لاہور سے تعلق رکھنے والے فیشن فوٹو گرافر تاجور منیر کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں وہ برطانیہ سے غائب ہونے والے فن پاروں کی لاہور کے کباڑیے کی دکان سے ملنے ایک دلچسپ کہانی بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں برطانیہ کی ایک طالبہ کے کھو جانے والے فن پاروں کے ملنے اور پھر ان فن پاروں کو واپس برطانیہ بھیجا
مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں فیشن کی طالبہ بیس سالہ گریس ہارٹ کا کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے وہ بہت اداس تھیں، جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ نے غلطی سے ان کے فن پارے ایک خیراتی دکان کو دے دیے ہیں
برطانوی طالبہ کے مطابق، ”میں اُس وقت یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اپلائی کر رہی تھی لیکن میرا پورٹ فولیو کہیں غائب ہو گیا تھا، خیراتی دکان میں کال کر کے معلوم ہوا کہ میرے فن پارے ہزار میل دور لاہور کی ایک دکان میں فروخت ہو گئے ہیں، یہ سن کر ہم پریشان ہو گئے تھے“
ان فن پاروں کو ڈھونڈنے کے لیے دونوں ماں بیٹی نے کئی ماہ تک تلاش جاری رکھی لیکن آخر کار انہوں نے ہار مان لی
بعد ازاں وہ اس وقت حیران ہو گئیں، جب 2022 میں نئے سال کے موقع پر ایک نامعلوم شخص نے انسٹاگرام پر انہیں میسج بھیجا، جس میں کہا گیا کہ انہیں لاہور کی ایک دکان سے ان کے فن پارے ملے ہیں
گریس ہارٹ کے فن پارے لاہور کے علاقے صدر بازار کے ایک کباڑیے کی دکان میں رکھے تھے، جہاں لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے فیشن فوٹوگرافر تاجور منیر کی ان کی فن پاروں پر نظر پڑی
تاجور منیر نے کہا کہ وہ ان فن پاروں کو دیکھ کر حیران تھے کہ کون اتنے حسین فن پارے کیسے پھینک سکتا ہے، یہ فن پارے کباڑیے کی دکان میں تقریباً دو سو روپے میں فروخت ہو رہے تھے
ان کا کہنا تھا کہ وہ ان جگہوں پر اکثر نہیں جاتے لیکن ان کی والدہ باقاعدہ یہاں کا وزٹ کرتی ہیں، کیونکہ ایسی جگہوں پر فن پارے، مجسمے اور دیگر بہت خوبصورت چیزیں مل جاتی ہیں
تاجور منیر نے کہا کہ وہ اپنے کمرے کی دیوار میں فن پارے لگانے کے لیے کچھ خوبصورت آرٹ کی تلاش میں تھے، اس دوران ان کی نظر گریس ہارٹ کے فن پاروں پر پڑی
انہوں نے بتایا کہ انہیں اس کباڑیے کی دکان سے تین اسکیچ بکس ملیں، جن میں ذہن کو جھنجھوڑ دینے والے فن پارے تھے، میں نے انہیں صرف دو سو روپے میں خرید لیا، جب میں گھر جا رہا تھا تو میں سوچنے لگا کہ کوئی اپنی اتنی محنت کیوں پھینک دے گا، ان تینوں کتابوں کے سرورق پر ایک ہی نام لکھا ہوا تھا اور وہ تھا گریس ہارٹ
تاجور منیر کہتے ہیں ”میں نے انسٹاگرام پر ان کا نام سرچ کیا اور انہیں ڈھونڈ لیا، میں نے انہیں میسج بھیجا کہ مجھے ان کا کام ملا ہے اور یہ حیرت انگیز ہے، میں یہ جاننے کے لیے متجسّس ہوں کہ انہوں نے اسے پھینک کیوں دیا“
تاجور منیر نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں مزید لکھا ”پھر گریس نے انسٹاگرام پر رپلائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کا پورٹ فولیو ہے اور انہیں اندازہ نہیں یہ ان سے برطانیہ میں کیسے کھو گئے“
ان کا کہنا تھا ”ہم دونوں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ لاہور میں کیسے پہنچے، بعد میں گریس نے اپنا ایڈریس شیئر کیا اور میں نے انہیں فن پارے واپس بھیج دیے“
ان کا مزید کہنا تھا ”یہ بہت عجیب بات ہے کہ ہم کس طرح کسی کی کہانی کا حصہ بن سکتے ہیں اور آرٹ ہمیں مختلف طریقوں سے جوڑتا ہے“
گریس ہارٹ نے بتایا کہ جب انہیں تاجور منیر کا میسج موصول ہوا تو پہلے انہیں لگا ان کے ساتھ کوئی مذاق کر رہا ہے، لیکن جب دونوں نے میسج کا تبادلہ کیا تو وہ بہت خوش تھیں
گریس کا کہنا تھا ”فن پارے کھونے کے ایک سال بعد تاجور منیر نے مجھ سے رابطہ کیا تھا، وہ میسج دیکھ کر میں بالکل حیران تھی“
تاجور منیر نے یہ فن پارے برطانیہ واپس بھیجے، جو گریس ہارٹ کو جولائی 2022 میں موصول ہوئے۔
گریس ہارٹ کا کہنا تھا ”ہم نے انسٹاگرام پر ایک دوسرے کو کئی میسجز کیے، ان کے بغیر مجھے اپنی آرٹ کی کتابیں کبھی واپس نہ مل پاتی“
آخر برطانیہ کی پرانی چیزیں پاکستان کیسے پہنچتی ہیں،اس حوالے سے لاہور کی اس کباڑیہ دکان کے مالک محمد انیس، جہاں فوٹوگرافر کو کھویا ہوا فن پارہ ملا، کا کہنا ہے کہ ان کی دکان میں وہ اشیاء فروخت کی جاتی ہیں جو برطانیہ کے خیراتی دکانوں سے خریدی گئی ہیں، ان کی دکان (جس کا نام بی۔یوکے کلیکشن ہے) لاہور کینٹ میں دہلی روڈ کے قریب واقع ہے
محمد انیس نے فن پارے اور دیگر اشیا دکھاتے ہوئے بتایا ”یہ تمام اسٹاک برطانیہ میں لوگوں نے پھینک دیے تھے جسے ہم کباڑ کہتے ہیں، بیرون ملک میں مقیم ہمارے وینڈرز ایسے خیراتی دکانوں سے یہ چیزیں خریدتے ہیں پھر یہ برطانیہ کے گوداموں میں جاتا ہے اور وہاں سے ہمارے پاس آتا ہے“
انہوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر الیکٹرونک اشیا اور کھلونے ہوتے ہیں
محمد انیس نے ایک وڈیو کلپ بھی شئیر کی، جس میں ان کی دکان میں سجاوٹ کی پلیٹیں، دیوار میں لگانے والے فن پارے موجود دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ اشیا پانچ سو سے ایک ہزار روپے میں خریدتے ہیں اور پھر انہیں یہاں لوگوں کو فروخت کرتے ہیں
محمد انیس نے بتایا کہ وہ تقریباً پندرہ سال سے یہ کاروبار کر رہے ہیں، ”ہم ایسی چیزوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو خوبصورت دکھیں، کبھی کبھار ہمیں ویج ووڈ اور رائل البرٹ کے کراکری سیٹ سے سنگل پیس ملتے ہیں، جن خواتین کے گھر میں یہ سیٹ ہیں اور جن کے پاس کچھ ٹوٹی ہوئی پلیٹیں ہیں، وہ ہمارے پاس ان کے دیگر پیس ڈھونڈنے آتی ہیں“
یاد رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے میں 2015 میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کا عنوان ’آپ کے پرانے کپڑے کہاں جاتے ہیں؟‘ تھا، اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح برطانیہ میں خیراتی اداروں کو عطیہ کیے گئے استعمال شدہ کپڑے پاکستان سمیت بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔