’ہیلو میرے پاکستانی امریکن دوستو۔ اگر میں جیت گیا تو میرا وعدہ ہے کہ میں عمران خان کی جلد از جلد جیل سے رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ وہ میرا دوست ہے۔ مجھے اُس سے محبت ہے۔ میں دوبارہ اُس کے برسرِاقتدار آنے کی حمایت کروں گا۔ ہم تعلقات کی مضبوطی کے لیے مل کے کام کریں گے۔عمران خان زندہ باد۔‘
پانچ نومبر سے ٹک ٹاک پر گردش کرنے والی اس ’تاریخی‘ ویڈیو کو بِنا پلکیں جھپکائے دیکھنے والے لگ بھگ 25 لاکھ لوگوں میں آپ کا بھائی بھی شامل ہے۔ مگر اسے شیئر کرنے والے 20 ہزار سے زائد لوگوں میں آپ کا بھائی شامل نہیں۔ شیئر تو آپ کا بھائی بھی کرنا چاہتا تھا مگر کلک کرنے سے پہلے ہی دبنگ فلم کی ہیروئن سوناکشی سنہا کی وہ لائن یاد آ گئی کہ ’تھپڑ سے نہیں، پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب۔‘
خدا اُن نام نہاد فیکٹ چیکروں کو غارت کرے جن سے ہماری پل بھر کی خوشی بھی برداشت نہیں ہوتی۔ پتہ یہ چلا کہ وڈیو تو ٹرمپ صاحب کی ہی ہے مگر 12 مئی 2017 کی ہے۔ ٹرمپ ’این بی سی‘ یوٹیوب چینل سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انٹرویو کے اس حصے میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو اچانک برطرف کرنے کے فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں۔
اس بصری ٹکڑے پر خان صاحب کے کسی دیوانے نے ٹرمپ کی آواز کلون کر کے اپنے من کی بات چڑھا دی اور سوشل میڈیا کی وائرل ہوائیں اسے لے اڑیں۔
جب خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان سے کسی ’اتاؤلے‘ رپورٹر نے اس ویڈیو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے الٹا سوال کر دیا کہ ’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘
ویسے اس ویڈیو کی شکل میں فالتو کی فنکاری کی یوں ضرورت نہیں تھی کہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ میں خان لابی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی لابی سے زیادہ فعال ہے۔ اس نے امریکی کانگریس کے 62 اصلی ڈیموکریٹ ارکان سے گذشتہ ماہ ہی صدر بائیڈن کے نام ایک اصلی خط لکھوا لیا تھا جس میں خان صاحب کی رہائی کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ایمنسٹی سمیت کئی سرکردہ انسانی حقوق تنظیمیں بھی پاکستان کے حالات پر بقول دفترِ خارجہ ’بے بنیاد تبصرہ‘ کرتی رہتی ہیں۔
مگر واشنگٹن میں ہوا کا رُخ بدل چکا ہے۔ کانگریس کے دونوں ایوان ریپبلیکنز کے کنٹرول میں ہیں۔ خارجہ پالیسی کے مینیو میں مشرقِ وسطیٰ، ایران، یوکرین، چین، بھارت، غیرقانونی تارکینِ وطن اور ماحولیات سب سے اُوپر ہیں۔ پاکستان فی الحال نئے امریکی سٹرٹیجک مینیو میں اگر ہے بھی تو کہیں بہت نیچے ہے۔ تاوقتیکہ پاکستان کے پڑوس میں اتنی بڑی چراند ہو جائے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹی خدمات کی امریکہ کو پھر سے ضرورت پڑ جائے۔
اگر امریکہ میں متحرک پی ٹی آئی لابی صدر ٹرمپ سے ایک اصلی ٹویٹ لکھوانے یا ایک آدھ جملہ منھ سے نکلوانے میں کامیاب ہو بھی جائے تب بھی پاکستان کی داخلہ پالیسی پر اس کا کتنا اثر ہوگا؟
جس طرح ٹرمپ کی آمد کے بعد وائٹ ہاؤس، کانگریس اور قدامت پسند ججوں سے بھرا سپریم کورٹ ایک پیج پر آ گئے ہیں، اِسی طرح پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دینے والی تابعدار پارلیمنٹ، نوتشکیل عدلیہ اور سیاسی و قومی استحکام کی ضامن اسٹیبلشمنٹ بھی ایک پیج پر ہیں۔
بالخصوص مسلح افواج کے سربراہوں کی مدتِ عہدہ تین سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور مزید پانچ برس کی توسیع کا راستہ کھلا رکھنے کے قانون کی منظوری کے بعد ’نو مئی کا سانحہ‘ 2032 تک بھی کھینچا جا سکتا ہے۔
ان ضروری انتظامات کے نتیجے میں وسیع تر قومی مفاد اور ملکی استحکام کے لیے آنے والے دنوں میں جو بھی اقدامات ہوں گے، وہ عین ’قانونی اور آئینی حدود‘ میں ہوں گے۔ ویسے بھی 26ویں ترمیم کے بعد کسی کو آئینی حدود سے باہر نکلنے یا کوئی بالائے آئین قدم اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں رہی!
گویا بے یقین مستقبل کو بھانپتے ہوئے اسلام آباد میں ایک آئینی بند باندھ دیا گیا ہے تاکہ آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کو تحفظ مل سکے اور چھوٹا موٹا یا درمیانے درجے کا بیرونی دباؤ بخوبی سہا جا سکے۔
جنہوں نے بھی یہ آئینی پراڈکٹ ڈیزائن کی ہے، انہیں اچھے سے معلوم ہے کہ خان کو کھلا چھوڑ کر ملک میں رکھنا جتنا پُرخطر ہے، اس سے کہیں بڑا خطرہ خان کو بیرونِ ملک پارسل کرنا ہے۔ اگر ایک آدمی جیل میں رکھ کر بھی چپ نہیں ہو پا رہا اور اسیری کے چسکے لے رہا ہے تو سوچیے باہر آ کے وہ کتنا رائتہ پھیلائے گا؟ چنانچہ جیل کا آپشن فی الحال سب سے بہتر ہے، کم ازکم ملاقاتیں اور نقل و حرکت تو کنٹرول میں ہیں۔
رہی پی ٹی آئی! تو ایسی اپوزیشن اللہ سب کو دے۔کسی لیڈر کا سیاسی بلڈ گروپ کسی اور لیڈر سے نہیں ملتا۔ ہر کسی کو دوسرے پر یقین کی حد تک شک ہے، ہر کوئی اپنے تئیں خان صاحب سے قریب ہے اور ہر کوئی پھنے خان ہے۔ ایسے میں اگر کسی بڑے عوامی طبقے کی سیاسی حمایت حاصل بھی ہے تو اس کا فائدہ؟ جب یہی نہیں معلوم کہ اس حمایت کا اچار ڈالنا ہے کہ مربہ بنانا ہے کہ کچا استعمال کرنا ہے۔
ایسی آپا دھاپی کے ماحول میں بھائی ٹرمپ اصلی ویڈیو بھی جاری کر دیں تو کیا فرق پڑے گا؟ امریکہ ہو یا کوئی اور ملک، بائیڈن ہو کہ ٹرمپ، بھلا کون سا ملک ریاستی سطح کے تعلقات کو کسی ایک شخص کے لیے داؤ پر لگاتا ہے؟
کیا 45 برس پہلے کے لیبیا، شام اور سعودی عرب کے دباؤ نے بھٹو کو بچا لیا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان سے تعلقات میں دراڑ آ گئی؟
کیا آنگ سانگ سوچی کی رہائی کے لیے مسلسل مغربی دباؤ کے نتیجے میں میانمار کی فوجی قیادت پیچھے ہٹ گئی یا اس نے اپنی مرضی کی شرائط منوا کے سوچی کو عارضی طور پر آزاد کر کے پھر سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔
وہ الگ بات کہ کوئی شخص نیلسن منڈیلا ہو ۔مگر منڈیلا بھی تو ایک ہی ہے۔
منڈیلا سے یاد آیا کہ کسی بھی نظام کو بدلنے کے لیے تحریک چلانے کی خاطر پرکشش قابلِ عمل عوام دوست نظریہ، انتہائی یکسوئی، منصوبہ بندی، ڈسپلن، صبر اور سرفروشی کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔ شور مچانے یا سوشل میڈیا پر ہا ہو والی ٹرینڈنگ، لابنگ یا کسی عالمی وڈیرے کی کایا کلپ ٹویٹ کا انتظار کافی نہیں ہوتا۔ ایسی کچی پکی کوششوں کا نتیجہ تھکن زدہ سمجھوتوں کی شکل میں ہی عموماً نکلتے دیکھا گیا ہے۔
زور وہ اور ہے، پاتا ہے بدن جس سے نمو،
لاکھ کودے کوئی ٹانگوں میں دبا کر موصل۔۔
(سلیم احمد)
بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)