شعلے فلم کے ’رحیم چاچا‘ جنہوں نے کراچی میں درزیوں کی ہڑتال کروائی

ریاض سہیل

ایک صبح جب اوتار کرشن ایلفنسٹن اسٹریٹ پر واقع ٹیلرنگ ورکشاپ پر صبح پہنچے تو وہاں کے مالک نے انہیں ایک لفافہ تھما دیا، جس میں تحریر تھا کہ ہمیں آپ کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔۔ ان سمیت دیگر ملازمین کو بھی ایسے ہی لفافے دیے گئے تھے۔

یہ خبر پورے کراچی میں پھیل گئی، شہر میں ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ تمام ملازمین نے احتجاج کیا اور دوسرے روز شہر بھر کے درزیوں نے ہڑتال کر دی۔

کراچی میں سنہ 1946 میں یہ درزیوں کی پہلی ہڑتال تھی، اس کی قیادت درزی یونین کے سربراہ اے کے ہنگل کر رہے تھے، جو بعد میں بالی وڈ کے مشہور اداکار بنے اور شعلے فلم میں انہوں نے رحیم چاچا کا کردار ادا کیا، جس میں ان کا ڈائیلاگ ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘ مشہور ہوا۔

اوتار کرشن ہنگل المعروف اے کے ہنگل کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی، جہاں ان کا ننھیالی گھر تھا، وہ اپنی آتم کتھا (سوانح حیات) میں لکھتے ہیں کہ ان کے ’ماموں کھدر پوش قوم پرست تھے۔‘

ان کے پڑوس میں ایک پرائمری اسکول تھا، جس کو آریا سماج وادی قوم پرست چلاتے تھے اور ان کے ماموں بھی انہی سے تعلق رکھتے تھے۔

اے کے ہنگل کی والدہ ان کے بچپن میں ہی وفات پا گئی تھیں اور یوں ان کی پرورش بڑی بہن نے کی۔

ان کا تعلق کشمیری پنڈت گھرانے سے تھا۔ ان کے بزرگوں نے پہلے سری نگر سے لکھنو ہجرت کی اس کے بعد ان کے دادا پنڈت دیا کشن پشاور آ گئے۔

اے کے ہنگل کے مطابق ان کے دادا پشاور کے پہلے مجسٹریٹ تھے جبکہ ان کے دادا کے کزن جسٹس شنبھو ناتھ پنڈت بنگال ہائی کورٹ کے پہلے انڈین جج رہے۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ انہوں نے ہی وائسرائے کو خط لکھ کر دادا کی سفارش کی تھی، جس کے بعد انہیں سرکاری ملازمت ملی۔

اپنے وقت کے پشاور شہر کو یاد کرتے ہوئے اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ ’پشاور فصیلوں والا شہر تھا اور شہری آبادی کو برطانوی چھاؤنی الگ کرتی تھی۔ یہ شہر رات کو بند کردیا جاتا تھا، یہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی اس کے علاوہ ہندو آبادی بھی تھی۔ ان کا گھر ریتی گیٹ کے سامنے ہوا کرتا تھا، یہ ایک دو منزلہ عمارت تھی اور وہ کرائے پر رہتے تھے۔‘

مذہبی ہم آہنگی اے کے ہنگل کو ابتدائی تعلیم کے دوران ہی مل چکی تھی، بقول ان کے وہ خالصہ ہائی اسکول میں پڑھتے تھے جو قلعہ بالا حصار کے سامنے تھا، یہاں انہوں نے سکھ مذہب کے بھی کچھ عقائد سیکھے اور اس سے قبل پرائمری اسکول میں اسلامی تعلیمات سیکھی تھیں، جبکہ گھر میں ہندو دھرم کی رسومات پر عمل کیا جاتا تھا۔

اے کے ہنگل جب شعور کی منزلیں طے کر رہے تھے اس وقت خیبر پختونخوا میں خان غفار خان عرف باچا خان کی ’خدائی خدمت تحریک‘ متحرک تھی، جو گاندھی کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ انقلابی باغی لیڈر بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی گرفتار ہو چکے تھے۔

ان دونوں شخصیات کی جدوجہد نے اے کے ہنگل کی شخصیت کو بچپن میں متاثر کیا اور وہ تحریکِ آزادی سے منسلک ہو گئے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ایک دن اسکول کے باہر سے کسانوں کا جلوس گزرتے دیکھا۔ مظاہرین نے سرخ قمیضیں پہن رکھی تھیں اور ایک طویل قد پٹھان ان کی قیادت کر رہا تھا۔ یہ خان غفار خان تھے یہ ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اسی سال بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔‘

بھگت سنگھ کے لیے رحم کی اپیل کے لیے دستخطی مہم شروع کی گئی تاکہ وائسرائے کو بھیج کر اس کی زندگی بچائی جا سکے۔ اس مہم میں اے کے ہنگل بھی شامل رہے، تاہم برطانوی حکومت اپنی بات پر اٹل تھی کہ انہیں پھانسی دی جائے گی اور ایک روز بھگت سنگھ کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ ’برطانوی حکومت نے بھگت سنگھ اور سکھدیو کو پھانسی دے دی، شہر میں انقلابی سرگرمیاں شروع ہوگئیں، وہ خفیہ پیغام رسانی کے لیے بطور کوریئر کام کرتے تھے ایک روز ان کے والد جو برطانوی ملازم تھے، انھیں پولیس کے ذریعے ان کی سرگرمیوں کا علم ہوا تو انھوں نے انھیں سختی سے دور رہنے کی تاکید کی اور نصیحت کی کہ کھدر پہن لو لیکن ان سرگرمیوں سے دور رہو۔‘

اے کے ہنگل لکھتے ہیں ’مجھے یاد ہے کہ 23 مارچ 1931 کا دن جب شاہی باغ میں بھگت سنگھ کی پھانسی کے خلاف تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس سے اس وقت کے کانگریسی رہنما عبدالرب نشتر نے خطاب کیا تھا، اس موقع پر ایک پشتو شاعر نے شاعری سنائی تھی جسے سن کر سارا مجمع رو رہا تھا۔۔۔ اس کی آخری سطر تھی ’سردار بھگت سنگت سردار بھگت سنگھ۔‘

پشاور کے قصہ خوانی بازار سے اگر آپ کا کبھی گذر ہوا ہو تو وہاں ایک یادگار موجود ہے، جس کے ساتھ اب دعائیہ ہاتھ بھی تعمیر کیے گئے ہیں، اس جگہ کا ایک خونی پس منظر ہے۔

اے کے ہنگل 23 اپریل 1930 کو قصہ خوانی بازار میں ہونے والے اس قتل عام کے بھی چشم دید گواہ تھے۔

ہنگل لکھتے ہیں کہ ’جب باچا خان کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی رہائی کے لیے لوگ اکٹھا ہوئے تو ان مظاہرین پر فائرنگ کی گئی تھی۔‘ جس کے نتیجے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 افراد ہلاک ہوئے جبکہ غیر سرکاری اعداد 200 کے قریب ہے۔

اے کے ہنگل کے مطابق قصہ خوانی بازار کے دونوں اطراف میں دکانیں ہوا کرتی تھیں جن میں تربوز، تازہ پھل اور خشک میوہ دستیاب تھا۔

بچن کے ایک واقعے نے انہیں ہلا دیا تھا۔۔ ہوا یوں کہ ایک روز گرمی کے دنوں میں اسکول کے بڑے بچے سرگوشیاں کر رہے تھے کہ آج کابلی گلی میں کوئی مظاہرہ ہوگا، وہ بھی وہاں چلے گئے۔ چاروں اطراف مجمع تھا، جیسے ہی پولیس نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو انقلاب زندہ باد کے نعرے لگے۔

’پولیس نے کابلی گیٹ بند کر دیا۔ افسران قریبی کنٹونمنٹ سے رابطے میں تھے اسی دوران ملٹری ٹرک پہنچ گیا اور مسلح سپاہیوں نے بندوقوں کا رخ مظاہرین کی طرف کر دیا لیکن کسی نے خوف نہیں دکھایا اور آگے بڑھتے گئے۔‘

اے کے ہنگل کہتے ہیں کہ ’میں نے دیکھا کہ ٹرک میں انڈین سپاہی سوار تھے، مظاہرین میں کوئی بھگدڑ نہیں مچی۔۔ کسی میں موت کا ڈر نہیں تھا۔ انڈین فوجیوں نے اپنے ہم وطنوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا‘

’ان کا تعلق گھڑوال ریجمنٹ سے تھا جس کی قیادت چندر سنگھ گھڑوالی کر رہے تھے۔ برٹش فورسز نے گھیراؤ کر لیا اور انھوں نے سیدھی فائرنگ کی جس میں بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔‘

اس روز انھوں نے سڑکوں پر خون دیکھا جو محب وطن مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کا تھا۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ ’جب لوگ منشتر ہوئے اور میں گھر کی طرف لوٹا تو میری قمیض پر خون کے دھبے لگے ہوئے تھے۔ جب میں گھر پہنچا تو کسی نے بھی میرے قصہ خوانی جانے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا۔‘

’والد جب واپس آئے تو وہ غصے میں تھے۔ ان ذہن میں ایک اور خوف بھی تھا، کیونکہ ایسے حکام جن کے خاندان کا کوئی فرد حکومت مخالف سرگرمیوں میں شامل ہو، انھیں معطل کر دیا جاتا تھا۔‘

اے کے ہنگل نے میٹرک تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ سرکاری ملازمت اختیار کریں اور چیف کمشنر کو درخواست دیں کیونکہ سرکاری ملازمین کی اولاد کو ترجیح دی جاتی تھی لیکن انھوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ ان کے والد کے ایک دوست جو انگلینڈ میں تھے، ان سے ملاقات کے لیے آئے تو ان سے کیریئر پر بھی بات چیت ہوئی ’انھوں نے کہا کہ بیٹا تم ٹیلرنگ کیوں نہیں سیکھتے؟ یہ کام تو تم آزادانہ طرز پر کر سکتے ہو اور یہ فروغ پاتا ہوا کاروبار ہے۔‘

’انھوں نے کہا کہ وہ انگلینڈ میں تربیت دلا سکتے ہیں پھر وہ پشاور لوٹ آئیں جہاں اس کی مانگ ہے۔‘

انھیں یہ خیال پسند آیا لیکن والد نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ ’ججوں اور کمشنرز کا خاندان کیا اب درزی کا کام کرے گا۔‘

دل برداشتہ ہنگل دلی چلے گئے، جہاں ان کی بہن رہتی تھی۔ ان کے بہنوئی انہیں ایک درزی کے پاس لے گئے جو انگریزی اسٹائل سوٹ بناتے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ پانچ سو روپے لے گا اور یہ تربیت دو سال جاری رہے گی۔

ہنگل لکھتے ہیں کہ یہ ایک بڑی رقم تھی۔ انہوں نے مدد کے لیے والد کو چٹھی لکھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے دوسری چٹھی لکھی تو والد نے اس تنبیہ کے ساتھ رقم بھجوائی کہ ’اگر پیسے واپس نہ کیے تو خاندان کی صورت بھی نہ دیکھنا۔‘

دو سال دلی میں گزار کر وہ پشاور آئے، جہاں انہوں نے اپنی دکان کھولی اور اپنی زندگی میں بھی بدلاؤ لائے۔ کھادی چھوڑی اور اچھے ماڈرن کپڑے پہننا شروع کیے تاکہ کسمٹرز پر اس کا اثر پڑے، پروفیشنل زندگی میں قدم رکھتے ہی والد نے ان سے شادی کرنے کی فرمائش کر دی اور انہوں نے اس کو قبول کر لیا۔

اسٹیج ڈرامے اور گلوکاری کے شوق کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’بچپن میں والد انہیں موسیقی کی محفلوں میں لے جاتے تھے۔۔ وہ اس کے رسیا تھے اور مجھے بھی موسیقی سے لگاؤ ہونے لگا۔‘

وہ خود بانسری بجاتے تھے۔ موسم گرما میں جب انگریز دفاتر نتھیا گلی کے ٹھنڈے علاقے میں منتقل کر دیے جاتے تو وہ بھی والد کے ساتھ چلے جاتے اور وہاں وادیوں میں بانسری بجاتے تھے۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ انہوں نے استاد خدا بخش سے موسیقی سیکھنا شروع کی، اس کے بعد مہاراج واشنداس سے طبلہ بجانا سیکھا اور وہ میوزک اور ڈرامہ کلب شری سنگیت پریا منڈل کے رکن بن گئے۔ انھوں نے پہلا ڈرامہ اردو میں کیا اس کا نام تھا ’ظالم کنس۔‘

پشاور میں 1935 میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو اے کے ہنگل نے وہاں گلوکاری شروع کردی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت آڈیو بیلنس اور مکسنگ کا تصور تک نہیں تھا بس ایک مائیکرو فون ہوتا تھا اور تمام موسیقی کے آلات اس کے ساتھ ہوتے تھے اور شور میں گائیک کی آواز بیٹھ جاتی تھی۔

اے کے ہنگل کی کوششوں کے باوجود پشاور میں ان کا ٹیلرنگ کا کام چل نہیں سکا لہٰذا والد نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کراچی منتقل ہو جائیں۔

وہ ٹیلرنگ کے کام سے متعلق مارکیٹ کو جانچنے کے لیے کراچی پہنچے پھر واپس آکر پشاور کو الوداع کہا اور والد، بیوی اور بیٹے کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئے۔ ان کے بقول یہ سنہ 1940 تھا۔

کراچی کی اکسفرڈ اسٹریٹ سمجھی جانے والی ایلفنسٹن اسٹریٹ پر اے کے ہنگل نے دکان کھول لی جو اس وقت کا پوش اور فیشن ایبل علاقہ تھا، اے کے ہنگل کے مطابق کراچی کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ یہ جدید اور معاشی مرکز ہے جہاں سڑکیں کشادہ تھیں، فٹ پاتھ بنے تھے۔۔ یہاں انہوں نے پہلی بار لڑکیوں کو ماڈرن کپڑوں میں دیکھا جن میں سندھی ہندو لڑکیاں بھی تھیں، کیونکہ اس وقت پشاور میں لڑکیاں قمیض شلوار پہنتی تھیں۔

کراچی میں بھی ہنگل کی قسمت کا تارا نہیں چمک سکا اور بالآخر انہیں یہ دکان بند کرنا پڑی، ایک دن ایک دوست نے انہیں بتایا کہ شہر میں ایک بڑی کمپنی ایسر داس اینڈ سنز کے پاس ایک کٹر (کپٹرے کاٹنے والے ہنر مند) کی آسامی ہے۔

وہ اچھا لباس پہن کر وہاں گئے، مالک نے دیکھا کہ یہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں اور یوں انہوں نے چار سو روپے ماہانہ کے ساتھ ہنگل کو ملازمت دے دی اور وہ چیف کٹر بن گئے، اس کے ساتھ ان کی مالک سے دوستی بھی ہو گئی۔

اے کے ہنگل کی مالی حالت جب بہتر ہوئی تو انہوں نے اپنے پرانے شوق موسیقی اور ڈرامہ کی طرف رجوع کیا اور ایسے دوست جمع کرنے کی کوشش کی جن کا شوق یکساں ہوں۔ انہوں نے ایک کلب بنایا جس کا نام ہارمونیکا کلب رکھا اور اس کے لیے کچھ ڈرامے لکھے، جنہیں انہوں نے ڈائریکٹ بھی کیا، اس طرح کراچی میں اسٹیج تھیٹر میں ان کا نام جان پہچان میں آنے لگا۔

انقلابی سیاست اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت: دوسری جنگ عظیم کے بعد جب روس اور برطانیہ کا معاہدہ ہوا تو اس کے سیاسی اثرات انڈیا پر بھی نظر آنے لگے، سینسر شپ میں کمی ہوئی اور کمیونسٹ لٹریچر کی آمد شروع ہو گئی۔

کراچی میں کانگریس، سندھ سبھا اور مسلم لیگ سرگرم رہیں جبکہ کمیونسٹ پارٹی نے بھی یہاں اپنے قدم رکھے تھے۔ قادر بخش نظامانی اپنی کتاب ’بلوچ قومی تحریک‘ میں لکھتے ہیں کہ ’1939 کے اوائل میں سندھ بلوچستان کمیٹی آف انڈین کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل کی گئی اور وہ اس کے پہلے سیکریٹری منتخب ہوئے، بعد میں میر غوث بخش بزنجو نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی لیکن سنہ 1942 تک اختلافات کی بنیاد پر وہ دونوں الگ ہو گئے۔ اسی سال کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سید جمال الدین بخاری کو کراچی بھیجا۔‘

حشو کیولرامانی جو لندن میں زیر تعلیم تھے، مارکس وادی فلسفے سے متاثر ہو کر کراچی لوٹ آئے۔ ’حشو کیولرامانی نہ بھولنے والی شخصیت‘ کے مصنف مدد علی سندھی لکھتے ہیں کہ انہیں جی ایم سید اپنا استاد سمجھتے تھے۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ ’ان کے گھر کے قریب کیولرامانی رہتے تھے، ان سے انہوں نے سیاسی تعلیم لی اور اس کے بعد کمیونسٹوں کے پروگرامز میں جانا شروع کیا‘۔

وہ کامریڈ جمال الدین بخاری کو پسند کرتے تھے جو سندھ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری تھے۔ وہ جلد کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے اور آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس میں بھی شمولیت اختیار کر لی۔

اے کے ہنگل نے جب کمیونسٹ نظریے کے تحت طبقاتی تقسیم کا فلسفہ قبول کیا تو انہیں پہلی تفریق اپنے کارخانے میں نظر آئی، جہاں ہفتہ وار چھٹی اور میڈیکل چھٹی نہیں ملتی تھی اور کام کے اوقات کار واضح نہیں تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے پارٹی قیادت سے مشورہ کیا جنھوں نے ہنگل سے کہا کہ ’کامریڈ یونین بناؤ اور لڑو‘ ہم رہنمائی کریں گے۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ پہلا قدم یونین بنانا تھا۔ انھوں نے اپنے ساتھی ورکرز سے بات کی اور اس کے بعد دوسری دکانوں کے ورکرز کو بھی ساتھ ملایا۔

وہ یونین اجلاسوں میں پارٹی رہنماؤں کو بھی بلاتے جو وہاں آ کر خطاب کرتے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی کی تمام ٹیلرنگ شاپس ایک روز کی ہڑتال کریں گی۔ اس روز جلوس بھی نکالا گیا۔

انھوں نے کراچی ٹیلرنگ ورکرز یونین کا باضابطہ اعلان کیا جس کا انھیں صدر منتخب کیا گیا۔ اس کے ساتھ مالکان کو بھیجنے کے لیے ایک مسودہ تیار کیا گیا جس میں تین بنیادی نکات شامل تھے: یونین کو تسلیم کریں، شاپ اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ پر عمل درآمد اور پیس ورکرز کو بھی ملازم تسلیم کریں۔

اے کے ہنگل کہتے ہیں کہ مالکان غصے میں تھے، انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اجتماعی احتجاجی تحریک اٹھے گی۔ انھوں نے وقت مانگا اور کہا کہ تحریری طور پر جواب دیں گے۔ ان کے اپنے مالک بھی ناراض ہو گئے اور ہڑتال کرنے پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں ملازم اور ملازمت کی وصف پر بحث ہوتی رہی۔

اے کے ہنگل اور ان کے ساتھیوں کو ضمانت پر رہائی ملی اور وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن بن گئے لیکن اب انھیں کوئی ملازمت پر رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

بعد میں انھیں پارٹی کا کراچی سیکریٹری مقرر کیا گیا۔

کراچی میں اسی عرصے میں نیوی نے بغاوت کر دی، کمیونسٹ پارٹی نے ان کی حمایت میں ہڑتال کی کال دی۔ اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ ان کا چھوٹا سیاسی گروپ تھا لیکن یہ ہڑتال کامیاب رہی۔

سندھ کے کمیونسٹ رہنما سوبھو گیانچندانی لکھتے ہیں کہ نیوی کی بغاوت کے وقت کراچی کے شہریوں کو آگاہی اور شعور دینے میں اے کے ہنگل کا اہم کردار تھا، وہ پارٹی کے شعلہ بیان کارکن تھے اور وہ کامریڈ بخاری کے وفادار ساتھی تھے۔

کراچی میں فسادات اور گرفتاری: کراچی میں جنوری 1948 میں ہونے والے فسادات میں ہندو اور سکھ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت ہنگل انڈیا میں کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب اسٹیمر بحری جہاز سے بمبئی سے کراچی کے لیے نکلے تو یہ اسٹیمر مسلمان پنجابی سپاہیوں سے بھرا ہوا تھا، وہ اس جہاز پر واحد غیر مسلم تھے۔ انڈین کپتان ان کی مشکل سمجھ گیا اور اس نے مشورہ دیا کہ ’نیچے ہپستال کے بیڈ پر چلے جاؤ اور یہ ظاہر کرو کہ تم بیمار ہو، باہر نکل کر کسی سے بھی بات نہیں کرنا۔‘

جب وہ کراچی پہنچے تو کرفیو نافذ تھا۔ وہ سیدھا پارٹی آفس پہنچے مگر راستے میں ایک یونین ورکر ملا جس نے بتایا کہ ان کے گھر کے آس پاس لوٹ مار ہوئی ہے تاہم ان کا بیٹا اور بیوی محفوظ ہیں۔

اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی نے شہر میں امن کے لیے ریلی نکالی، لوگوں سے اپیل کی کہ پرامن رہیں، لوٹا ہوا مال و اسباب واپس کریں اور انہیں اس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی۔

تقسیم کے فوری بعد کمیونسٹ پارٹی ایک بار پھر زیر عتاب آ گئی، 1948 کو کامریڈ جمال بخاری کو پارٹی کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا گیا اور انڈیا سے سجاد ظہیر کو پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے طور پر بھیجا گیا۔

کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی، گوبند مالھی جو کمیونسٹ پارٹی کے کراچی میں سرکردہ رہنما تھے، تنظیم کے جریدے ’نئی دنیا‘ کا اجارہ کرنے والی ٹیم میں شامل رہے، قیام پاکستان کے اعلان کے بعد انھوں نے شیروانی اور جناح کیپ پہن کر 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قومی پرچم ہاتھ میں لے کر ریلی نکالی تھی۔

اے کے ہنگل کے مطابق پارٹی میں شدید بحث مباحثے کے بعد یہ لائن پاس ہوئی کہ ’انڈیا اور پاکستان کی آزادی حقیقی نہیں تھی‘ جس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ انھوں نے بھی اس لائن کی پیروی کی اور ان سمیت تمام اہم پارٹی رہنما گرفتار کیے گئے۔

گرفتار ہونے والوں میں اے کے ہنگل کے علاوہ سوبھو گیانچندانی، کیرت بھا بانی، گلاب بھگوانی، پوہو مل اور عینشی ودیارتی شامل تھے۔

اے کے ہنگل کی بیوی نے بھی پس منظر میں رہتے ہوئے رابطہ کاری کا کردار ادا کیا۔

سوبھو گیانچندانی لکھتے ہیں کہ ’جیل میں اے کے ہنگل کو درزی خانے کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ سپریٹنڈنٹ اور جیلر کے اعلیٰ کپڑے بناتے تھے جس سے کچھ نرمی ہوئی اور یوں اے کے ہنگل ٹیلر ماسٹر کی بیوی ہمارے پیغامات پارٹی تک پہنچاتی تھیں۔‘

کیرت بھابانی لکھتے ہیں کہ ’اے کے ہنگل کی پتنی (اہلیہ) اور پوہو مل کے پتا (والد) ملاقات کے لیے آتے تھے اور انھیں باہر کے حالات کی معلومات دے جاتے تھے۔‘

سوبھو لکھتے ہیں کہ ’وہ سب گوشت خور تھے سبزی مشکل سے حلق سے اترتی تھی لیکن یہ یار (ہنگل) اتنا ہی سخت سبزی خور تھا جو انتہائی کوشش کے باوجود ہم جیسا نہیں بن سکا تھا حالانکہ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ کھانے پینے کی برہمنی حدیں عبور کرکے ہم جیسا بن جائے۔‘

’ایک مرتبہ تو اپنی بیوی سے فرمائش کرکے گوشت بنوایا اور سبزیاں منگوائیں لیکن ٹفن باکس کھولتے ہی ہماری طرف دھکیل دیا اور الٹیاں کرتے رہے۔‘

مذہب کی بنیاد پر قیدیوں کی تقسیم: تقسیم کے بعد سپاہیوں، سرکاری ملازمین کی تقسیم کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی بھی تقسیم کی گئی۔ اے کے ہنگل لکھتے ہیں کہ جب قیدیوں کا تبادلہ ہو رہا تھا تو اس میں کامریڈ جمال الدین بخاری شامل نہیں تھے، کامریڈ سوبھو گیانچندانی، عانشی، پوہو مل ، گلاب اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ انڈیا نہیں جائیں گے۔

ہنگل لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے ٹائمز آف انڈیا میں پڑھا تھا کہ قیدیوں کے تبادلے میں ان کی رضامندی لازمی تھی۔ جیل میں کچھ راشٹریا شیو سنہا کے جوان بھی تھے جنھیں یہ حیرت تھی کہ وہ یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ دراصل ہم ٹریڈ یونین میں تھے عدالت میں مقدمات زیر سماعت تھے۔‘

اے کے ہنگل کہتے ہیں کہ ’انھوں نے سوبھو گیانچندانی سے مشورہ کیا اور یہ طے ہوا کہ انڈیا چلے جانا چاہیے۔‘

سوبھو لکھتے ہیں کہ ’ایک سال کی جیل کے بعد ہنگل کو آخری الٹی میٹم دیا گیا کہ اگر وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ پاکستان چھوڑ دیں تو ان کو دو روز کا پیرول دیا جائے گا جس کے بعد وہ کراچی بندرگاہ سے بمبئی روانہ ہو گئے۔‘

وطن آنے کی خواہش اور بال ٹھاکرے: جس دھرتی پر اے کے ہنگل نے جنم لیا، جوان ہوئے، سیاست کی، وہاں آنے کو وہ ترستے رہے۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1988 میں وہ ماسکو گئے تھے، واپسی پر بارش کی وجہ سے جہاز دلی ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کر سکا اور انھیں کراچی لایا گیا۔‘

’تقریباً چالیس برسوں کے بعد انھوں نے کراچی میں لینڈ کیا تھا لیکن باہر نہیں جا سکتے تھے۔‘

جب وہ ریستوران میں لنچ کر رہے تھے تو کچھ پاکستانی لڑکے لڑکیاں آئے اور ان سے آٹو گراف لیا اور شام کو فلائیٹ واپس روانہ ہو گئی۔

1993 میں انھوں نے پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو فون کیا اور ویزے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اگلے روز پاکستان ڈے کا فنکنش تھا جس میں انھیں مدعو کیا گیا مگر اس میں شرکت ان کے لیے اجیرن بن گئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’شیو سینا نے ان کی فلموں پر پابندی عائد کر دی اور دھمکی دی کہ جہاں ان کی فلم چلے گی وہ سنیما جلا دیں گے، جس کی وجہ سے وہ ڈھائی سال بیروز گار رہے۔‘

اے کے ہنگل تقریباً 58 سال کے بعد 2005 میں کراچی آئے جہاں ان کی اپنے ساتھی دوست سوبھو گیانچندانی سے ملاقات ہوئی اس دورے کے دوران سجاد ظہیر کی بیٹی نور ظہیر بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ تقریب میں اے کے ہنگل نے بتایا کہ جب سجاد ظہیر پاکستان آئے تو ان کے پاس ٹھہرے تھے، وہ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کراچی کے سیکریٹری جنرل تھے۔

’گرفتاری کے بعد سجاد ظہیر نے پیغام بھجوایا کہ انڈیا چلے جاؤ مگر میں نے انکار کیا کہ میں یہاں پیدا ہوا ہوں، یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ میری بات کے جواب میں سجاد نے سمجھایا کہ تم کمیونسٹ نظریے کے پیروکار ہو، جو یہاں نہیں ہے۔ تم اقلیت سے تعلق رکھتے ہو اور ایک حساس آرٹسٹ ہو یہ چیزیں بھی یہاں نہیں ہیں، اس لیے یہاں سے چلے جاؤ۔‘

اے کے ہنگل نے کہا کہ ’میں نے درست فیصلہ کیا اور اچھا ہوا یہاں سے چلا گیا۔‘

نور ظہیر نے اپنی کتاب ایٹ ہوم ان اینیمی لینڈ میں لکھا کہ ’سجاد ظہیر نے دونوں( سوبھو اور ہنگل) سے کہا تھا کہ انڈیا کی طرف ہجرت کریں۔ ان میں سے ایک نے ہاں کہی تھی اور دوسرے نے نہیں۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری کی ہدایت کی پر نافرمانی اور اطاعت پر دو دوست اس قدر جدا ہو گئے کہ یہ ملاقات 58 سال بعد ہی ممکن ہو سکی۔‘

اے کے ہنگل نے بمبئی میں درزیوں کی یونین سازی کی، اس کے علاوہ فلمی دنیا میں قدم رکھا اور اپنی پہچان بنائی تاہم انھوں نے سادہ زندگی گذاری اور آخری وقت ان کا کسمپرسی میں گذارا۔

26 اگست 2012 میں پاکستان کا فریڈم فائیٹر، نوجوان سیاسی رہنما اور بالی وڈ کا اداکار وفات پا گیا۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close