں جانتا، کیونکہ یہ سب ہماری موافقت اور اس وقت کی فرضی تکنیکی ترقی پر منحصر ہوگا۔
تاہم، اجتماعی ناپیدگی کے واقعات مستقبل میں بھی ہو سکتے ہیں، جب ہم (شاید) ابھی تک زمین پر موجود ہوں گے، تو آئیے ہر عامل اور انسانی ناپیدگی کی ممکنہ پیشین گوئی پر گہرائی سے نظر ڈالتے ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ کی 1000 سال کی پیشین گوئی
اسٹیفن ہاکنگ نے پیشین گوئی کی تھی کہ انسانوں کے پاس اس سیارے پر ناپید ہونے سے پہلے تقریباً 1000 سال باقی ہیں، اگر اس دوران ہم رہنے کے لیے کوئی دوسرا سیارہ نہیں ڈھونڈ پائے تو ہم ناپید ہو جائیں گے۔
انہوں نے اپنی پیشین گوئی انسانوں کی قدرتی وسائل کے استعمال اور ماحول کو آلودہ کرنے کی رفتار کی بنیاد پر کی تھی۔
ہاکنگ کا خیال تھا کہ اگر انسان اسی رفتار سے وسائل استعمال کرتے رہے، تو چند سو سالوں میں یہ سیارہ ناقابلِ رہائش ہو جائے گا۔
انہوں نے اس بابت بھی خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانیت کے بقا کے لیے ایک خطرہ ہو سکتی ہے۔
اپنی ناخوشگوار پیشین گوئی کے باوجود، ہاکنگ پُرامید تھے کہ انسان اگلے ہزار سالوں سے بھی زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے کا کوئی راستہ تلاش کر لیں گے۔
ان کا خیال تھا کہ خلا کی تلاش اور نوآبادیات زمین پر وسائل کی کمی کے مسئلے کا حل فراہم کر سکتی ہیں۔
دلچسپ حقیقت: اسٹیفن ہاکنگ کی پیشین گوئی مشہور طبیعات دان میچو کاکو کی پیشین گوئی سے ملتی جلتی ہے، جنہوں نے بھی پیشین گوئی کی تھی کہ انسانوں کے پاس ناپید ہونے سے پہلے تقریباً 1000 سال باقی ہیں (اس سیارے پر)۔
قدرتی وجوہات
ہمارے سورج کی موت؟
سورج زمین پر زندگی کے لیے بنیادی توانائی کا ذریعہ ہے۔ تاہم، یہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔
تقریباً 5 ارب سال میں، سورج کا ایندھن ختم ہو جائے گا اور یہ ایک ’سرخ دیو‘ میں تبدیل ہو جائے گا، جو مرکری اور وینس کو نگل لے گا۔
بالآخر، یہ ایک سفید بونے میں سکڑ جائے گا، اور ایک سیاروی نیبولا چھوڑ جائے گا۔
یہ عمل یقیناً زمین کو ناقابلِ رہائش بنا دے گا اور زندگی کے خاتمے کی نشاندہی کرے گا۔
دلچسپ حقیقت: سورج کی روشنی میں اس کے بننے کے بعد سے تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 4.6 ارب سال پہلے وجود میں آیا تھا۔
مستقبل میں ممکنہ سیاروی ناپیدگی کا واقعہ
سیارچوں (Asteroids) کے ٹکراؤ کے واقعات ماضی میں اجتماعی ناپیدگی کا باعث بنے ہیں، اور مستقبل میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
ناسا اس وقت ہزاروں کرہ ارض کی قریب اشیاء/اجرام کی نگرانی کر رہا ہے جو ممکنہ طور پر ہماری زمین سے ٹکرا سکتی ہیں۔
اگرچہ ایک تباہ کن تصادم کا امکان کم ہے، لیکن یہ امکان بہرحال موجود ہے۔
بلیک ہول کا زمین سے ٹکرانا؟
بلیک ہول انتہائی کثیف اجسام ہوتے ہیں جو زمان و مکان کو موڑ دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ انتہائی غیر ممکن ہے کہ کوئی بلیک ہول ہمارے نظام شمسی کے قریب آئے، لیکن اگر ایسا ہو جائے تو نتائج تباہ کن ہوں گے۔
ایسے میں کششی قوتیں زمین اور اس پر موجود ہر چیز کو چیر پھاڑ دیں گی۔
دلچسپ حقیقت: زمین کے قریب ترین معلوم بلیک ہول ’گائیا BH1‘ ہے، جو تقریباً 1560 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
250 ملین سال میں اجتماعی ناپیدگی؟
سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ 250 ملین سال میں زمین کی شکل بہت مختلف ہوگی۔ اگر ہم اس دور دراز وقت میں موجود رہے، تو ہمیں ایک سپر براعظم، پانجیا الٹیما، پر ایک چیلنجنگ ماحول کا سامنا ہوگا۔
ذیل میں مختلف کمپیوٹر ماڈلز کی بنیاد پر سائنسدانوں کی پیشین گوئیوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
1. سپر براعظم: تمام براعظم ایک بڑے زمینی رقبے میں ضم ہو جائیں گے، جو خط استوا کے گرد مرکوز ہوگا۔ اس سپر براعظم کے اندرونی حصے میں انتہائی درجہ حرارت کا سامنا ہوگا، کیونکہ اس کے وسیع سائز کی وجہ سے قطبین کے قریب کوئی ٹھنڈی پناہ گاہیں نہیں ہوں گی۔
2. حرارت میں اضافہ: سورج آہستہ آہستہ زیادہ گرم ہو رہا ہے، اور 250 ملین سال میں زمین کی سطح پر پہنچنے والی حرارت آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اوسط درجہ حرارت تقریباً 122 ڈگری فارن ہائیٹ یا 50 ڈگری سیلسیس ہوگا۔
3. ممالیہ جانوروں کا ناپید ہونا: کمپیوٹر ماڈلز کے مطابق، تقریباً تمام خشکی کے ممالیہ جانور ناپید ہو جائیں گے۔ ’پانجیا الٹیما‘ کے زیادہ تر علاقوں میں درجہ حرارت ممالیہ جانوروں کے زندہ رہنے کی حد سے تجاوز کر جائے گا۔
کائنات کی موت = انسانوں کی موت
سائنس کی نظر میں کائنات کا آخری مقدر ابھی تک نامعلوم ہے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ بالآخر زیادہ سے زیادہ اینٹروپی کی حالت تک پہنچ جائے گی، جہاں ہر چیز برابر تقسیم ہو چکی ہوگی اور کوئی توانائی باقی نہیں رہے گی۔
اس عمل کو ’حرارت کی موت‘ یا ’بگ فریز‘ کہا جاتا ہے، جو زندگی اور کائنات دونوں کے خاتمے کی نشاندہی کرے گا۔
انسانی وجود کو لاحق موجودہ خطرات
ایٹمی جنگ
ایٹمی جنگ کا امکان ہمیشہ سے انسانی وجود کے لیے ایک مستقل خطرہ رہا ہے، خاص طور پر حالیہ برسوں میں۔
ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال تباہ کن نقصانات کا باعث بن سکتا ہے، جس سے لاکھوں یا اربوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں اور پورے شہر تباہ ہو سکتے ہیں۔
ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور ایٹمی ہتھیاروں والے ممالک کے درمیان تخفیف اسلحہ کے معاہدوں کی کمی حادثاتی یا ارادی طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔
ذرا تصور کریں اگر کوئی ایک ملک ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر لے، تو ہم چند منٹوں میں ایک بڑی تباہی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اتنے زیادہ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں کہ ہم خود کو (اور زمین کو) 100 بار تباہ کر سکتے ہیں۔
دلچسپ حقیقت: دنیا کے ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کے پاس کل ملا کر تقریباً 12,512 ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ تاہم، دنیا بھر میں بہت سے ایٹمی ہتھیار ایسے بھی ہیں جو فی الحال غیر فعال ہیں، لیکن تباہ نہیں کیے گئے۔
وبائیں
وبا ہمیشہ انسانی وجود کے لیے عالمی خطرہ رہی ہیں۔ نئے متعدی امراض کا ظہور اور موجودہ بیماریوں کا پھیلاؤ وسیع پیمانے پر بیماری اور موت کا سبب بن سکتا ہے۔
ذرا تصور کریں کہ اگر کسی تجربہ گاہ سے غلطی سے کوئی مہلک وائرس (50 فیصد شرح اموات) باہر آ جائے۔ اتنی بڑی انفیکشن کی شرح کو ملا کر چند ہفتوں یا شاید دنوں میں معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔
مصنوعی ذہانت کے خطرات
مصنوعی ذہانت (AI) بھی انسانی وجود کے لیے ممکنہ خطرہ ہو سکتی ہے۔ جدید اے آئی نظاموں کی ترقی سے غیر ارادی نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جیسے ملازمتوں کا خاتمہ، اقتصادی بدحالی، اور خودمختار ہتھیاروں کا خطرہ۔
آئیے کچھ مثالوں اور منظرناموں پر نظر ڈالتے ہیں:
1. سپر انٹیلیجنس: مصنوعی سپر انٹیلیجنس (ASI) کی ترقی مشینوں کو انسانی ذہانت سے بہت زیادہ بڑھا سکتی ہے۔ اگر اسے صحیح طور پر قابو نہ کیا گیا یا انسانی اقدار سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو ASI ایسے مقاصد کے ڈگر پر چل سکتی ہے جو انسانیت کے لیے نقصان دہ ہوں یا انسانی بہبود پر اپنی ترجیحات کو فوقیت دے سکتی ہے۔
2. غیر ارادی نتائج: اے آئی نظام، خاص طور پر وہ جو پیچیدہ اور متحرک ماحول میں کام کرتے ہیں، غیر متوقع اور غیر ارادی نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ نتائج اقتصادی بدحالی اور ملازمتوں کے نقصان سے لے کر غیر ارادی جسمانی نقصان یا اہم ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
3. خودمختار ہتھیار: اے آئی ٹیکنالوجی سے لیس خودمختار ہتھیاروں کے نظاموں کی ترقی سے اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ نظام زندگی اور موت کے بارے میں فیصلے انسانی مداخلت کے بغیر کر سکیں۔ اگر ان ہتھیاروں کو غیر ذمہ داری سے یا بدنیتی سے استعمال کیا جائے تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان اور تصادم کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
4. دھوکہ اور کنٹرول: بدنیت افراد اے آئی نظاموں کو استحصال کے لیے استعمال کر سکتے ہیں تاکہ معلومات کو جوڑ توڑ کیا جا سکے، عوامی رائے کو متاثر کیا جا سکے، یا اہم نظاموں پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ اس سے معاشرتی عدم استحکام، اداروں پر اعتماد کا خاتمہ، اور استحصال کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
5. وجودی خطرات: کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید اے آئی ٹیکنالوجی کا حصول انسانیت کے لیے وجودی خطرات کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ یہ نئے ممکنہ ناکامی کے موڈ اور خطرات متعارف کراتا ہے جو ناقابل واپسی نقصان یا حتیٰ کہ انسانی فنا کا سبب بن سکتے ہیں۔
آخری بات
نتیجہ کے طور پر، انسانوں کے ممکنہ خاتمے کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ اور کثیر پرتوں والا ہے جس کی درست پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔
اگرچہ ہماری نسل کی بقا کے لیے بہت سے ممکنہ خطرات ہیں، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، وبائیں، اور ایٹمی جنگ، لیکن ایسے بہت سے عوامل بھی ہیں جو ہمیں فنا سے بچانے میں مدد دے سکتے ہیں، جیسے ٹیکنالوجی میں ترقی، بین الاقوامی تعاون، اور تحفظ کی کوششیں۔
یہ واضح ہے کہ ہم انسان اپنی تقدیر کو تشکیل دینے اور اپنی زمین کے مستقبل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لہٰذا، انسانی فنا کے ممکنہ خطرے کے برابر میں یہ عنصر پیش گوئی کو اور بھی مشکل بنا دیتا ہے۔
یعنی، سائنسدانوں نے مختلف کمپیوٹر ماڈلز استعمال کیے ہیں تاکہ یہ معقول پیش گوئی کی جا سکے کہ انسان کب ختم ہو سکتے ہیں۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ 250 ملین سالوں میں ہوگا؛ تاہم، انہوں نے انسانی ذہانت اور ترقی کے عوامل کو شامل نہیں کیا۔
اس لیے، اس بات کے باوجود کہ زمین ممکنہ طور پر 250 ملین سالوں میں ناقابلِ رہائش سیارہ بن جائے گی، سائنس کو توقع ہے کہ تب تک انسان بین السیاراتی (اور ممکنہ طور پر بین الجہتی) مخلوق ہوں گے، اور ہم کائنات میں جہاں چاہیں، جا سکیں گے۔
اگر انسان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ ایسی مخلوق بن جائے گا جو اپنی فنا کو مزید وقت کے لیے ٹالنے میں کامیابی حاصل کر لے گا، کیونکہ ہمارے پاس ہمیشہ ایسی تکنیکی ترقی ہو گی جو کسی بھی قدرتی یا وجودی خطرے کو ایک حل پذیر مساوات کا عنصر بنا دیں گی۔
ایک بات یقینی ہے – کائنات کا خاتمہ ہوگا جیسا کہ سائنسی پیشین گوئیوں سے واضح ہے۔
اب سے 100 کھرب سال بعد، ستاروں کی تشکیل کا عمل ختم ہو جائے گا، اور کائنات آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر زندگی کے بغیر ایک سرد اور تاریک جگہ بن جائے گی۔
سب سے ترقی یافتہ انسانی تہذیب بھی اس خلا میں زندہ نہیں رہ سکے گی۔
یہ، یقیناً، اس صورت میں ہے جب یہ کائنات واحد ہو۔
حوالہ: کیوریئس میٹرکس