صیدنایا جیل: تشدد، جبر اور مظالم کی، روح کو لرزہ دینے والی کہانی

ویب ڈیسک

شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب صیدنایا جیل کا نام سن کر دل دہل جاتا ہے اور روح پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ یہ جیل انسانی تاریخ کے بدترین تشدد اور بے رحمی کی علامت بن چکی ہے، جہاں قیدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انسانیت کے چہرے پر ایک بھیانک داغ کی طرح ہے۔ سالہا سال سے لاپتہ افراد کی داستانیں جب منظر عام پر آئیں تو دنیا نے ایک خوفناک حقیقت کا سامنا کیا۔

صیدنایا جیل کا قیام ایک المیہ کا آغاز تھا، اسے 1980 کی دہائی میں بشار الاسد کے والد حافظ حافظ الاسد کے دور حکومت میں فوجی قید خانے کے طور پر قائم کیا گیا، جلد ہی یہ شام کی سیاسی مخالفت کچلنے کا ایک تاریک مرکز بن گیا۔ یہاں حکومت مخالفین، کارکنوں، صحافیوں، حتیٰ کہ عام شہریوں کو بھی قید کر کے ناقابل تصور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اسے ’انسانی ذبح خانہ‘ قرار دیا ہے۔ یہ نام ان سرگرمیوں کی عکاسی کرتا ہے، جو بہت بڑی سطح پر تشدد اور سزائے موت کے عمل سے جڑا ہوا ہے۔

صیدنایا کی جیل زمین کے اوپر ایک عمارت کی شکل میں دکھائی دیتی ہے لیکن یہ زہر زمین سرنگوں اور بنکر ٹائپ سیلز کی صورت میں زیر زمین کئی منزلہ تہہ خانوں پہ مشتمل ہے جو کئی کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اوپر دمشق میں ہسپتال، کالج، گھر اور دیگر عمارتیں قائم تھیں اور نیچے صیدنایا جیل کا نیٹ ورک تھا۔ لوگ کی گواہیاں ہیں کہ وہ کبھی کبھی زمین کے نیچے سے آوازیں سنتے تھے لیکن وہم یا جنات سمجھ کر چپ کر جاتے۔

یہاں قید کئی قیدیوں نے برسوں تک سورج کی ایک کرن بھی نہیں دیکھی۔ وہ چھوٹے، گندے اور تاریک سیلز میں قید تھے، جہاں بھوک، بیماری اور تشدد کا خوف ہر لمحہ ان کے ساتھ رہتا تھا۔ مار پیٹ، چاقو زنی، بجلی کے جھٹکے اور بھوک کے ذریعے جسمانی اور ذہنی اذیت دی جاتی تھی۔

یہاں روزانہ کی بنیاد پر قیدیوں کو پھانسیاں دی جاتیں۔ صبح کے وقت محافظوں کا سب سے پہلا کام لاشوں کو بے نام قبروں میں دفنانا ہوتا۔ موت کے اس کاروبار کو قانونی حیثیت دینے کے لیے مقدمے بھی چلائے گئے، لیکن یہ چند منٹوں کے جعلی سماعتوں سے زیادہ کچھ نہ تھے۔

آٹھ دسمبر کو حزب اختلاف کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی قیادت میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد حیات تحریر الشام نے صیدنایا کے دروازے زبردستی کھول دیے، ہزاروں شامی امیدوں کے دیے جلا کر صیدنایا جیل کے دروازوں پر پہنچ گئے، مگر رہائی پانے والے قیدیوں کی حالت دیکھ کر امیدیں کرب میں بدل گئیں۔ نیم مردہ، زخموں سے چُور اور نفسیاتی صدمے میں مبتلا قیدی گندی کوٹھریوں سے باہر نکلے اور ان میں سے ہر ایک کے پاس دل دہلا دینے والی داستان تھی۔

جس کے بعد ہزاروں قیدی جیل سے باہر نکلے تو ان میں سے کچھ برسوں کی بدسلوکی کے بعد بمشکل رینگنے کے قابل تھے۔ آن لائن وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین، بچے اور بوڑھے قیدی گندی کوٹھریوں سے باہر نکل رہے ہیں اور ان کے چہرے ان مظالم کی گواہی دے رہے تھے جو دوران قید ان پر ڈھائے گئے۔

ایک ویڈیو میں سینکڑوں خواتین کو گندی کوٹھڑیوں سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا جا گیا، جن میں ایک تین سالہ بچہ اور سینکڑوں نوعمر لڑکیاں شامل تھیں۔

رہائی پانے والے قیدیوں میں شامی فضائیہ کے سابق پائلٹ راغید الطاری بھی شامل تھے، جنہیں 1982 کے حما قتل عام کے دوران عام شہریوں پر بمباری کرنے سے انکار کرنے پر 43 سال قید میں رکھا گیا تھا۔ الطاری کے زندہ بچ جانے نے ان لوگوں کو بھی حیران کر دیا، جو صیدنایا کی خوفناک تاریخ سے آشنا ہیں۔

ایک ویڈیو میں ایک معمر خاتون کو دیکھا گیا، جو صرف ہنس سکتی تھیں اور حکومت کے گرنے کی بات دہرا رہی تھیں، ’حکومت گر گئی، حکومت گر گئی، حکومت گر گئی۔‘

ایسا لگتا ہے کہ ان کی طرح، بے شمار قیدی اپنا دماغی توازن کھو چکے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے جو رہا ہونے کے بعد فوری طور پر اپنے بچوں کی قبروں پر گیا، جنہیں مبینہ طور پر حکومت نے مار دیا تھا۔

بہت سے شامیوں کے لیے صیدنایا کا سقوط تلخ رہا ہے۔ ہزاروں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان خاندان اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بارے میں جواب چاہتے ہیں۔

وائٹ ہیلمٹس کے نام سے مشہور شامی شہری دفاع کے رضاکاروں نے نقشوں اور سراغ رساں کتوں کی مدد سے جیل کی پوشیدہ کوٹھڑیوں اور زیر زمین کمروں کو تلاش کیا۔

صیدنایا کی عمارتیں اسد حکومت کے منظم ظلم کی کہانیاں پیش کرتی ہیں۔ نگرانی کے کمرے جہاں دیوار پر مانیٹرز نصب تھے، گارڈز کو قیدیوں پر ہر وقت نظر رکھنے کی سہولت دیتے تھے۔

جیل سے تشدد کا سامان بشمول پھانسی والی رسیاں اور لاشوں کو کچلنے کے آلات وافر مقدار میں ملے۔

جیل کے ’ریڈ ونگ‘ میں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا تھا، جنہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ انہیں پانی سے محروم رکھا گیا، بے ہوش ہونے تک مارا گیا، اور اپنے سیلز میں رفع حاجت پوری کرنے پر مجبور کیا گیا۔

قیدیوں کو اکثر تشدد کے دوران چیخنے سے بھی منع کیا جاتا تھا۔ ہر صبح محافظ لاشوں کو بے نشان قبروں میں تدفین کے لیے جمع کرتے تھے اور موت کی وجوہات میں ’ہارٹ فیل‘ یا ’سانس کے مسائل‘ لکھتے تھے۔

سابق قیدی اس جیل کی دیواروں کے اندر بدسلوکی کی دردناک داستانیں بیان کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کام کرنے والی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ قیدیوں کی شیئر کی جانے والی شہادتوں میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح قیدیوں کو مارا پیٹا گیا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں زخموں اور بیماریوں سے مرنے کے لیے گندگی اور زیادہ بھیڑ والے سیلز میں چھوڑ دیا گیا۔ کئی کو جھوٹے مقدمات، جو صرف منٹوں تک جاری رہے، کے بعد بڑے پیمانے پر پھانسی دی گئی۔

ایمنسٹی کے اندازوں کے مطابق 2011 سے 2015 کے درمیان 13 ہزار افراد کو اس جیل میں سزائے موت دی گئی۔ تشدد کے طریقے میں قیدیوں سے مار پیٹ، چاقو زنی، بجلی کے جھٹکے اور بھوک شامل تھے۔

اس سے قبل امریکہ اسد حکومت پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے صیدنایا میں ایک شمشان گھاٹ کا استعمال کرتی رہی ہے۔

اگرچہ اس جیل اور اس سے جڑی کہانیوں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے البتہ 2011 کے بعد سے اس جیل کے کردار اور یہاں کی خوفناک کہانیوں میں اضافہ ہوا، جب مظاہرین، صحافیوں، امدادی کارکنوں اور طالب علموں کو اجتماعی طور پر حراست میں لیا گیا، جن میں سے بہت سے دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔

کئی شواہد کے باوجود بشار الاسد اپنے دور میں جیل میں بدسلوکی کے الزامات کی مسلسل تردید کرتے رہے اور انہوں نے 2017 میں یاہو نیوز سے بات کرتے ہوئے، ایمنسٹی کی رپورٹ پر ردعمل میں شواہد کو جعلی قرار دیا۔

لیکن یہ کھوکھلے تردیدی بیانات حقائق کے سامنے دھندلا جاتے ہیں۔ شام کی سنگلاخ زمین کے نیچے چھپے خفیہ عقوبت خانے، بارودی سرنگوں سے لبریز راہداریوں، اور ماضی کی ظالمانہ حکومت کی خوفناک یادوں کو اپنی دیواروں میں سموئے خفیہ فائلوں کے دفاتر، ایک ایسے المیہ کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

عرب صحافی فیراس کیلانی نے دمشق کے وسطی ضلع کفر سوسا میں واقع شام کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ وہ تہہ خانے جہاں صدیوں کی اذیت اور موت کی داستانیں سانس لیتی ہیں، پہلی بار دنیا کے سامنے آئے۔

یہاں ہر سیل کا دروازہ بھاری اسٹیل سے بنا تھا، جیسے وہ مظلوم قیدیوں کی چیخوں کو ہمیشہ کے لیے قید کر دینا چاہتے ہوں۔ سیلز کی دیواروں پر گہرے کالے دھبے ماضی کے تشدد کی بھیانک گواہی دے رہے تھے۔ وہ سیل جہاں نہ ہوا کا گزر تھا، نہ روشنی کا۔ بس ایک چھوٹا سا جال دار روشن دان تھا، جہاں سے سورج کی کمزور شعاعیں بمشکل اندر پہنچتی تھیں۔

ان تاریک سیلز میں ہزاروں قیدیوں کو برسوں تک قید رکھا گیا، ان پر وہ ظلم ڈھائے گئے جن کا تصور بھی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ ان کی چیخیں، درد سے بھرے سسکیاں، اور بھوک سے مر جانے والے قیدیوں کے بے جان جسم صدیوں تک ان دیواروں میں گونجتے رہیں گے۔

ان خفیہ تہہ خانوں میں صرف جسمانی اذیت نہیں دی جاتی تھی، بلکہ قیدیوں کی روح کو بھی زخمی کیا جاتا تھا۔ انہیں بھوکا رکھا جاتا، برہنہ کرکے مارا جاتا، اور اکثر ایسے چھوٹے سیلز میں قید کیا جاتا جہاں وہ کھڑے ہونے یا لیٹنے کی سہولت سے بھی محروم ہوتے۔

ایجنسیوں کے دفاتر میں اب بھی ہزاروں فائلیں بکھری پڑی تھیں، جیسے وقت نے اپنی بے نیازی سے سب کچھ منجمد کر دیا ہو۔ دیواروں سے اکھڑی ہوئی الماریاں اور خاک آلود کمپیوٹر سرورز ان خفیہ ایجنسیوں کے کام کرنے کے طریقہ کار کی غمازی کر رہے تھے۔

یہ فائلیں شام کے لاکھوں شہریوں کی جاسوسی اور گرفتاریوں کے احکامات کا ثبوت تھیں۔ ریکارڈ میں صرف شام ہی نہیں، بلکہ دیگر ممالک جیسے سوڈان، لبنان، اور عراق کی حساس معلومات بھی موجود تھیں۔

دفاتر میں جگہ جگہ ہتھیاروں کے ذخیرے موجود تھے۔ مارٹر گولے، کارتوس، بارودی سرنگیں، اور دیگر خطرناک ہتھیار ایک خفیہ جنگی سازش کا پتہ دیتے تھے۔ یہ وہی ہتھیار تھے جن سے لاکھوں بے گناہوں کی زندگیاں چھینی گئیں۔

یہ دفاتر اور سیلز اب تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن ان کی دیواروں پر لکھی ہوئی کہانیاں کبھی مٹ نہیں سکتیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد کے خاندان آج بھی انصاف کے طلبگار ہیں، اور شام کا یہ بھیانک ماضی زندہ ضمیر کی پکار بن چکا ہے۔

شام کی زمین نے ظلم و بربریت کی نہ ختم ہونے والی داستانوں کو اپنے سینے میں چھپایا ہوا ہے، مگر کبھی کبھی تاریخ کا پہیہ ظالموں کو انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ ایسا ہی شام کے معاملے میں بھی ہوا، جب معزول صدر بشار الاسد کے دور کے بدنام زمانہ فوجی ’طلال دقک‘ کو سرعام پھانسی دے دی گئی۔

طلال دقک، شامی فوج کے ’ٹائیگر فورس‘ کی خونی تاریخ کا ایک تاریک کردار تھا۔ یہ وہ شخص تھا جو قیدیوں کو اپنے پالتو شیر کے آگے ڈال کر موت کے گھاٹ اتارتا اور فخریہ انداز میں اپنی سفاکیت کا اعلان کرتا۔ وہ صرف ایک فوجی نہیں، بلکہ ظلم و بربریت کا چلتا پھرتا مجسمہ تھا، جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ 2005 میں اس نے ایک چڑیا گھر سے شیر چرایا اور اسے اپنے مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ’دہشت گردوں‘ کی لاشوں کو شیر کے سامنے ڈال کر وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن تاریخ نے آج اسے انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

طلال دقک صرف انسانی قتل و غارت گری کا مرتکب نہیں تھا، بلکہ وہ منشیات، غیر قانونی اسلحے، اور انسانی اعضا کی اسمگلنگ جیسے بھیانک جرائم میں بھی ملوث رہا۔ ایک اندازے کے مطابق، وہ شام کی ایئر فورس انٹیلیجنس کے تقریباً 1500 افراد پر مشتمل خونی ڈویژن کی قیادت کرتا تھا، جس نے ملک کے مخالفین کو حراست میں لے کر ناقابل بیان تشدد کا نشانہ بنایا۔

شامی باغیوں نے اسے گرفتار کر کے سرعام پھانسی دی۔ اس کی موت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جہاں لوگوں کو اس کی موت کا جشن مناتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ منظر ان ہزاروں مظلوموں کے لیے ایک امید کی کرن تھا، جو برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔۔ چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی بستے ہوں

صیدنایا شام میں واحد سرکاری جیل نہیں ہے، جہاں اس طرح کی زیادتیوں کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں متعدد ایسی عمارات موجود ہیں، جن میں میزہ ملٹری جیل، ٹیڈمور اور فریح فلاستین شامل ہیں، جہاں سے مزید ہولناکیوں کے شواہد سامنے آنے کا امکان ہے۔

اب چیلنج ثبوتوں کو محفوظ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ صیدنایا کے مجرم مقدمے کا سامنا کریں۔

ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور دیگر تنظیموں نے حزب اختلاف اور عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جیل سے متعلق ریکارڈ کو محفوظ بنائیں، مزید تباہی کو روکیں۔ تاہم، صیدنایا میں لوٹ مار اور افراتفری نے ان کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

چونکہ بشار الاسد اور ان کے ساتھیوں کو روس میں پناہ دے دی گئی ہے، تو یہ ممکن نہیں لگتا کہ معزول صدر اور ان کی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر افراد کے خلاف صیدنایا میں ہونے والے جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

اگرچہ انصاف کا راستہ طویل ہو سکتا ہے، لیکن صیدنایا کی آزادی ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ زندہ بچ جانے والوں اور خاندانوں کے لیے سچ کا سامنا کرنے اور کھوئے ہوئے افراد کی یادوں کو عزت دینے کا ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے۔

صیدنایا جیل کی مشینری کا خاتمہ ملک کی تعمیر نو کی طرف ایک علامتی قدم ہے اور یہ ان افراد کی مضبوطی کی یاد دہانی ہے جو بچ گئے، نیز اس بات کی مستقل ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ جوابدہی کا عمل جاری رکھا جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق 2011 سے 2018 کے درمیان 30 ہزار سے زیادہ افراد اس جیل میں پھانسیوں کے نتیجے یا تشدد، بھوک، یا طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث مارے گئے۔

صیدنایا کی خوفناک کہانی محض ایک تاریخ نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی حقیقت ہے۔ قیدیوں کی المناک کہانیاں ایک ایسی تاریک رات کی یاد دلاتی ہیں، جو انسانی تاریخ کے روشن دنوں کو دھندلا دیتی ہیں۔ مگر اب جب صیدنایا جیل کے دروازے کھل چکے ہیں، شاید ان زخموں کا مرہم بن سکے جو دہائیوں سے رستے آ رہے ہیں۔

ان کہانیوں کو بیان کرنا ایک المیے کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے، تاکہ تاریخ کے اوراق پر یہ چیخیں اور سسکیاں مٹ نہ سکیں۔ صیدنایا کا سقوط دنیا کے ہر مظلوم کے لیے امید کا نشان بھی ہے اور یاد دہانی بھی کہ انسانی عظمت کا تحفظ ہی انسانیت کی بقا کی ضمانت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close