افغانستان میں بارہ سال تک برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے والے جنرل سر رچرڈ بیرنز کا کہنا ہے کہ یا تو ہم بحیثیت قوم دوغلے ہیں یا پھر نا اہل!
برطانوی جنرل سر رچرڈ بیرنز نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے، جب ان افغان اسپیشل فورسز کو جنہیں برطانیہ نے تربیت اور مالی معاونت فراہم کی تھی اور اور جنہوں نےافغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا تھا، پاکستان سے نکالے جانے کے امکانات کا سامنا ہے
رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد یہ افغان فوجی اور ان کے خاندان افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان چلے گئے تھے، اور افغان اسپیشل فورسز کے ان ارکان کو طالبان کے زیر کنٹرول اپنے وطن واپس بھیجنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اسپیشل فورسز کے ان فوجیوں کی برطانیہ نے تربیت کی تھی اور ان کی مالی اعانت بھی اسی کے ذمے تھی
طالبان کے حکومت میں واپس آنے کے بعد یہ فوجی پاکستان بھاگ گئے تھے، لیکن اب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی افغان کو ملک بدر کرنے کے لیے تیار ہے، جن کے پاس رہائش کے لیے مناسب کاغذات نہیں ہیں، جبکہ برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہزاروں افغانوں کو تحفظ فراہم کیا ہے
جنرل سر رچرڈ بیرنز نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز نائٹ سے اپنی گفتگو میں کہا ”افغانستان میں برطانیہ کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو وہاں سے منتقل کرنے میں ناکامی بے عزتی ہے“
ان کا مزید کہنا تھا ”یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بحیثیت قوم یا تو ہم دوغلے ہیں یا نااہل۔ اور دونوں ہی باتیں قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ دھوکہ ہے۔ اور اس دھوکہ دہی کی قیمت وہ لوگ بھگتیں گے، جنہوں نے ہمارے ساتھ ’خدمات‘ انجام دیں۔ یا تو وہ مر جائیں گے یا اپنی ساری زندگی جیل میں گزاریں گے“
ان کے علاوہ، اس وقت پاکستان میں مقیم ان بتیس سابق افغان سیاستدانوں کے لیے بھی، جنہوں نے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کام کیا ہے، مناسب کاغذی کارروائی نہیں ہوئی ہے، جس سے وہ بیرون ملک سفر کرنے کے اہل ہو سکیں
فوجیوں اور سیاستدانوں، دونوں گروپوں کے زیادہ تر ارکان نے افغانوں کی نقل مکانی اور امدادی پروگرام کے ذریعے برطانیہ منتقل ہونے کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کر لی ہے، تاہم رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگوں کو مسترد کر دیا گیا ہے، جب کہ دیگر ایک سال سے زیادہ عرصے بعد بھی اپنا اسٹیٹس جاننے کے منتظر ہیں
یاد رہے کہ سنہ 2021 میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ان افغان اسپیشل فورسز کی ’خدمات‘ ناقابل یقین حد تک اہم رہی ہیں۔ برطانیہ ان کے لیے جہاں تک ممکن ہوگا، محفوظ راستہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا
ان افغان کمانڈوز کے متعلق خدشات اس وقت سامنے آئے جب یہ بات کھلی کہ برطانوی حکومت نے اعلیٰ برطانوی سفارتی اور فوجی شخصیات کی جانب سے اہم افغان سویلین رہنماؤں کو پناہ دینے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہے، جن کی جانوں کو خطرہ تھا
مارچ سنہ 2022 میں برطانیہ کے دفتر خارجہ کو بھیجے جانے والے ایک نجی خط میں بتیس سابق گورنروں، پراسیکیوٹرز اور اہلکاروں کے ایک گروپ کو فوری مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان افغان حکام نے سنہ 2006 اور 2014 کے درمیان صوبہ ہلمند میں برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کام کیا تھا
اسپیشل فورسز کے دو سو فوجیوں میں سے زیادہ تر کی طرح ان بتیس اہلکاروں نے افغان ریلوکیشنز اینڈ اسسٹینس پروگرام (اے آر اے پی) کے ذریعے برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو برطانیہ کی حکومت کے ملازم تھے، یا جنھوں نے برطانیہ کے سرکاری محکمے کے ساتھ افغانستان میں کام کیا تھا، ان کے ساتھ تعاون کیا تھا یا پھر بہت قریب سے ان کی حمایت کی تھی
بہت سے اہلکاروں اور فوجیوں کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا، جبکہ دیگر کئی ایسے ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی فیصلے کے منتظر ہیں
برطانیہ کی حمایت کرنے والے عہدیداروں میں سے ایک سابق ضلعی گورنر نے بتایا کہ پہلی درخواست کے بیس ماہ بعد ان کی درخواست دو ہفتے قبل مسترد کر دی گئی
نجی خط پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک سر رچرڈ نے کہا، ”ہم نے ان لوگوں کے ساتھ ایک خاص وعدہ کیا تھا لیکن ہم اس کا تسلی بخش طور پر یا موثر طریقے سے پاس نہ رکھ سکے۔ یہاں تک کہ ہم نے ہمدردانہ طور سے بھی اسے نہیں دیکھا“
اس صورتحال سے افغانستان میں برطانیہ اور اتحادی افواج کے ساتھ مل کر ’کام‘ کرنے والے افغان سیاستدانوں اور فوجیوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے
پاکستان سے بے دخلی کا سامنا کرنے والے افغان اسپیشل فورسز کے سپاہیوں میں سے ایک ’علی‘ کا کہنا ہے کہ وہ ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ برطانیہ کی طرف سے انہیں لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے
علی نے برطانیہ کی فوج کے ساتھ اپنے کام کے بارے میں بتایا، ”ہم دن رات ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ تربیت کے دوران ہم ایک ہی خیمے کے نیچے سوتے تھے اور ایک جیسا ہی کھانا کھاتے تھے۔ کارروائیوں کے دوران ہم ایک خاندان کے افراد کے طور پر برٹش کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑے“
اگست سنہ2021 میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے ملک سے فرار ہو رہے تھے تو علی اور ان کے ساتھ ان لوگوں کی حفاظت کے لیے دارالحکومت کابل کے بیرن ہوٹل پر تعینات تھے، لیکن وہ خود انخلاء کی پرواز میں سوار ہونے سے قاصر رہے اور بالآخر زمینی راستے سے پاکستان بھاگ گئے۔ علی کو لگتا تھا کہ ان کی تقریباً دو دہائیوں تک اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف انگریزوں کے شانہ بہ شانہ لڑنے کے انعام کے طور پر انہیں برطانیہ میں بسایا جائے گا، لیکن وہ غلط تھے
علی کو برطانوی وزارت دفاع کے زیر انتظام ادارے اے آر اے پی نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ برطانیہ میں براہ راست ملازم یا برطانیہ کے سرکاری محکمے کے ساتھ کام کرنے والے فرد کے طور پر اہل نہیں ہے
اب جبکہ پاکستانی حکام ایسے افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جن کے پاس وہاں رہنے کے کاغذات نہیں ہیں۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انھوں نے کسی کو بغیر درست دستاویزات کے پکڑ لیا تو وہ انھیں ملک بدر کر دیں گے۔ ایسی صورت حال میں علی نے کہا: ‘میں کام بھی نہیں کر سکتا۔ میں پولیس کے خوف سے اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ اس ایک کمرے میں رہتا ہوں۔ خود کو تین ماہ سے گھر میں بند کر رکھا ہے۔’
صرف افغان اسپیشل فورسز کے سابق ارکان کو یونہی بے یارو مددگار چھوڑ دیے جانے کی شکایت نہیں ہے بلکہ ایسے افغان شہری بھی ہیں جنہوں نے برطانیہ کی مدد کی
محمد فہیم ہلمند کے گرمسیر ضلع کے گورنر کی حیثیت سے طالبان کے خلاف لڑائی میں افغان کے سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ایک خفیہ مقام سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جب میں گورنر تھا تو ہم نے متعدد طالبان رہنماؤں کو گرفتار کیا۔ وہ جانتے تھے کہ ہم بین الاقوامی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں، اس لیے میرے لیے خطرہ حقیقی ہے“
فہیم نے کہا کہ ان کا یہ خیال تھا برطانوی افواج کے ساتھ قریبی شراکت داری کی وجہ سے انہیں پناہ گاہ دی جائے گی، لیکن اے آر اے پی اسکیم نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا
فہیم کہتے ہیں، ”مجھے دھوکہ دیا گیا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے اس طرح اکیلا چھوڑ دیا جائے گا“
جنرل سر رچرڈ بیرنز نے کہا، ”میں ذاتی طور پر شرمندہ ہوں کیونکہ میں بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ہم نے ان سے ایک وعدہ کیا تھا اور ہم نے اسے پورا نہیں کیا۔“