اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کے کنوینشن کی سیکرٹری الزبتھ کا کہنا ہے کہ دنیا میں بگڑتے ہوئے حیاتیاتی توازن اور قدرتی ماحول کا بچاؤ فوری اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ اب ہم مزید دیر کے متحمل نہیں ہو سکتے، پہلے ہی قدرتی ماحول کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماحولیات کو درپیش خطرات کے حوالت سے انسان اپنی تاریخ کے سب سے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا یے کہ 1992ع میں ہونے والے حیاتیاتی تنوع کے کنونشن پر عمل درآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس معاہدے کے تین بڑے مقاصد ہیں، جن میں حیاتیاتی اقسام کا تحفظ، قدرتی وسائل کا ایک قابل عمل استعمال اور جینیاتی سائنس سے دنیا میں حاصل ہونے والے فوائد کی منصفانہ تقسیم شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدے دار کا کہنا ہے کہ دنیا ان تمام اہداف کے حصول میں سو میں سے 30 فی صد سے بھی کم کامیاب ہوئی ہے، جو ناکامی کے دائرے میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کارخانوں سے بڑے پیمانے پر کاربن گیسوں کا مسلسل اخراج کرہ ارض کا قدرتی توازن بگاڑنے کا ایک اہم سبب بن رہا ہے. عملی سطح پر ان اہداف میں اہم ترین مقاصد، حیاتیاتی اقسام کا بچاؤ، ماحولیاتی آلودگی کو مزید بگڑنے سے روکنا اور جنگلات کے رقبے میں کمی کی روک تھام ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس سال ہونے والی عالمی کانفرنس میں اس پہلو پر غور کیا جائے گا کہ ان اہداف کے حصول کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو کیسے استعمال کیا جائے اور اقوام کو اس قابل بنایا جائے کہ وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنا سکیں۔
اس موقع پر اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کی رہنما انگر اینڈرسن نے کہا کہ قدرتی دنیا کے بچاؤ میں جوان نسل کی شمولیت لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کی آرا بھی بہت اہم ہیں، کیونکہ وہ قدرتی ماحول کے تحفظ میں دفاع کے ہراول دستے میں شامل ہیں اور انہیں ان مسائل کا بخوبی علم بھی ہے۔
انگر اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ایک حالیہ اجلاس میں زراعت کے شعبے کی بہتری کو موضوع بنایا گیا اور اس بارے میں غور و خوض کیا گیا کہ کسانوں کو حیاتیاتی اقسام کے بچاؤ کی جانب کس طرح راغب کیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ وقت عمل کا ہے، کیونکہ آج کیے گئے وعدے اور اقدامات ہی ہمارے مستقبل کی ضمانت بنیں گے