![Gaza-A-Trump-style-solution-to-the-Middle-East-problem](https://sangatmag.com/wp-content/uploads/2025/02/Gaza-A-Trump-style-solution-to-the-Middle-East-problem-780x470.jpg)
واشنگٹن کا عظیم ’سفید باپ‘ بول پڑا ہے۔ معمولی اور عام فانی انسان سنیں اور اس کا حکم بلا چوں و چَرا مانیں۔
صدر ٹرمپ نے فرمایا کہ غزہ ایک ”گندگی کا ڈھیر“ ہے اور اسے ”صاف“ کرنا ضروری ہے۔
اکیس لاکھ انسانوں کا ”کچرا“ اس اہم ساحلی علاقے کی خوبصورتی کو خراب کر رہا ہے۔
عظیم ڈویلپر نے حکم صادر کیا ہے کہ ”ہم اس سارے کوڑے کرکٹ“ کو صاف کریں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اس پیچیدہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ان تمام فلسطینی پناہ گزینوں کو پڑوسی ممالک مصر اور اردن منتقل کر دیا جائے۔ لیجیے۔۔ مسئلہ حل ہو گیا!
دنیا نے اس بارے میں پہلے کیوں نہیں سوچا؟ ایک چھوٹی سی رکاوٹ: مصر میں پہلے ہی 107.5 ملین لوگ ایک ایسی زرخیز زمین پر سمٹے ہوئے ہیں جو امریکی ریاست میری لینڈ کے برابر ہے۔ گنجان آباد مصر میں حالات اس قدر تنگ ہیں کہ لوگ قبرستانوں میں ڈیرے ڈالنے پر مجبور ہیں۔
مصر اپنے عوام کو کھلانے کے قابل نہیں، جب تک کہ اسے امریکی امداد کے ذریعے چلنے والے کرپٹ نیٹ ورک سے مالی مدد نہ ملے۔ ٹرمپ کے پاس سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے بدعنوان سابق چیئرمین، رابرٹ مینینڈیز کے بارے میں کہنے کو کچھ نہیں تھا، جس نے کئی دہائیوں تک مصری حکومت سے اور ممکنہ طور پر یوکرین اور اسرائیل جیسے دیگر لوگوں سے بڑی رشوت لی۔ (اس کے اسکینڈل کی خبریں ہیں۔)
مصر اس دنیا کی سب سے سخت آمرانہ حکومتوں میں سے ایک ہے۔ مگر مغربی ذرائع ابلاغ اس پر خاموش ہیں۔ قاہرہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کو غزہ کی کھلی جیل میں قید رکھنے میں بھرپور تعاون کیا۔ مصر کی فوجی حکومت کو بجا طور پر یہ خوف تھا کہ فلسطینی وہاں جمہوریت یا اسلامی حکومت کے خیالات متعارف نہ کروا دیں۔ مصر عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اس کی فوجی حکومت کسی بھی انقلابی اور باغی فلسطینیوں کو برداشت نہیں کرنا چاہتی۔
یہی معاملہ اردن کی شاہی حکومت کے ساتھ ہے۔ اردن کے سابق شہزادے حسن کو ہاشمی تخت کے جانشین کے طور پر اس لیے مسترد کر دیا گیا کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کو وہ زیادہ فلسطین نواز لگے۔ چنانچہ، زیادہ ’فرمانبردار‘ اور ’خوش اخلاق‘ عبداللہ دوم کو بادشاہ بنا دیا گیا۔
اردن، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج نے عرب صحرا سے کاٹ کر بنایا تھا، پہلے ہی 60 فیصد سے زیادہ فلسطینی آبادی رکھتا ہے، جبکہ وہاں طاقتور اردنی فوج حکومت کرتی ہے۔ اردن ایک منظم اور مہذب ملک ضرور ہے، مگر وہ بھی مزید فلسطینیوں کو بسانے کی سکت نہیں رکھتا۔ پڑوسی لبنان کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔
یہ تمام ’پریشان کن‘ فلسطینی کسی اور سیارے سے نہیں آئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسرائیل کی جانب سے نسلی صفایا کیے جانے کے بعد اپنے گھروں سے بےدخل کر دیے گئے، جب شمالی اسرائیل کے عرب دیہات کو مسمار کر دیا گیا۔ غزہ کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایک کھلی جیل میں بدل دیا گیا، جہاں ان کی موجودگی سے اسرائیل ہمیشہ انکاری رہا ہے۔
لیجیے، ایک اور خیال! محترم صدر ٹرمپ! کیوں نہ ان 2.1 ملین بےگھر فلسطینیوں کو آپ کے مار-اے-لاگو اسٹیٹ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں منتقل کر دیا جائے؟ فلوریڈا ریاست کے ٹمپا اور لاڈرڈیل کے شہروں میں بسا دیا جائے۔۔ پھر آپ اپنے داماد جیرڈ کُشنر کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزہ کے خوبصورت ساحل— جو اب ”خالی“ ہوگا— کو ایک نیا میامی بیچ بنا دے۔ کتنا آسان حل ہے!
بشکریہ ایرک مارگولس ڈاٹ کام