اینٹی بائیوٹکس ادویات کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے بیکٹیریا خود کو اینٹی بائیوٹکس کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ یہ ان ادویات کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہ ادویات بیکٹیریا پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔
لوگوں کی اکثریت موسم کی تبدیلی اور خشک سردی میں نزلہ زکام، کھانسی اور گلے کی خراش جیسی معمولی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے میں وہ فوری ریلیف کے لیے اینٹی بائیوٹکس اور اینٹی وائرس کا استعمال کرتے ہیں، جو صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے
دورِ حاضر میں دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کو اس حوالے سے باقاعدہ آگاہی کا ہفتہ منانا پڑتا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں اینٹی بائیوٹکس کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے Country data on AMR in Pakistan in the context of community کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ”پاکستان کم ترقی یافتہ ممالک میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں تیسرے نمبر پر ہے۔“
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نزلہ زکام اور بخار میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال درست ہے؟ اس بارے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے وابستہ ڈاکٹر ناصرہ احتشام کا کہنا ہے ”موسمی بیماریاں عام طور پر وائرل ہوتی ہیں، جنہیں خالص طبی اصطلاح میں بیماری کہنا درست نہیں۔ ہم اسے وائرل بخار کہہ سکتے ہیں۔ نزلہ، زکام، کھانسی یا سردی محسوس ہونا اس میں شامل ہے۔ یہ تین سے پانچ دن میں خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کو وائرل بخار کا زیادہ مسئلہ ہو تو وہ ڈاکٹر کے مشورے سے ویکسین لگوا سکتا ہے۔“
ڈاکٹر ناصرہ کہتی ہیں، ”اینٹی بائیوٹکس وہ ادویات ہیں، جو بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ وائرل بخار کا بیکٹیریا سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے میں موسمی بخار کے دوران اینٹی بائیوٹکس لینا بیوقوفی اور اپنے ہاتھوں اپنی صحت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ وائرل میں جب بیکٹیریا ذمہ دار ہی نہیں، تب ہم اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے صرف ایک کام کر رہے ہوتے ہیں، اپنا مدافعتی نظام کمزور کرنا۔۔ جس کا نقصان ناقابلِ تلافی ہے، جبکہ فائدہ ایک بھی نہیں۔“
اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال کے خطرناک ہونے کے حوالے سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد سے وابستہ محقق حمزہ حسن کا کہنا ہے ”ہمارے جسم کا دفاعی نظام ایک نیٹ ورک کی صورت میں کام کرتا ہے، جس میں بیماریوں سے لڑنے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ جیسے ہی بیکٹیریا جسم میں داخل ہو، مدافعتی نظام اس کے خلاف متحرک ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات کمزور مدافعتی نظام کو مدد فراہم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، جس کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ صرف انتہائی ضرورت کے وقت ہونا چاہیے۔“
وہ کہتے ہیں، ”بیکٹیریا آہستہ آہستہ اینٹی بائیوٹکس کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے، وہ خود کو اس کا عادی بنا لیتا ہے، جس کے بعد ایک ایسا وقت آتا ہے، جب یہ ادویات بیکٹیریا پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ ایسے بیکٹریا کو ’ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا‘ کہتے ہیں۔“
ڈاکٹر ناصرہ کہتی ہیں، ”ہمارے جسم میں موجود بیکٹیریا خود کو بدلتا رہتا ہے، وہ زندہ رہنے کے نئے طریقے دریافت کرتا ہے۔ جب ہم غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس لیتے ہیں تو بیکٹیریا خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتا اور اس کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتا ہے۔ آئندہ کسی دوسری بیماری میں آپ اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں تو وہ اثر ہی نہیں کرتی کیونکہ بیکٹیریا میں ان کے خلاف لڑنے کی طاقت پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی چیز خطرناک بیکٹیریا کو ہمارے جسم میں تادیر زندہ رکھتی ہے اور بالآخر موت کی طرف لے جاتی ہے۔“
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہونے والی 25 فیصد اموات کی وجہ اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضرروی استعمال ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی مذکورہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ”پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں 2019 کے دوران ’اینٹی بیکٹیریا مزاحمت‘ کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔”
اس تحقیق کے مطابق ”سال 2000 سے 2015 کے دوران پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ سالانہ نو فیصد اینٹی بائیوٹکس کی فروخت ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہوتی ہے۔“
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے سربراہ ڈاکٹر محمد سلمان کے مطابق ”پاکستان میں 70 فیصد سے زائد اینٹی بائیوٹک ادویات اس وقت استعمال کی جا رہی ہوتی ہیں، جب ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔“
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر غفور کہتے ہیں، ”لوگوں میں صحت کے حوالے سے آگاہی نہیں جبکہ ڈاکٹر بے رحم ہیں۔ ان کے لیے طبی شعبہ ایک کاروبار سے زیادہ کچھ نہیں۔ ڈاکٹر حکمت عملی کے تحت ایسی ادویات دیتے ہیں، جن سے مریضوں کو فوری ریلیف ملے۔ اس سے مریض ان کے مستقل گاہک بنتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ کہ بچوں کے ڈاکٹر بھی یہی کر رہے ہیں۔“
ڈاکٹر ناصرہ کے بقول، ”دوا انتہائی صورت میں استعمال کی جاتی ہے لیکن یہاں ذرا سا کچھ ہوا نہیں اور ڈاکٹر نے تھیلا بھر کر دے دیا۔ پھر یہاں ہر شخص خود ڈاکٹر ہے، وہ میڈیکل اسٹور سے طلب کرتا ہے اور بغیر نسخے اسے ہیوی ڈوز تھما دی جاتی ہے۔“
ان کی بات کی تائید مختلف تحقیقات اور روزمرہ کے مشاہدے سے ہوتی ہے۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق: 96.9 فیصد فارمیسیاں نسخے کے بغیر لوگوں کے طلب کرنے پر اینٹی بائیوٹکس پکڑا دیتی ہیں۔ جبکہ 78 فیصد مواقع پر ڈاکٹر اس وقت اینٹی بائیوٹکس تجویز کرتے ہیں جب بیماریاں معمولی ہوتی ہیں
پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کے حوالے سے قوانین کی بات کی جائے تو ڈاکٹر کی تحریری ہدایات کے بغیر اینٹی بائیوٹکس کا استعمال جرم ہے مگر میڈیکل اسٹور اس کا خیال نہیں کرتے۔
اینٹی بائیوٹکس کو کنٹرول کرنے کے عالمی ادارہ صحت کے پروگرام کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 2021 میں ایک گائیڈ لائن بھی جاری کی، جس میں اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال اور فروخت کو کم کرنے کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ اس کے مطابق ”مریضوں کے لیے جتنا ممکن ہو سکے، غیر ضروری اینٹی بائیوٹکس تجویز نہ کی جائیں۔“
ڈاکٹر غفور کہتے ہیں، ”فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنی دوا بیچنے کے لیے ڈاکٹرز کو پیکج آفر کرتی ہیں۔ ان کا منافع طے کیا جاتا ہے اور یہ اوسط کی شکل میں ہوتا ہے یعنی جتنی زیادہ ادویات کوئی بیچے گا، اسے اتنا زیادہ منافع حاصل ہو گا۔“
آغا خان یونیورسٹی اور لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی حال میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ”90 فیصد پرائیویٹ ڈاکٹر ہفتہ وار بنیادوں پر فارماسیوٹیکل سیلز کے نمائندوں سے ملتے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد ڈاکٹروں نے مراعات قبول کرنے اور مریضوں کو دوائیں تجویز کرنے کی حامی بھری، ڈاکٹر مالی دباؤ اور ملک میں قوانین کو توڑنے پر ناکافی مواخذے کے سبب ایسی ڈیل پر راضی ہوتے ہیں۔“