وہ اُس وقت نوجوان تھے۔ کام کی تلاش میں بمبئی کا رُخ کیا۔ جیب خالی تھی، سارا دن انسانوں کے اس جنگل میں بھٹکنے کے بعد جب رات کے سائے گہرے ہوئے تو سونے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں وہ قریب ہی شہر کی ایک مصروف شاہراہ گرانٹ روڈ کے ایک باغ میں جا نکلے
شدید تھکن کی وجہ سے وہ کچھ ہی لمحوں میں نیند کی گہری آغوش میں جا چکے تھے۔ صبح ہوئی تو آنکھیں ملتے ہوئے دائیں بائیں دیکھا۔ سڑک کے دوسری جانب ایک سنیما گھر کے ہورڈنگ پر ایک ادھوری تصویر بنی ہوئی تھی جب کہ اس پر کام کر رہے مصور ناشتہ کرنے کے لیے قریبی ڈھابے پر گئے ہوئے تھے۔
وہ نوجوان ہورڈنگ بنانے کے لیے وہاں رکھے گئے لکڑی کے چبوترے پر چڑھا، رنگ اور بَرش دیکھے تو تصویر مکمل کرنے کی ٹھان لی۔ چند ہی لمحوں بعد جب اُس ہورڈنگ پر کام کر رہے مصور واپس آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نوجوان نے کسی قسم کی مدد کے بغیر تصویر کو بہت حد تک مکمل کر لیا تھا۔
یوں اس فلمی اشتہار کی ادھوری تصویر کو مکمل کرنا نہ صرف ان کی پہلی ملازمت کی وجہ بنا بلکہ برصغیر پاک و ہند کے عظیم مصور مقبول فدا حسین کے بے مثل فنی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا، جو آگے چل کر ایم ایف حسین کے نام سے مشہور ہوے۔
نوجوان مقبول نے اگلے چند برس بچوں کے لیے فرنیچر بنانے والی ایک کمپنی میں کام کیا، جس نے ان کے فن کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ فرنیچر پر بچوں کے لیے کبھی گل بُوٹے تو کبھی مناظرِ فطرت یا کارٹون پینٹ کیا کرتے۔
مقبول فدا حسین 15 ستمبر 1915 کو انڈین ریاست مہاراشٹر کے شہر سولاپور کے قصبے پنڈھارپور میں پیدا ہوا۔ دریائے بھیما کے کنارے آباد یہ قصبہ ہندوؤں کے لیے غیرمعمولی تقدس کا حامل ہے، جہاں ہر سال لاکھوں ہندو یاتری آتے ہیں۔
مقبول کا خاندان بنیادی طور پر انڈین ریاست گجرات سے تعلق رکھتا تھا، جس نے یمن سے ہندوستان ہجرت کی تھی۔ گھرانہ مذہباً سلیمانی بوہرہ تھا جو داؤدی بوہروں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی۔ انہیں بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا۔ انہوں نے ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کر دیئے تھے۔
فدا حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی جانب تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔ ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کے باپ ہی نے بنا کر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے باپ کو بتایا۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔ ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو، ان کے باپ کے ان الفاظ کے ساتھ یہاں سے حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
سال 1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی اور اس کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یونہی اور آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔
اُن کا داخلہ کمسنی میں ہی گجرات کے شہر بروڈا (موجودہ وڈودرا) کے ایک مدرسے میں کروا دیا گیا تھا، جہاں اُن کی خطاطی کے فن پاروں کو دیکھ کر رنگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ وہ رنگوں سے کھیلنے اور اُن کی زباں سمجھنے کی کوشش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ یوں وہ اُن سے باتیں کرتے کرتے وہ رنگوں کی دنیا کے سحر میں کھو گیا۔
شوق جب جنون میں تبدیل ہوا تو ممبئی کا رُخ کیا اور چند ہی برسوں میں سنیما ہورڈنگ بنانے والے اس نوجوان نے رنگوں کی دنیا میں مستقل ڈیرہ ڈال دیا
حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش 1947ء میں ہوئی تھی۔ پچاس کی دھائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ 60 کے عشرے سے انہیں ہندوستان کا نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔
انڈیا کے جریدے ’پلیٹ فارم‘ میں شائع ہونے والے ایک اور مضمون میں ایم ایف حسین کی کہانی اُن کی زبانی کچھ یوں بیان کی گئی ہے، ”میں جب چھ برس کا ہوا تو رنگ و برش میری زندگی کا لازمی جزو بن گئے۔ میرے والد ایک ٹیکسٹائل مل میں اکاؤنٹنٹ تھے اور ہم اندور میں رہتے تھے۔ وہاں کوئی گیلری یا میوزیم نہیں تھا چناں چہ اس وقت تک تو کسی سے متاثر نہیں ہوا بلکہ صرف مصوری کرنے کا شوق تھا۔ سال 1948 میں تقسیم کے بعد میں نے اپنی پہلی تصویر فروخت کی۔“
تقسیمِ برصغیر کے دنوں نے اس کے کریئر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس نے سال 1948 میں ’پراگریسیو آرٹسٹس گروپ‘ میں شمولیت اختیار کی۔ آن لائن پبلشنگ کے ادارے ’میڈیم‘ کے لیے دیویا راماچندرن اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں، ”یہ فنکار 14 اگست 1947 کو انڈیا اور پاکستان کی ‘تقسیم‘ کو، جس میں مذہبی تصادم کے دوران بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، دسمبر 1947 میں پراگریسیو آرٹسٹس گروپ کی تشکیل کی وجہ قرار دیتے تھے اور تقسیم کو انڈیا کے علاوہ فنِ مصوری کو جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کے تناظر میں بھی فیصلہ کن قرار دیتے تھے۔“
اس کے بعد تصاویر بنانے کے لیے کبھی وہ ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں کا رُخ کرتا تو کبھی راجھستان کے صحراؤں کی خاک چھانتا۔ اس جہاں گردی کے دوران بہت سے مناظر نے اس کے ذہن پر گہری چھاپ ڈالی، وہ مختلف طرح کے لوگوں سے ملا، ان کی کہانیاں سنیں، جنہوں نے اسے فنکارانہ روایات سے روشناس کرایا۔
1950 کی دہائی نوجوان مصور کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئی جب انہوں نے بیرون ملک کا پہلا دورہ کیا۔ وہ سوئٹزرلینڈ کے شہر زیوریخ گئے مگر ہمیشہ کی طرح ننگے پیر
مقبول فدا حسین کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ ننگے پاؤں رہا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔
یہ اس کے فن پاروں کی بیرونِ ملک پہلی نمائش تھی۔ اس نمائش کے دوران اُس کی اپنے عہد کے عظیم مصوروں پیبلو پکاسو، ہنری میٹسی اور پال کلِی سے ملاقات ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ’انڈیا کے پکاسو‘ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے ایم ایف حسین پکاسو سے زیادہ پال کلِی کے فن کے مداح تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایم ایف حسین کی ایک یادگار تصور پکاسو کے فن پارے ’دی اولڈ گٹارسٹ‘ سے متاثر ہے جس میں ایک خاتون ستار بجاتے ہوئے دکھائی گئی ہیں۔
ایم ایف حسین نے مصوری کے علاوہ مجسمہ سازی، ڈرائنگ اور فلم سازی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا کھُل کر اظہار کیا جب کہ برش کے علاوہ قلم سے بھی ان کا ناتا ہمیشہ جڑا رہا۔
انہیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں ’پدم بھوشن‘ بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے، ان کا شمار بھی ایک مشکل ہے۔ ایک وقت ایسا آیا جب ان کی شہرت ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک جا پہنچی اور انہیں ’ہندوستان کا پکاسو‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ دریں اثناء راگ مالا سیریز کے لئے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے بیرون ملک ہندوستان کی ثقافت، کلچر اور مذہبی روایات کو اپنے انداز میں متعارف کرایا۔ وہ ہندوستان کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے، جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔ اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار، جس کا نام انہوں نے ’ہارس اینڈ وومن‘ رکھا تھا، لندن میں ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔
مقبول فدا حسین کی تین پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32 کروڑ روپے قیمت لگی۔ ان کی ایک پینٹنگ جو ایک خاتون اور ایک گھوڑے پر مشتمل تھی، 1.23 کروڑ میں نیلام ہوئی۔ ایم ایف حسین کا ایشیا کے ان امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتا تھا جن کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے۔ انہیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپولو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا، جہاں انہیں فوربس میگزین نے ’ہندوستان کا پکاسو‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔
یورپ کے سفر میں وہ اپنی مترجم کو دل دے بیٹھے
ایم ایف حسین نے زیوریخ کے بعد دنیا بھر کا سفر کیا۔ چین اور یورپی ہم عصروں سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ اُسی دور میں شروع ہوا۔
یہ سال 1956 کا ذکر ہے جب مصور اپنی تصویروں کی نمائش کے لیے چیک رپبلک کے دارالحکومت پراگ گئے اور اپنی مترجم ماریہ کی محبت میں ایسا گرفتار ہوئے کہ اس کو اپنی تمام تصاویر تحفتاً پیش کر دیں۔
انہوں نے اپنی اس محبت کا اظہار اپنے فن پاروں میں عورت کے مختلف روپ مصور کر کے کیا۔
انڈین اخبار ’ڈی این اے‘ مصنف کشور سنگھ کی کتاب ’ایم ایف حسین: لیجنڈ کا سفرِ زیست‘ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں اس پریم کتھا کے بارے میں لکھتا ہے، ’نمائش جب شروع ہوئی تو سب کے لیے یہ باعثِ حیرت تھا جب (ایم ایف) حسین نے یہ اعلان کیا کہ وہ یہ تصویریں فروخت نہیں کر رہے بلکہ یہ سب کی سب ماریہ کو تحفے میں دے رہے ہیں۔ سال 1957 میں ایئرانڈیا نے جب پراگ میں اپنے دفتر کی دیواروں کو مصور کرنے کے لیے مصور کی خدمات حاصل کیں تو انہوں نے فی الفور یہ پیشکش قبول کر لی اور یوں دونوں کا تعلق برقرار رہا۔ وہ پراگ آتے جاتے رہے۔ انہوں نے (ماریہ کو) شادی کی پیشکش بھی کی، جنہوں نے اس پیشکش پر غور کیا اور یوں دونوں نے طویل فاصلے کی اس محبت کو قائم رکھا اور دونوں ایک دوسرے کو محبت اور جنوں سے خطوط لکھتے رہے۔
انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’آسمان کی وسعتوں کو تھام لو کیوں کہ میں اپنے کینوس کی وسعت کے بارے میں آگاہ نہیں ہوں۔‘
دونوں کی یہ پریم کہانی اس وقت دردناک انجام سے دوچار ہوئی جب ماریہ نے سال 1968 میں شادی کر لی۔ وہ دونوں مگر رابطے میں رہے۔ سال 2006 میں اس پریم کہانی کے تقریباً نصف صدی بعد ایم ایف حسین کو نئی دلی میں ایک روز ان کی رہائش گاہ پر اُن کی تصویروں کا کنٹینر موصول ہوا جس کے ساتھ ایک مختصر رقعہ تھا جس میں لکھا تھا کہ ’میں یہ تحفہ تمہیں واپس کرنا چاہوں گی جو تم نے کبھی مجھے دیا تھا۔ یہ میری نہیں ہیں بلکہ انڈیا کی ہیں۔‘
انڈیا کے مؤقر اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے کئی دہائیوں تک منسلک رہنے والے سینیئر صحافی خالد محمد کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایم ایف حسین نے کہا تھا کہ ’میں نے ماریہ کے جو چھ پورٹریٹ بنائے تھے، وہ اس نے مجھے واپس نہیں کیے۔ اس نے مجھے میرا آرٹ واپس کیا ہے، میری محبت نہیں۔‘
ایم ایف حسین اگرچہ شادی شدہ تھے اور سال 1941 میں اُن کی شادی ہوئی تھی جس سے ان کے چھ بچے تھے جن میں سے اویس حسین اور شمشاد حسین نے اپنے والد کے نقشِ پا پر چلتے ہوئے مصوری کا انتخاب ہی کیا۔ اویس حسین نے تو فلم سازی میں بھی قدم رکھا مگر اس (شادی) سے ان کی ماریہ سے محبت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
اور جب ایم ایف حسین مادھوری ڈکشٹ پر فدا ہوئے
فلم ایک ایسا میڈیم رہا جو بچپن سے ہی ایم ایف حسین کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ ایف ایم حسین کا کہنا تھا ”فلم ایک مکمل میڈیم ہے کیوں کہ اس میں آرٹ کی تمام اصناف یکجا ہو جاتی ہیں۔ آرٹ فلم کے بغیر نامکمل ہے۔“
انہوں نے سال 1967 میں فلم ’تھرو دی آئیز آف اے پینٹر‘ بنائی، جسے بہترین تجرباتی فلم کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ فلم ناصرف برلن فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی بلکہ اس نے گولڈن بیئر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔
سال 2004 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مناکشی، اے ٹیل آف تھری سٹیز‘ میں تبو اور کنال کپور مرکزی کرداروں نظر آئے جب کہ یہ فلم کینز فیسٹیول میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
ایم ایف حسین فلم اداکارہ سری دیوی کے بہت بڑے مداح تھے، لیکن انہیں سنہ 1994 میں منعقدہ ’فلم فیئر ایوارڈز‘ کی تقریب میں سال کی بہترین اداکارہ کے ایوارڈ کے لیے ایک ایسی اداکارہ کے نام کا اعلان کرنا پڑا جن کی انہوں نے ایک بھی فلم نہیں دیکھی تھی۔
وہ اپنی خود نوشت ’ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی‘ میں لکھتے ہیں: ’سال 1994، مقام جوہو سنتور ہوٹل کا سمندری کنارہ۔ فلم فیئر ایوارڈز کی جگمگاتی رات۔ جیا بچن اور پرمیشور گودریج کے ساتھ ایم ایف اس ’ٹنسل ٹاؤن‘ کے شاندار تماشے میں پہنچے۔ بالی وڈ کی جگمگاتی روشنیاں پہلی بار ایم ایف پر پڑیں، چمک اٹھے۔
’اسٹیج پر بلایا گیا۔ سال کی بہترین اداکارہ کے نام اعلان کرنے۔ لفافہ کھولا، نام پڑھا، مادھوری ڈکشت۔۔ پھر کچھ دیر خاموش، کیوں کہ اس نام کی ایکٹرس کی فلم ایم ایف نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ ہاں ’دھک دھک‘ کا بازاری گانا لاؤڈ اسپیکر سے کانوں میں پڑتا رہا ہے۔
’ان دنوں ایم ایف کی نظر صرف سری دیوی کے ناچ گانے پر لگی ہوئی ہے، پھر بھی ہمت کی، ایک گہری سانس بھری اور گرج کر کہا — ’اینڈ دا ایوارڈ گوز ٹو دھک دھک گرل مادھوری ڈکشت‘ — تالیاں گونج اٹھیں، مادھوری اسٹیج پر آئیں۔ ایم ایف کے نزدیک، آرٹ اور سینما کی ایک جھلک آرٹسٹ اور ماڈل کی پل بھر کی اداکاری، کیمروں کی کلک کلک۔
’لوگوں کی آنکھیں مادھوری اور مقبول پر جم گئیں۔ یہ ہزاروں لاکھوں آنکھیں آرٹ اور سینما کی ان دو انوکھی پرچھائیوں سے آج تک ہٹی نہیں اور ایسا لگتا ہے برسوں تک ہٹ نہیں پائیں گی۔ حالاں کہ ایم ایف اور مادھوری، اس دو منٹ کی اداکاری کے بعد ایک سال تک نہیں ملے اور نہ ہی دونوں کو ملنے کا خیال تک آیا۔‘
’کسی نے ایم ایف سے کہا، تم اس سینما گھر کی نرتکی کو ایک بار دیکھو تو صحیح۔ ایم ایف نے ناک بھنویں چڑھاتے بڑی مشکل سے ٹکٹ لیا۔ ایم ایف کی ہندی فلم صرف ناچ گانے تک۔ بہت پہلے ممتاز کا چلبلا پن اور اس سے پہلے گیتا بالی کی بالی عمریا، ناچ نچنیا اور ابھی ابھی تک سری دیوی کی ’چاندی‘ کا تانڈو جسے دیکھنے ایم ایف نے کوئی 15 بار ٹکٹ کٹایا۔
ایم ایف حسین کو خوبصورت عورتیں ہمیشہ متاثر کرتی رہیں جن میں نمایاں ترین بالی ووڈ کی بے مثل اداکارہ مادھوری ڈکشت ہیں، جنہیں انہوں نے ناصرف اپنی بہت سی تصاویر میں پینٹ کیا بلکہ ان کے ساتھ ایک فلم ’گاجا گامنی‘ بھی بنائی۔ اس فلم میں ایک بار پھر عورت کے مختلف روپ نظر آئے۔
ایف ایم حسین سال 2000 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے ہدایت کار کے علاوہ مصنف بھی تھے، جب کہ فلم کے مرکزی کرداروں میں مادھوری، نصیرالدین شاہ اور شاہ رُخ خان تھے۔
صحافی ظہور حسین اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ یہ 1990 کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ بالی وڈ کے شہر ممبئی میں فلمی دنیا سے لے کر عوامی حلقوں میں معروف مصور مقبول فدا حسین معروف بہ ایم ایف حسین کے اداکارہ مادھوری دکشت پر فدا ہونے کے چرچے زبان زد عام ہو گئے۔
اس میں اچنبھے کی بات یہ ہے کہ دونوں کی عمر میں انیس بیس کا نہیں بلکہ دادا پوتی جتنا فرق تھا۔ حسین 80 سال کے تھے اور مادھوری محض 28 سال کی۔
مقبول فدا حسین اپنی خود نوشت ’ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے مادھوری سے دل کے تار فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کے گانے ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ میں مادھوری کے ’کمر توڑ جھٹکوں‘ سے جڑ گئے۔
ایم ایف حسین نے لکھا ہے: ’آرٹ اور سینما کو تو ایک دن کسی نہ کسی موڑ پر ملنا ہی تھا۔ آرٹ کی عمر پتھر کے زمانے میں غاروں کے اندر بیلوں اور سانڈوں کی تصویروں سے بھی لمبی ہے اور سینما تو کل کی چھوری۔
’ایک دن یہ چھوری لال دوپٹہ لہراتی، مٹکتی بازار سے گزری۔ گنگناتی چلی جا رہی ہے — ’دیدی تیرا دیور دیوانہ ہائے رام کڑیوں کو ڈالے دانہ‘ — اچانک ایک پیڑ سے بندھے بیل کو لال رنگ دکھا۔ وہ اپنے بندھن توڑ لال دوپٹے کی طرف لپکا۔ چھوری بھاگ کر سینما گھر کے ہال میں گم ہو گئی۔ ہاؤس فل، فلم کا نام ’ہم آپ کے ہیں کون‘ ایک سال سے چل رہی ہے اور وہی گانا — ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ — پر مادھوری کا ناچ۔ پانچ قدم پیچھے اور کمر کے جھٹکے۔ یہ پانچ قدم ناچ گھر کے نائیکہ کے نہیں بلکہ مندر کی دیوداسی کے۔
معروف کشمیری مصنف غلام نبی خیال نے سری نگر سے شائع ہونے والے ماہانہ جریدے ’شیرازہ‘ کے مقبول فدا حسین نمبر میں لکھا ہے: ’یہ واقعہ اپنی مثال آپ ہے کہ عاشق مقبول فدا حسین نے مادھوری ڈکشت کے جادو کو اپنے سر چڑھا کر فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ 67 بار دیکھی اور ایک بار تو انہوں نے مادھوری کی ایک اور فلم ’آ جا نچلے‘ کسی اور کی موجودگی اور شور شرابے کے بغیر دیکھنے کی غرض سے ممبئی کا ایک پورا سینما ہال بک کر لیا۔‘
کہتے ہیں کہ ایم ایف حسین نے ’گج گامنی‘ فلم مادھوری کو اپنے خوابوں میں حقیقت کا روپ دینے کی غرض سے خود بنائی تھی
بھارتی خاتون مصور ایلا پال مقبول فدا حسین کی سوانح عمری ’حسین — پورٹریٹ آف این آرٹسٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ جب حسین پہلی بار ’ہم آپ کے ہیں کون‘ دیکھنے گئے تو ابھی فلم کو چلے 20 منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ سینما ہال سے باہر نکل آئے۔ خدا ہی جانے کہ انہیں کیا سوجھی کہ وہ ایک مرتبہ پھر یہ فلم دیکھنے چل پڑے۔
حسین نے اس بار تھوڑا صبر سے کام لیا۔ جوں ہی انہوں نے اس فلم کے گانے ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ میں مادھوری کو مٹکتے دیکھا تو وہ جسم کی ان حرکات کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ بس پھر کیا تھا حسین اس فلم کو بار بار دیکھتے رہے۔‘
ایلا پال نے لکھا ہے: ”میری حسین سے آخری ملاقات 2009 میں دبئی میں ہوئی۔ جب میں نے ان سے مادھوری کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میں عشق میں دیوانہ تھا۔
’میں اس کا مالک نہیں بننا چاہتا تھا، لیکن ایک عجیب و غریب انداز میں، میں اسے کھا جانا چاہتا تھا — اس کی جنسیت — اور جانوروں کی جبلت پر قابو پانے کا واحد دستیاب طریقہ اسے سیلولائڈ میں قید کرنا تھا۔ وہ میرے تخلیقی عمل کا ایک اہم حصہ تھیں۔‘
ایلا پال کے مطابق جہاں میڈیا حسین کی فلم ’گج گامنی‘ سے قطعی طور پر لاتعلق نظر آیا تھا، وہیں اس نے ان کی مادھوری سے دل لگی میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی تھی۔
وہ آگے لکھتی ہیں: ’مادھوری کا جادو حسین پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ انہوں نے مادھوری کی ہر ایک ایوارڈ تقریب میں شرکت کی اور وہ مور کی طرح اسٹیج پر ان کے ساتھ نمودار ہو جاتے تھے۔ مجھے شبہ ہے کہ انہیں یہ بھرم تھا کہ وہ فلمی برادری کا حصہ بن چکے ہیں، مگر جوں ہی مادھوری نے ایک غیر مقیم بھارتی یا این آر آئی (سری رام مادھو نینے) سے شادی کی اور امریکہ ہجرت کر گئیں تو فلم والے حسین کو جلد بھول گئے۔‘
ایلا پال کے مطابق حسین کا عشق یکطرفہ تھا، مادھوری ان سے پیار نہیں کرتی تھیں لیکن انہیں اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
’سوال یہ ہے کہ کیا مادھوری بھی حسین سے عشق کرتی تھیں؟ نہیں، وہ نہیں کرتی تھیں۔ میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں۔ مادھوری انتہائی باتدبیر اور اثرپذیر تھیں، مگر وہ عشق میں مبتلا نہیں تھیں۔
’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک عورت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک آرٹسٹ کی زندگی میں اہم ہو گئی ہے، وہ بھی جب کوئی حُسین کے جیسا مشہور ہو، تو وہ اس احساس سے لطف اٹھانا شروع کرتی ہے اور نادانستہ طور پر ہی صحیح ایک خاموش ساتھی کا کردار ادا کرتی ہے۔‘
ایلا پال نے لکھا ہے ’میں نے سنہ 2007 میں لندن میں ایک بار حسین سے پوچھا کہ اب آپ کا کیا منصوبہ ہے۔ تو ان کا جواب تھا — آپ جانتی ہو کہ میں منصوبہ بندی نہیں کرتا۔ چیزیں ہو جاتی ہیں اور لوگ مل جاتے ہیں۔ وہ گانے لگے — میں تو رستے سے جا رہا تھا۔ میں تو سیٹی بجا رہا تھا، مجھ کو مادھوری ملی تو میں کیا کروں؟‘
ایم ایف حسین اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں: ’گج گامنی کی ریلیز کے کئی سال بعد آرٹسٹ برادری مجھ سے پوچھا کرتی تھی کہ وہ (مادھوری) آج بھی آپ کی پینٹنگز کی زینت کیوں بنی ہے، ہمیں تو آج کل وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ میرا ان کو جواب ہوتا تھا کہ مادھوری نے ڈاکٹر سری رام نینے سے شادی کی ہے اور کولوراڈو چلی گئی ہیں۔ وہ بہت دور ہیں لیکن پھر بھی قریب۔‘
’اب دیکھیے ایم ایف کا آرٹ کس بری طرح فلم سے ٹکراتا ہے۔ فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کوئی بڑی فلم نہیں، لیکن اس میں مادھوری ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور یہ بہت بڑی بات ایم ایف کو ایسی لگی کہ ہر شام، ہر شہر، ہر ملک، دنیا بھر میں ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کے ٹکٹ کٹاتے رہے۔
’لوگ سمجھے کہ ایم ایف سٹھیا گئے ہیں۔ غلط، ایسا ہونا تھا تو 20 برس پہلے ہوا ہوتا۔ اخباروں کے کالم بھرنے لگے، کہانیاں بننے لگیں، افواہیں پھیلنے لگیں، اگر ایم ایف 30 کے ہوتے اور مادھوری 20 کی تو آگ لگ جاتی۔ آگ لگے یا نہ لگے لیکن ایم ایف مادھوری کو سلور اسکرین پر مہینوں دیکھتے رہے اور 100 فٹ لمبے کینوس پر مادھوری سے رنگوں میں باتیں کرتے رہے۔‘
ایم ایف حسین نے اپنے برش اور رنگوں کی مدد سے مادھوری ڈکشت کی درجنوں تصویریں بنائی تھیں جن میں سے اکثر ایسی ہیں جن میں مادھوری کا چہرہ واضح نہیں ہے۔
ایم ایف حسین لکھتے ہیں: ’شروع شروع میں مادھوری سے کسی صحافی نے پوچھا کہ یہ حسین کیا ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ہر پینٹنگ میں بس مادھوری ہے، کہاں ہے؟ چہرہ ہی غائب، کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے تصویروں میں۔ تو مادھوری نے جواب دیا — ’حسین جی میری پہچان نہیں کرا رہے بلکہ میرا وجود منوا رہے ہیں۔‘
’ایک اور عجیب بات، ان دنوں ایم ایف سے پوچھا کہ مادھوری سے ملنا کیوں نہیں چاہتے؟ تو جواب دیا کہ ’اسکرین امیج‘ سے جو میری پینٹنگ میں بھارتیہ ناری کا ایک روپ ابھر کر آیا ہے پتہ نہیں اصل زندگی میں وہ ہے کہ نہیں۔
’ایک دن مادھوری کے ہاں سے بلاوا آیا تو ان سے ملنے، گھر گیا۔ گیا تھا چائے پر لیکن صبح کا ناشتہ تو کیا اور شاید دوپہر کے کھانے تک بات پہنچ جاتی، مادھوری کی ’راجہ‘ فلم کی شوٹنگ دو گھنٹے لیٹ ہو چکی ہے۔ چلتے چلتے ایک ایسی بات چھڑی جس نے اس آرٹ اور سینما کے ملن میں جان ڈال دی۔
’جیسا کہ ایم ایف حسین کچھ نہ کچھ ایسی حرکت کرنے سے باز نہیں آتے، جس کی یاد دیر تک چلے، بلکہ حقیقت بن کے سامنے آ جائے۔ ایم ایف کی ایک عادت ہمیشہ ہاتھ میں لمبا برش۔ احمد آباد کے سینما گھر میں ’ہم آپ کے ہیں کون‘ فلم ایم ایف دس پندرہ کالج اسٹوڈنٹس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جیسے ہی مادھوری اسکرین پر آئیں، ایم ایف نے اپنا لمبا برش اسکرین کے اسٹیج پر پھینکا، جیسے پھول چڑھایا ہو۔
’وہ برش کچھ دنوں بعد تھیئٹر کے مینیجر نے ایم ایف کو لوٹایا اور کہا — ’تم ہی جب مادھوری سے ملو تو اپنے ہاتھ سے پیش کر دینا‘ — وہی کیا، پہلی ملاقات پر جاتے وقت وہی برش مادھوری کے ہاتھوں تھمایا تو فوراً مادھوری نے کہا — ’حسین جی یہ برش میرے پاس چھوڑے جا رہے ہو، دیکھنا ایک دن کہیں میں پینٹنگ نہ کرنے لگ جاؤں‘ — ایم ایف کی حاضر جوابی بھی کم نہیں، کہا — ’اگر تم پینٹنگ کرنا شروع کرو گی تو میں بھی پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں، ایک دن کہیں تم پر فلم نہ بنا بیٹھوں!‘
’یہ کہا تھا، سات مئی سنہ 1995 کو اور 10 جولائی سنہ 1998 کو محبوب اسٹوڈیو میں ایم ایف کی فلم کا مہورت شارٹ دینے کھڑی ہیں، مادھوری ڈکشت۔ ایک بھارتیہ ناری کے کئی روپ میں، پریم چند کی نرملا، ٹیگور کی ابھی ساریکا، منٹو کی سندھو، کالی داس کی شکنتلا، دال منڈی کی نیترہین (نابینا) سنگیتا، ستارا (مہاراشٹر کا ایک ضلع) کی نور بی بی اور اکیسویں صدی کی مونیکا۔
’بس ’گج گامنی‘ فلم بن گئی، وہ بھی بالی وڈ کے فلم اسٹوڈیو میں۔ سب تعجب میں۔ فلم ختم ہونے پر سب سے پہلے یش چوپڑا کا فون آیا اور کہا — ’بدھائی ہو بدھائی۔ بدھائی فلم بنانے کی نہیں بلکہ بالی وڈ سے صحیح سلامت باہر نکلنے کی۔‘
ایف ایم حسین اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’گج گامنی‘ بنانے کے بعد انہیں اپنے اندر کے ’مصور مقبول‘ نے جگایا۔ ’جب حسین محبوب اسٹوڈیو سے بغل میں فلم ’گج گامنی‘ کے کیم دبائے باہر نکلے تو لوگوں کی ایک بھیڑ۔ بھیڑ میں ایم ایف کو مقبول دکھائی دیا۔
’ایم ایف نے پکارا: ’ارے او مقبول، تُو تو ویسا کا ویسا ہی ہے، پینٹر کا پینٹر ہی، مجھے دیکھ، میرے آس پاس کی بھیڑ۔‘
مقبول: ’دیکھ رہا ہوں، کیا کوئی نیتا (سیاسی رہنما) تو نہیں بن گئے؟‘
ایم ایف: ’نیتا نہیں، ابھینیتا (اداکار) ضرور بن گیا ہوں۔ لوگ مجھے ایم ایف کے کردار میں دیکھنا چاہتے ہیں، جیسے ایم جی آر، این ٹی آر یا آج کل ایس آر کے۔‘
مقبول: کیا آپ سلور اسکرین کے سپر اسٹار؟‘
ایم ایف: ’نہیں نہیں، سلور اسکرین کا نہیں، میری اداکاری سلور اسکرین کی دو تین گھنٹوں والی نہیں، میرا رنگ منچ وشال ہائی سوسائٹی کے بھڑکیلے رنگ والا، نان اسٹاپ ریویو۔‘
مقبول: ’یعنی ایک لحاظ سے شو بزنس، لیکن یہ بھولنا نہیں کہ تمہارے شو بزنس کے پردے کے پیچھے، مقبول نام کا ایک آرٹسٹ ہمیشہ ہاتھ میں ایک لمبا برش لیے بیٹھا ہے۔‘
ایم ایف: ’بالکل ٹھیک میرے بھائی، میں اس شو بزنس میں کب کا کھو گیا ہوتا اگر تم میرے پیچھے بیٹھے، اپنے برش سے جگاتے نہ رہتے۔‘
مقبول: ’یہ بغل میں کیا دبائے ہو؟‘
ایم ایف: ’گج گامنی۔‘
مقبول: ’اور مادھوری کہاں گئی؟‘
ایم ایف: ’گئی اپنے سسرال۔‘
ایم ایف حسین کا انتقال
ایم ایف حسین 2006 میں انتہا پسند ہندوؤں کی دھمکیوں سے تنگ آ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے قطر میں جا کر بس گئے۔ تاہم وہ قطر سے برطانیہ اور امریکہ اکثر و بیشتر جایا کرتے تھے اور بالآخر نو جون 2011 کو 95 سال کی عمر میں لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
غلام نبی خیال لکھتے ہیں: ’جب پردیس میں مقبول فدا حسین کی موت ہوئی تو بھارت میں اس سانحے پر کوئی ماتمی لہر نہیں دوڑی۔ ایک طرف بھارت نے انہیں پدم شری، پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور کئی اور اعزازات سے نوازا مگر صد حیف کہ دوسری طرف ان کی خود پر عائد کردہ جلا وطنی کے بعد اس سطح پر ان کی باعزت واپسی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں انہیں پھر وطن واپس آنے کا موقعہ ملتا جہاں کی مٹی سے انہیں بے حد پیار تھا۔‘
مادھوری ڈکشت نے ایم ایف حسین کے انتقال کے دن بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’میرا ماننا ہے کہ بھارت نے ایک ہیرا کھو دیا ہے۔‘
مادھوری دکشت نے سنہ 2019 میں ’دا کپل شرما شو‘ میں ایم ایف حسین پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جنہیں دنیا داری سے کوئی مطلب نہیں تھا۔
’حسین جی کو دنیا داری سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ صرف پیٹنگ میں مصروف رہتے تھے۔ وہ ڈینور میں ایک بار مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ وہ ایک چھوٹا سا بیگ لے کر آئے تھے۔ آتے ہی مجھ سے کہا کہ کینوس لے آؤ۔ میں نے بولا حسین جی آپ تھوڑا آرام کریں۔
’انہوں نے کہا، مجھے کچھ پینٹ کرنے کے بعد ہی آرام ملتا ہے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ کینوس کے علاوہ رنگ بھی لانے پڑیں گے تو انہوں نے اپنا بیگ کھولا جس میں صرف رنگ ہی رنگ تھے۔ میں نے پوچھا کہ پھر آپ کے کپڑے کہاں ہیں؟ تو بولے جو کپڑے پہن رکھے ہیں وہی کافی ہیں۔‘
ایم ایف حسین کا فن مصوری اور تنازعات
ایم ایف حسین نے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔ اُن کو سال 1996 میں اس وقت مشکل وقت سے گزرنا پڑا جب ان کے کچھ فن پاروں پر شدید ردِعمل آیا، جس میں انہوں نے ہندو دیویوں کی تصاویر بنائی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ فن پارے 1970 میں بنائے تھے لیکن ایک طویل عرصے تک ان پر کوئی بات نہیں ہوئی لیکن جب ایک ہندی جریدے نے ایم ایف حسین کے بارے میں مضمون ’ایم ایف حسین، ایک مصور یا قصائی‘ چھاپا تو ہر طرف شور مچ گیا، اور تو اور مصور کے گھر پر بھی حملہ ہوا اور اس معاملے نے مصور کے دمِ آخر تک اُن کا تعاقب کیا۔
انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائی تھیں، جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاؤں کے مجسمے ہیں لہذا اگر انہوں نے اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔ سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جانیں لگیں۔ ایک تنظیم نے ان کے سر کی قیمت گیارہ اعشاریہ پانچ ملین روپے مقرر کی جس کے بعد وہ 2006 میں جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔
ستمبر 2007 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے فدا حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ حکومت نے اس سال مصوری کا معروف راجہ روی ورما ایوارڈ‘ ایم ایف حسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستمبر 2008 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ان کی ایک متنازعہ پینٹنگ کے سلسلے میں فنکار کے کام کا دفاع کرتے ہوئے فن کا نمونہ قرار دیا اور ان کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی گئی۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پینٹنگ فحش نہیں۔
ایم ایف حسین ہمیشہ اپنے معاصرین سے آگے رہنا چاہتے تھے۔ ایس ایچ رضا (سید حیدر رضا) ان کے معاصرین میں ایک اہم مصور تھے۔
ایک نمائش میں ان کے تجریدی فن پارے نمائش کے لیے رکھے گئے، ہر فن پارے کی قیمت دو ہزار روپے تھی۔ ایم ایف حسین کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اگرچہ تجریدی فن پارے تخلیق نہیں کرتا مگر اس کے دو ہزار روپے کون دے گا؟‘
وہ اگلے دن گیلری گئے، انہوں نے ایس ایچ رضا کی تصاویر ہٹائیں اور اپنی لگا دیں۔ ہر ایک کی قیمت تین ہزار روپے رکھی گئی۔ ظاہر ہے، انہوں نے یہ فن پارے رات بھر کام کر کے تخلیق کیے تھے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایم ایف حسین میں ایک ہی وقت میں دو طرح کے فنکار تھے، ایک خالص اور دوسرا عوامی۔ وہ درحقیقت عوامی مصور تھے جو یہ یقین رکھتے تھے کہ مصور کے فن پاروں کو ہر ایک کے لیے ہونا چاہیے۔
ایم ایف حسین کی تصویروں کے کردار ساکت نہیں بلکہ متحرک ہیں۔ عورت اُن کے فن پاروں میں بارہا مگر ہر بار الگ ہی روپ میں نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ ابھی کم سن ہی تھے جب انہوں نے اپنی والدہ کو کھو دیا تھا۔
انگریزی کے مؤقر قومی روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ’نسوانیت ان (ایف ایم حسین) کے تقریباً ہر فن پارے میں موجود ہے اور بہت سوں کا مرکزی خیال ہے۔ مصور کہتے ہیں کہ یہ اُن کی اپنی ماں کی تلاش کا اظہار ہے، جنہیں انہوں نے نوعمری میں کھو دیا تھا۔ وہ عورت کو مصور کرکے اپنی ماں کو دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی ماں کا چہرہ یاد نہیں کر سکتے اور وہ اپنی عورتوں کو بے چہرہ مصور کرتے ہیں۔‘
ایم ایف حسین کا فن مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا۔ انہوں نے کبھی گھوڑے مصور کیے تو کبھی مہابھارت اور کبھی رامائن کو رنگوں کے ذریعے پیش کیا۔ کبھی مدرٹریسا تو کبھی گاندھی کی شخصیت کے مختلف روپ پیش کیے اور کبھی ہندوستان کی شہری اور دیہی زندگی کو کینوس پر دکھاتے نظر آئے۔
’میڈیم‘ کے لیے اپنے مضمون میں دیویا راماچندرن لکھتی ہیں، ’ایم ایف (حسین) ایک بے چین مصور کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زیست کے مختلف ادوار میں متنوع قسم کا فن تخلیق کیا۔ اُن پر ایک ایسا دور بھی آیا جب انہوں نے طویل عرصے تک صرف گھوڑے ہی پینٹ کیے۔‘
بہت سوں کے لیے وہ محض ایک مصور ہیں مگر ان کے تخلیقی سفر کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ حُسن اور شاعرانہ اظہار ان کی فلموں اور تحریروں میں بھی جابجا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جریدے ’پلیٹ فارم‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میں نے صرف گھوڑے اور بعد میں صرف برہنہ تصاویر ہی بنائیں لیکن یہ غلط ہے۔ میں ہر جگہ صرف اور صرف حُسن کی تلاش میں ہی سرگرداں رہا ہوں۔ میں ایک مصور کے طور پر جانا جاتا ہوں کیوں کہ میں مصور کے طور پر مشہور ہوا لیکن میری زیست کے کئی اور پہلو بھی ہیں۔ میں معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔‘