فلم دی گوٹ لائف، اصل حقیقت اور فلم میں کام کرنے والے عرب اداکار کی معافی۔۔ معاملہ کیا ہے؟

رپورٹ: امر گل

انڈیا کی ملیالی زبان میں بنائی گئی فلم ’دی گوٹ لائف‘ تنازعات کی زد میں ہے، اس فلم میں، انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن کو سعودی عرب کے صحرا میں تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور دکھایا گیا ہے۔ فلم میں کفالہ نظام پر تنقید کی گئی ہے، جس کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ غلامی جیسی صورتحال پیدا کرتا ہے، اور اس نے سعودی عرب اور دیگر ممالک میں نیٹ فلکس کے بائیکاٹ کے مطالبات کو جنم دیا ہے۔ پرو فلسطینی کارکنوں کا اس پر ایک مختلف مؤقف ہے۔

لیکن آخر سعودی عرب میں اس فلم پر اعتراض کی وجہ کیا ہے؟ دراصل اس فلم کے متعلق ایک نئی کہانی بھی سامنے آئی ہے۔

فیسبک پر فلموں کے متعلق ایک معروف گروپ ’فلم والے‘ پر ایک پوسٹ میں صفدر زمان لکھتے ہیں کہ آج کل یہ انکشاف تیزی سے لوگوں پر ظاہر ہو رہا ہے کہ مووی گوٹ لائف کی کہانی ادھوری ہے۔۔اور یہ ادھوری کہانی سعودی عرب کا غلط چہرہ پیش کر رہی ہے۔ اصل کہانی اس مووی کے ریلیز ہونے سے تین سال پہلے عبدالرحمٰن نامی ایک سعودی شہری نے ایک ٹی وی پروگرام میں سنا رکھی ہے۔ جو بعد میں اس نے اپنے یوٹیوب چینل پر بھی شیئر کی تھی اور اس حوالے سے ٹوئٹ بھی کر دی تھی۔ اس حوالے سے کچھ انڈین یوٹیوبرز نے بھی ویڈیوز بنا کر ہندی میں ایمانداری سے خلاصہ پیش کِیا ہے۔

اصل کہانی نجیب کے ایئر پورٹ پر اترنے، کمپنی کی طرف سے ریسیو نہ کرنے اور پھر ایک بدو کے ہتھے چڑھ کر پانچ سال تک اس کی غلامی میں بِتانے تک فلم کے مطابق بھی درست ہے، مگر جہاں آکے بد دیانتی کی گئی وہ نجیب کے فرار والے مقام سے شروع ہوتی ہے۔

حقیقت میں نجیب کے ہاتھوں اس بدو کا قتل سرزد ہو جاتا ہے۔ ہاتھا پائی کے دوران نجیب کے ہاتھ ایک لوہے کی سلاخ یا سریا لگ جاتا ہے، جس کی ضرب سے اس عرب کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

اس عرب کے بیٹے نجیب کے خلاف مقدمہ درج کرواتے ہیں اور نجیب کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مقدمہ چلتا ہے اور قاضی نجیب کو پانچ سال قید کی سزا سنا دیتا ہے۔(شاید بعداز قید کے سزائے موت بھی) اور سعودی عرب کے قانون کے مطابق ایک لاکھ ستر ہزار ریال دیّت بھی مقرر کر دی جاتی ہے، اگر ورثا اس کے بدلے معاف کرنا چاہیں۔

یہ واقعہ اس دور سے تعلق رکھتا ہے، جب انٹرنیٹ جیسی سہولت نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود یہ خبر پوری کہانی کے ساتھ سعودی عوام الناس تک پہنچی، عوام اس پردیسی کے متعلق سب جان کر بےحد رنجیدہ ہوئے انہوں نے نجیب کے حق میں ایک مہم شروع کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ اہم ہے کہ تب نجیب، مسلمان نہیں، بلکہ ہندو تھا۔

لوگوں نے نجیب کے لئے ایک لاکھ ستر ہزار کی رقم جمع کرنا شروع کر دی جو آج کی طرح آسان نہیں تھا۔ ایک ایک جگہ اور آدمی کے پاس جانا پڑتا۔ بالآخر کرتے کرتے مطلوبہ رقم جمع کر لی گئی۔ لوگوں نے جمع شدہ یہ رقم بطور دیت دینے کے لیے اس مقتول عرب کے بیٹوں سے رابطہ کیا اور ساتھ یہ بھی درخواست کی کہ اگرچہ اس کے ہاتھوں ان کے والد کی جان گئی مگر آپ منصفانہ سوچیں تو یہ اس نے اپنے دفاع میں کیا اور دوسرے یہ کہ اس پردیسی شخص نے اپنی زندگی کے پانچ سال ان کے والد کی جبری غلامی میں گزار دیئے تو اس کے ساتھ صلح رحمی والا معاملہ ہونا چاہیئے۔

سعودی عرب کے عوام کی اس اپیل پر مقتول کے بیٹوں نے نجیب کو معاف کرتے ہوئے جمع شدہ وہ دیت کی رقم بھی نجیب کو دے دی۔

کہا جاتا ہے کہ نجیب نے، جو اس وقت ایک ہندو تھے، اپنے لیے رقم جمع کرنے اور معافی کی اپیل کرنے والے عرب عام عوام کے اس عمل سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔

واضح رہے کہ ”آدوجیویتھم: دی گوٹ لائف“، ایک نئی فلم ہے جو ایک ملیالی انڈین تارک وطن مزدور کی مشکلات کو بیان کرتی ہے، جسے سعودی عرب میں بغیر تنخواہ کے ایک الگ تھلگ بکری چرانے والے کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس فلم نے سعودی ناظرین کی جانب سے شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم حقیقت کے برعکس ملک کی غلط تصویر پیش کرتی ہے

تقریباً تین گھنٹے کی یہ فلم، جو بلیسی آئیپ تھامس، جنہیں بلیسی کے نام سے جانا جاتا ہے، نے لکھی اور ڈائریکٹ کی ہے۔ فلم کی کہانی ایک نوجوان کیرالا کے شخص سے شروع ہوتی ہے، جسے اس کا سعودی ’اسپانسر‘ یا کفیل، صحرا میں تنہا زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے، جس کی تنہائی بالآخر اس کی خودی کو ختم کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں وقت کا احساس کھو جاتا ہے، یہاں تک کہ بولنے یا سوچنے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ فلم اس کے طویل اور مشکل سفر کی پیروی کرتی ہے جو اس کی فرار کی کوشش پر ختم ہوتی ہے۔

عرب عوام کی طرف سے سوشل میڈیا پر فلم اور نیٹ فلکس، جس پر یہ فلم دستیاب ہے، دونوں کے بائیکاٹ کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کیونکہ سعودی عوام اس فلم پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا رہے ہیں۔

فلم دی گوٹ لائف کو سعودی عرب میں اس کی منفی عکاسی کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس فلم میں ایک بھارتی مزدور، نجیب محمد، کی کہانی بیان کی گئی ہے جو سعودی عرب میں ایک بکری چَرانے والے کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ فلم میں سعودی کفیل کو ایک ظالم اور بے رحم شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو اپنے کارکنوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتا ہے۔

سعودی عرب میں اس فلم کے خلاف احتجاج کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ ملک کی منفی تصویر پیش کرتی ہے، جس میں مزدوروں کے حقوق کی پامالی دکھائی گئی ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ فلم میں سعودی معاشرے اور کفیل نظام کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے، جو حقیقت سے دور ہے۔ جب کہ بڑا اعتراض حقیقی کہانی کے برعکس من گھڑت کہانی پیش کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ، اس فلم کے اداکار طالب البلوشی کے سعودی عرب میں داخلے پر پابندی کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں، جنہیں بعد میں اداکار نے رد کر دیا۔

اس فلم کا زیادہ تر حصہ، جس میں بھارتی اداکار پرتھوی راج سوکوماران نے کام کیا ہے، اردن اور الجزائر میں فلمایا گیا تھا – ایسے ممالک جن کے میڈیا کے مناظر میں عام طور پر فلمسازوں اور صحافیوں کے لیے بہت کم آزادی ہوتی ہے۔ ایک اور مقام کیرالا، بھارت تھا۔

الجزائر کی جانب سے فلم کو اپنی سرزمین پر فلمانے کی اجازت دینا بھی کچھ شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا، ایک سوشل میڈیا صارف نے ایکس X پر اس فلم کے حوالے سے سعودی عرب کی زبردست توہین کا شکوہ کیا اور کہا کہ الجزائر عام طور پر فلموں کو یہاں فلمانے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن جب کسی ایسے ملک کو بدنام کرنے کی بات آتی ہے جس نے تاریخی طور پر ہماری آزادی میں ہمارا ساتھ دیا ہے، تو اس نے فلم کے ڈائریکٹر کی حمایت کرنے میں جلدی کی۔

اگرچہ اس نے سعودی مزدوروں کے استحصال کو اجاگر کرنے کے لیے بین الاقوامی توجہ اور تعریف حاصل کی ہے، لیکن فلم کے مقامی ردعمل میں شدید منفی جذبات پائے گئے ہیں۔ آن لائن ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اسے سعودی عرب کے خلاف سازش کے نظریے کے طور پر دیکھتے ہیں اور فلم کے تخلیق کاروں پر الزامات لگاتے ہیں کہ وہ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں اور سعودی عرب کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کچھ نے بھارت کے ساتھ مل کر فلم بنانے کے لیے کئی عرب ممالک کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے، جبکہ دیگر نے نیٹ فلکس کے ارادوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔

یہ فلم بھارتی مصنف بنیامین کی بیسٹ سیلر کتاب ’گوٹ ڈیز‘ پر مبنی ہے، جو ایک بھارتی تارک وطن نجیب محمد کی حقیقی کہانی سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔

اگرچہ ’گوٹ لائف‘ کو نیٹ فلکس پر پیش کیے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن سعودی عرب سے اس کے خلاف ردعمل حالیہ دنوں میں اس وقت شدت اختیار کر گیا جب فلم میں عربی سب ٹائٹلز شامل کیے گئے جو خلیجی ناظرین تک پہنچ گئے۔ فلم کی نمایاں کامیابی اور عالمی سطح پر پیدا ہونے والی گفتگو نے عرب دنیا کی توجہ بھی حاصل کی۔

منگل کے روز، اردنی اداکار عاکف نجم، جو ’دی گوٹ لائف‘ میں ایک امیر عرب شخص کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر سعودی عوام سے عوامی طور پر معافی مانگی، اور کہا کہ انہیں فلم کی کہانی کا علم نہیں تھا جب انہوں نے اس میں حصہ لیا۔ انہوں نے لکھا، ”اگر میں پوری کہانی جانتا تو کسی بھی حالت میں فلم میں حصہ نہ لیتا۔“

رپورٹ: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close