وقت کے مسافر: تین ناقابلِ یقین جاندار، جو طویل عمری کے سربستہ راز ہیں!

امر گل

ذرا تصور کریں: 1800 سے 1900 کے درمیان پیدا ہونے والے تمام انسان اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، مگر قدرت کے چند حیرت انگیز شاہکار آج بھی ہماری دنیا میں موجود ہیں، گویا وقت ان پر کبھی اثرانداز ہی نہیں ہوا۔ آئیے ان تین ’انتہائی زندہ بچنے والے‘ جانداروں کی کہانیوں میں جھانکتے ہیں، جو صدیوں کی کہانیوں کے خاموش گواہ ہیں۔

آج کی دنیا کی سب سے طویل عمر پانے والی شخصیت جاپان کی تومیکو ایتوکا ہیں، جنہوں نے حال ہی میں اپنی 116ویں سالگرہ منائی۔ وہ 1908 میں اوساکا میں پیدا ہوئیں۔ جب دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو وہ پہلے ہی 30 سال کی تھیں، جب ٹوکیو نے پہلی بار اولمپکس کی میزبانی کی تو ان کی عمر 56 سال تھی، اور جب ورلڈ وائیڈ ویب تخلیق ہوا تو وہ 81 برس کی تھیں۔

جب گنیز ورلڈ ریکارڈز نے اس سال کے اوائل میں انہیں دنیا کی سب سے معمر شخصیت قرار دیا تو ایتوکا نے صرف ”شکریہ“ کہہ کر جواب دیا۔

اگرچہ ایتوکا کی طویل عمری متاثر کن لگتی ہے، لیکن یہ کچھ جانداروں کی بقا کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے، کیونکہ جب ہم طویل عمری کی بات کرتے ہیں تو انسانوں کی نسبت کچھ جانور ایسے ہیں جو وقت کی قید سے آزاد نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگیاں اتنی طویل ہیں کہ صدیوں پر محیط کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ یہ جاندار نہ صرف طویل عمر کے مظاہر ہیں بلکہ قدرت کے ارتقائی معجزات کا زندہ ثبوت بھی ہیں۔ ان کی کہانیاں ہمیں زندگی کے پوشیدہ رازوں کی جستجو کے لیے آمادہ کرتی ہیں۔ کیا آپ بھی قدرت کے ان کرشموں کی دلچسپ کہانی جاننا چاہیں گے، جن کی طویل عمری واقعی حیرت انگیز ہے!

 1۔ گرین لینڈ شارک Greenland Shark

سمندری دنیا کی پراسرار گہرائیوں میں، ایک ایسی مخلوق سانس لیتی ہے جو وقت کے جبر سے تقریباً آزاد نظر آتی ہے—گرین لینڈ شارک۔ یہ حیرت انگیز شارک اپنی طویل العمری کے سبب جانوروں کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، اس کی عمر کا تخمینہ 250 سے 500 سال تک لگایا گیا ہے۔ سوچئے، یہ وہی دور تھا جب دنیا کے گرد پہلا بحری سفر مکمل کرنے والا فرڈینینڈ میگیلن سمندروں میں تھا، اور آج بھی یہ قدیم شارک سمندر کی گہرائیوں میں خاموشی سے تیر رہی ہے۔

تاریخ کے صفحات میں جھانکیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی گرین لینڈ شارک 1912 میں ٹائیٹینک کے المناک حادثے کی گواہ ہو۔ لیکن ذکر جب گرین لینڈ شارک کا ہو رہا ہے تو یہ ’ماضی قریب‘ کی بات لگتی ہے۔۔ اس سے بھی پیچھے جائیں تو انیسویں صدی کے وسط میں، جب پہلی ٹرانس اٹلانٹک ٹیلی گراف کیبل سمندر کی تہہ میں بچھائی گئی تھی، یہ قدیم شارک اپنے سرد پانیوں میں اسی طرح تیر رہی ہوگی، جیسے وقت کے بہاؤ کا کوئی اثر ہی نہ ہو۔ یہ امکان اور بھی زیادہ حقیقی لگتا ہے کیونکہ گرین لینڈ شارکس عام طور پر 100 سے 1,200 میٹر کی گہرائی والے سمندری پانیوں کو پسند کرتی ہیں۔

گرین لینڈ شارک کی طویل عمر کے راز قدرت کے حسین معموں میں سے ایک ہیں۔ اس کی افزائش کی رفتار نہایت سست ہے، اور یہ سالانہ صرف 1 سینٹی میٹر بڑھتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، یہ تقریباً 150 سال کی عمر میں جنسی بلوغت تک پہنچتی ہے، گویا وقت کا پہیہ اس کے لیے سست ہو گیا ہو۔ اس کا میٹابولزم بھی نہایت سست ہے، جو توانائی کے ذخائر کو دیرپا بناتا ہے۔

مزید برآں، گرین لینڈ شارکس اپنے ماحول کی اعلیٰ شکاری ہیں، اس لیے انہیں دوسرے جانوروں سے بہت کم خطرہ ہوتا ہے، جو ان کی طویل زندگی میں معاون ہے۔ آخر میں، یہ شارکس کم آکسیجن اور سرد پانیوں میں جینے کے لیے بہترین طور پر ڈھلی ہوئی ہیں، جو ان کی زندگی کو طویل بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ سرد پانی کے درجۂ حرارت سے حیاتیاتی عمل سست پڑ جاتے ہیں، جس سے زندگی کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کم آکسیجن والے ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت ان کے جسمانی دباؤ کو کم کر سکتی ہے، جو عام حالات میں زندگی کو مختصر کر سکتا ہے۔ یوں کم درجۂ حرارت اور محدود آکسیجن والے پانی حیاتیاتی عمل کو سست کر دیتے ہیں، جیسے قدرت نے اسے لمبی زندگی کا خفیہ نسخہ عطا کر دیا ہو۔

شکار کے خطرات سے تقریباً آزاد، گرین لینڈ شارک سمندر کی حکمرانوں میں سے ایک ہے، جو صدیوں کی کہانیاں اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے، وقت کی وسعتوں میں خاموشی سے تیرتی ہے۔ یہ قدرت کی وہ حیرت انگیز تخلیق ہے جسے دیکھ کر زندگی اور وقت کے اسرار کی گہرائیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

 2. بوہیڈ وہیل Bowhead Whale

بوہیڈ وہیل: سمندری زندگی کا طویل سفر

شمالی قطبی سمندر کی برفیلے پانیوں میں تیرتی بوہیڈ وہیل بھی گویا وقت کا ایک جیتا جاگتا عجوبہ ہے، جو دو صدیوں سے زیادہ کی زندگی جینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کوئی محض سائنسی قیاس نہیں بلکہ تاریخ کے جیتے جاگتے شواہد سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ 2000 کی دہائی میں الاسکا کے قریب پکڑی گئی کچھ بوہیڈ وہیلز کے جسموں سے 1800 کی دہائی کے شکار کے نیزے برآمد ہوئے، جو ان کی ناقابلِ یقین عمر کا زندہ ثبوت ہیں۔ ان نیزوں کے زخموں کے ساتھ زندہ رہنا اور شکار کے جدید طریقوں سے بچتے رہنا ان کی بے مثال قوتِ حیات کا ثبوت ہے۔

بوہیڈ وہیلز کی طویل عمر کا راز قدرت کی پیچیدہ جینیاتی کاریگری میں چھپا ہے۔ ان کے خلیوں میں ایسے منفرد جینیاتی خواص موجود ہیں جو انہیں بڑھاپے کے اثرات سے بچاتے ہیں۔ ان کی جسمانی ساخت اور قدرتی ماحول بھی ان کی لمبی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ برفانی سمندر کا شدید سرد پانی ان کے میٹابولزم کو سست کرتا ہے، جس سے جسمانی نظام پر کم دباؤ پڑتا ہے اور توانائی کے ذخائر دیرپا ہو جاتے ہیں۔

یہ حیرت انگیز مخلوق قدرتی ’خلیاتی مرمت کے نظام‘ cellular repair mechanisms سے بھی لیس ہے، جو انہیں زخموں اور جسمانی نقصانات سے جلد صحت یاب ہونے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اپنی جسامت کے باوجود، بوہیڈ وہیلز کی جسمانی توانائی حیران کن حد تک متوازن رہتی ہے، جو انہیں سمندری طوفانوں اور سخت ترین ماحولیاتی حالات میں بھی زندہ رہنے کی طاقت دیتی ہے۔

بوہیڈ وہیل کی دور دراز اور سخت ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت، اور ساتھ ہی ان کی سست عمر رسیدگی کا عمل، انہیں فطرت کی دیرپا زندگی کی ایک شاندار مثال بناتا ہے۔ بوہیڈ وہیل کی کہانی صرف سمندر کی گہرائیوں کی کہانی نہیں بلکہ بقا، مضبوطی، اور وقت کی سختیوں کو جھیلنے کی داستان ہے۔ یہ وہیل قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے جو صدیوں کے راز اپنے ساتھ لیے، برفیلے سمندر میں خاموشی سے تیرتی رہتی ہے، گویا وقت اس کے لیے ٹھہر گیا ہو۔

 3. ٹواٹارا Tuatara

نیوزی لینڈ کے پراسرار جنگلات اور چٹانوں میں، ایک چھوٹی مگر حیرت انگیز مخلوق خاموشی سے زندگی کا طویل سفر طے کرتی ہے، ٹواٹارا۔ بظاہر عام سا یہ رینگنے والا جانور حقیقت میں وقت کا مسافر ہے، جو اپنی طویل عمر اور قدیم نسب کی بدولت حیاتیاتی دنیا کا ایک منفرد راز بن چکا ہے۔ حالیہ تحقیق، جو معروف جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی، کے مطابق ٹواٹارا کی متوقع زندگی 130 سے 140 سال تک ہو سکتی ہے، جو اسے چھوٹے جانداروں میں سب سے طویل عمر پانے والے جانوروں میں شامل کرتی ہے۔ یہ حیرت انگیز اس لیے ہے کہ ٹواٹارا نسبتا چھوٹے جانور ہیں (ان کی لمبائی سر سے دم تک تقریباً 30 انچ تک ہوتی ہے)۔

عام طور پر طویل عمری کو بڑے جانداروں جیسے گرین لینڈ شارک اور بوہیڈ وہیل سے جوڑا جاتا ہے، لیکن ٹواٹارا کا مختصر قد (تقریباً 30 انچ) اور معمولی جسمانی ساخت اس عام تصور کو رد کر دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا جانور اپنی حیات کے صدیوں پر محیط سفر میں اپنے قد سے کہیں زیادہ بڑا ثابت ہوتا ہے۔

یہاں تک کہ ٹریپ ڈور مکڑی، جو اپنی 40 سال کی غیر معمولی عمر کے لیے مشہور ہے، بھی ٹواٹارا کے سامنے وقت کی بازی ہار جاتی ہے۔ مزید حیرت یہ ہے کہ عام سرد خون والے جاندار، جیسے کچھوے (40 سال)، مگرمچھ (20 سال)، سانپ اور چھپکلیاں (12 سال)، سالامینڈر (10 سال) اور مینڈک (8 سال)، ٹواٹارا کی عمر کے مقابلے میں جیسے وقت کے بچے محسوس ہوتے ہیں۔

ٹواٹارا کی طویل زندگی کی کئی وجوہات ہیں:

● سست میٹابولزم:
ٹواٹارا کا میٹابولزم سست ہوتا ہے، جو طویل عمر رکھنے والی بہت سی اقسام میں عام بات ہے۔ یہ سست میٹابولزم جسم پر دباؤ کو کم کرتا ہے، جس سے وہ آہستہ آہستہ بوڑھے ہوتے ہیں۔ یہ خصوصیت اسے توانائی بچانے اور مشکل ماحول میں زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے۔

● سست نشوونما:
ٹواٹارا کی بڑھوتری بھی نہایت سست ہے، اور اسے بالغ ہونے میں کئی سال لگتے ہیں۔ یہ سست نشوونما میٹابولک دباؤ کو کم رکھتی ہے، جو زندگی کو طویل تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

● شکار کا کم خطرہ:
ٹواٹارا الگ تھلگ علاقوں میں رہتے ہیں جہاں شکاریوں کی تعداد کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی کے دوران خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ شکاریوں سے بچنے کے مستقل دباؤ کے بغیر، وہ طویل اور مستحکم زندگی گزار سکتے ہیں۔

منفرد ارتقائی خصوصیات: ٹواٹارا ارتقائی تاریخ کا ایک زندہ ورثہ ہے، جو کروڑوں سال پہلے کے ڈائنوسار کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈائنوسار کے دور سے تعلق رکھنے والی یہ قدیم قسم وقت کے ساتھ منفرد حیاتیاتی خصوصیات پیدا کر چکی ہے جو انہیں مخصوص ماحول میں طویل مدت تک زندہ رہنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان خصوصیات میں خاص میٹابولک موافقت اور سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت شامل ہو سکتی ہے۔

ٹواٹارا کوئی عام رینگنے والا جانور نہیں، بلکہ قدرت کا ایک حیرت انگیز معجزہ ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ وقت کے خلاف ایک خاموش جدوجہد ہے، جو انسانی تاریخ سے بھی پہلے شروع ہوئی تھی اور آج بھی جاری ہے۔ اپنے وجود میں لاکھوں سالوں کی کہانیوں کو چھپائے، یہ چھوٹا سا مسافر زندگی کے اسراروں کی ایک زندہ علامت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close