1800ء کی دہائی تک تیر اور کمان کی ٹیکنالوجی خاصی ترقی یافتہ ہو چکی تھی۔ اس دور کے مضبوط ترین ری-کروو کمان 400 گز سے زیادہ فاصلے تک تیر پھینکنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ایک فٹبال کے میدان سے زیادہ فاصلے پر موجود زرہ بکتر کو چھید سکتے تھے۔
تاہم، یہ وضاحت اس بات کی گتھی سلجھانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ کس طرح ایک سنٹرل افریقی تیر 1822ء میں شمالی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کلُٹز میں پہنچا۔ اس معمہ کو سمجھنے کے لیے ہمیں آسمان کے ایک اور ماہر، سفید بگلے یا سارس (White Stork) کی طرف دیکھنا ہوگا۔ جی ہاں، یہ گتھی ’فیلشٹورچ‘ Pfeilstorch کی کہانی سے ہی سلجھے گی!
1822 میں، ایک سفید بگلا (White Stork) پرندہ موسم بہار میں شمالی جرمنی کی ریاست میکلینبرگ-فورپومرن کے قصبے کلُٹز کے قریب اترا، یہ بگلا ایک غیر معمولی سائنسی تحفہ لے کر آیا تھا۔ اس کی گردن میں 30 انچ لمبا تیر پیوست تھا۔ یہ تیر افریقی لکڑی کا بنا ہوا پایا گیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ سارس براعظموں کے درمیان سفر کر چکا تھا۔ جرمن لوگوں نے اس انوکھے پرندے کو ’فیلشٹورچ‘ یعنی
’تیر والا سارس‘ کا نام دیا۔
اس کی گردن میں لگا تیر تین ہزار میل سے زیادہ کے ہجرتی سفر کے دوران اپنی جگہ پر پیوست رہا، لیکن خوش قسمتی سے بگلے کی جلد سے گزر کر صرف سطحی نقصان پہنچانے کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی۔
انیسویں صدی میں یورپی پرندہ شناسوں اور ماہرین حیوانات کو اس عجیب و غریب مظہر نے حیران کر دیا۔ یہ واقعہ سائنسی تحقیق کے لیے اس لیے ایک ’تحفہ‘ ثابت ہوا کیونکہ کچھ پرندوں کی اقسام ہر سال غائب ہو جاتیں اور پھر دوبارہ ظاہر ہو جاتیں۔ اس وقت لوگوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ یہ پرندے کہاں چلے جاتے ہیں یا طویل فاصلے کیسے طے کرتے ہیں، اس لیے وہ اپنی ہی قیاس آرائیاں کرتے۔
ایک مشہور نظریہ یہ تھا کہ پرندے تالاب یا دریا کی تہہ میں سردیوں کی نیند (hibernation) لیتے ہیں، جیسا کہ آبی مینڈک اور کچھوے کرتے ہیں۔ اس دعوے کی حمایت مچھیروں نے کی، جنہوں نے کہا کہ وہ اپنے جالوں میں پرندے پھنستے دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کے زمانوں میں، ارسطو جیسے سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ پرندے اپنی اقسام تبدیل کر لیتے ہیں، جیسے کیڑے تتلیوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ کچھ نظریے تو اور بھی عجیب تھے، جیسے 1703 میں ایک ہارورڈ پروفیسر نے یہ تجویز دی کہ پرندے چاند پر پرواز کرتے ہیں!
یوں اس وقت تک یہ بحث جاری تھی کہ پرندے سردیوں میں کس طرح زندہ رہتے ہیں۔
1797ء میں، ایک انگریز آرٹسٹ اور قدرتی/فطرتی تاریخ کے مصنف، تھامس بیوک، نے اپنی کتاب ’برٹش برڈز کی تاریخ‘ میں اس سوال کا درست جواب دینے کا اشارہ دیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ ایک جہاز کے کپتان، جن کی رائے کو وہ بہت اہم سمجھتے تھے، نے مینارکا اور میجورکا جزیروں کے درمیان بہت بڑی تعداد میں شمال کی طرف اڑتے ہوئے ابابیلوں کو دیکھا۔
یہ نظریہ اُس وقت کی اس مشہور لیکن غلط رائے کے خلاف تھا، جس کے مطابق ابابیل سردیوں کے مہینوں میں ’سردیوں کی نیند‘ لیتے تھے۔
بیوک نے خود بھی ابابیلوں پر تجربات کیے، انہیں سردیوں کے مہینوں میں گرم اور خوراک کی فراہمی کے باوجود زندہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن یہ نتیجہ اخذ کیا کہ، ”یہ پرندے ہمیں اس وقت چھوڑ دیتے ہیں جب یہ ملک انہیں ان کی قدرتی غذا فراہم کرنے کے قابل نہیں رہتا۔“
بیوک کو صرف ’سردیوں کی نیند‘ کے نظریے کا سامنا نہیں تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ 1703ء میں، ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے یہ عجیب نظریہ پیش کیا تھا کہ ہجرت کرنے والے پرندے چاند تک پرواز کرتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ دیگر لوگوں کا ماننا تھا کہ پرندے پانی کے نیچے سردیوں کی نیند لیتے ہیں یا بعض اوقات دوسرے پرندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ تمام نظریات جرمنی میں ’فیلشٹورچ‘ یعنی تیر لگے بگلے کی آمد کے بعد دم توڑ گئے۔ افریقی تیر کی صرف ایک منطقی وضاحت ہو سکتی تھی: شمال کی طرف ہجرت۔
فیلشٹورچ ہجرت کا پہلا ٹھوس ثبوت تھا، یعنی پرندوں کا اپنی افزائش اور غیر افزائش کے علاقوں کے درمیان سالانہ، وسیع پیمانے پر نقل مکانی۔ ہجرت خلائی سفر یا شکل بدلنے جتنی خیالی تو نہیں، لیکن یہ کم متاثر کن بھی نہیں۔ اب تک ریکارڈ کیے گئے 25 فیلشٹورچ پرندوں نے 2,000 میل کا فاصلہ طے کیا، نیزہ کھایا، اور پھر 2,000 میل واپس سفر کیا۔ ان کا 4,000 میل کا سفر آرکٹک ٹرن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، جو قطبین کے درمیان تقریباً 60,000 میل کا سفر کرتا ہے۔
’فیلشٹورچ‘ وہ پہلا ہجرتی پرندہ تھا جو یورپ میں تیر کے ساتھ پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے بعد ایسے 24 مزید پرندے ریکارڈ کیے گئے، جو افریقی تیروں کے ساتھ یورپ ہجرت کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں سرگرم، پرندوں کے جرمن ماہر ایرنسٹ شُوئز نے کئی ایسے واقعات کا ریکارڈ رکھا جن میں پرندے اپنی جلد میں پیوست تیروں کے ساتھ پائے گئے۔ ان میں ایک سفید پیٹ والا بگلا جو ’تانگانیکا‘ میں ملا، ہنگری میں ایک شارٹ ٹوڈ ایگل، فن لینڈ میں ایک ہنی بزرد، اور ایک کالا گدھ شامل تھے۔ انہوں نے ان پرندوں میں انیوت (Inuit) کے تیر سے زخمی ہنسوں اور ایڈرز (eiders) کا بھی ذکر کیا۔
بعد میں، شُوئز نے مشاہدہ کیا کہ ایسے واقعات کم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ تیر اور کمان کے بجائے بندوقوں کے استعمال کا رجحان عام ہو گیا تھا۔
سفید بگلا (Ciconia ciconia) ایک ہجرتی پرندہ ہے جو افزائش اور سردیوں کے مسکن کے درمیان طویل فاصلے طے کرنے کے لیے مشہور ہے۔ یہ پرندے بنیادی طور پر یورپ، شمالی افریقہ، اور ایشیا کے کچھ حصوں میں افزائش کرتے ہیں اور وسیع کھلی جگہوں جیسے دلدلی علاقوں، چراگاہوں، اور زرعی میدانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہجرت کے دوران، یہ دو اہم راستے اختیار کرتے ہیں:
مشرقی راستہ: یہ انہیں بلقان، ترکی، اور مشرق وسطیٰ کے راستے مشرقی افریقہ کے سردیوں کے مسکن تک لے جاتا ہے۔
مغربی راستہ: یہ انہیں آئبیرین جزیرہ نما (Iberian Peninsula) کے راستے مغربی افریقہ تک پہنچاتا ہے۔
سفید بگلے بڑے پانی کے ذخائر عبور کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ توانائی بچانے کے لیے گرم ہوا کے کرنٹ (تھرملز) پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ رجحان انہیں ترکی کے باسفورس اور جبرالٹر کی آبنائے جیسے زمینی راستوں کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ پرندے اپنی خزاں کی ہجرت اگست سے اکتوبر کے درمیان افزائشی مقامات سے شروع کرتے ہیں اور سب-صحارا افریقہ کے سردیوں کے مسکن تک پہنچنے کے لیے 13,000 کلومیٹر تک کا سفر طے کرتے ہیں۔ بہار کی ہجرت جنوری سے مارچ کے درمیان شروع ہوتی ہے، اور مئی تک یہ پرندے اپنے افزائشی مقامات پر واپس پہنچ جاتے ہیں۔
اگرچہ زیادہ تر بگلے ان روایتی راستوں پر عمل کرتے ہیں، مغربی یورپ کے کچھ بگلے ہلکی سردیوں اور وافر خوراک کی دستیابی کی وجہ سے اپنی ہجرت روک کر افزائشی مقامات کے قریب ہی سردیاں گزارنے لگے ہیں۔ اپنی اس موافقت کے باوجود، ہجرتی بگلوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے مسکن کی کمی، شکار، اور موسمیاتی تبدیلی۔
عام سوئفٹ کی ہجرت نسبتاً کم ہوتی ہے، جو اس کے افزائشی علاقوں (اسکینڈینیویا) سے اس کی خوراک کے علاقوں (سب-صحارا افریقہ) تک ہوتی ہے۔ تاہم، جدید ہلکے وزن کے ایکسلرومیٹرز کی ایجاد کی بدولت، جو عام طور پر اسمارٹ فونز میں استعمال ہوتے ہیں، محققین نے ثابت کیا ہے کہ عام سوئفٹ کسی بھی پرندے کی سب سے طویل غیر منقطع پرواز کرتا ہے۔ یہ پرندے ہوا میں کھاتے، پیتے، افزائش کرتے، اور حتیٰ کہ سوتے ہیں، اور ان میں سے کچھ کبھی بھی اس افریقی زمین پر قدم نہیں رکھتے جہاں وہ ہر سال واپس آتے ہیں۔ جب وہ اسکینڈینیویا میں واپس آتے ہیں، تو وہ مسلسل 10 مہینے ہوا میں رہ چکے ہوتے ہیں۔
اگرچہ ہمیں ہجرت کا ثبوت تقریباً 200 سال سے مل چکا ہے، لیکن کئی لحاظ سے یہ اب بھی ہمیں حیران کرتی ہے۔ ہمیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ ہجرت کے آغاز کو کون سا محرک چلاتا ہے، پرندے سمندروں کے پار کیسے راستہ ڈھونڈتے ہیں، یا وہ یہ لمبے اور مشکل سفر کرنے کا انتخاب کیوں کرتے ہیں۔ ان تمام نامعلوم باتوں کے باوجود، ایک بات یقینی ہے: تکنیکی جدتیں جیسے ایکسلرومیٹرز اور فیلشٹورچ جیسے واقعات، فطرت کی اس حیرت انگیز پہیلی پر روشنی ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔