سن 1582ع، جب سال کے دس دن غائب ہو گئے۔۔ کیلنڈر کی دلچسپ کہانی!

ویب ڈیسک

’تقویم‘ کو انگریزی میں کیلنڈر کہتے ہیں۔ اصطلاح میں یہ کواکب کی حرکات دائرۃ البروج میں مقام کی جدوَلوں پر مشتمل رسالہ ہے جس سے وقت کو گھنٹوں، دنوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم کرکے ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ابتدا میں وقت کی تقسیم دن اور رات کے تصور سے تھی۔ سال کا ریکارڈ مشکل تھا البتہ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے مہینے کا اندازہ کیا جاتا تھا۔ اس لیے قدیم کیلنڈر قمری ہی ہوا کرتے تھے۔ لوگوں کو یہ اندازہ بھی ہوا کہ سال میں بارہ ماہ ہوتے ہیں کیونکہ بارہ قمری مہینوں بعد موسم واپس آ جاتے تھے۔ جلد ہی قمری حساب میں کمی بیشی سے موسموں کا ریکارڈ غلط ہونے لگا تو لوگ شمسی کیلنڈر کی طرف مائل ہوئے۔

شمسی سال اس عرصے کو کہتے ہیں، جس میں زمین اپنے مدار یعنی سورج کے گرد چکر کاٹ لیتی ہے۔ لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے مگر سال بھر جگہ بدلتا رہتا ہے اور اسی سے موسم بھی بدلتے ہیں۔ انہوں نے عمارت کے مشرقی حصہ سے سوراخ بنا کر سورج کی سال بھر کی حرکات کا جائزہ لیتے لیتے کیلنڈر دریافت کر لیا۔

انگریزی لفظ ’calendar‘ کی اصل لاطینی زبان کا ’calendae‘ ہے، جب کہ ’calendae‘ لفظ کا تعلق اُس call (پُکار) سے ہے، جو چاند نظر آنے پر ہر ماہ پہلی تاریخ کو دی جاتی تھی۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ ’کیلِنڈر ‘ لفظ کیلینڈریم (calendarium) سے نکلا ہے۔ لاطینی زبان میں ’کیلینلڈریم‘ اُس کھاتہ رجسٹر کو کہتے ہیں، جس میں لین دین کے ماہانہ حسابات درج ہوں۔

ہزاروں سال قبل ہی لوگوں کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ ایک سال میں 365 دن 12 مہینے اور ایک ہفتہ سات دن کا ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے اسی لحاظ سے کیلنڈر تیار کیے تھے۔۔ لیکن سات سو سال پہلے ایسا کیا ہوا، جسے دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ سولہویں صدی کے 82ویں سال کے ماہِ اکتوبر کے 10 دن کلینڈر سے اچانک غائب کر دیے گئے۔

یہ ایک ایسا معمہ تھا کہ اس نے عوام کی بڑی تعداد کو الجھن میں ڈال دیا، لوگ اس بات کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہے تھے۔ اس حیران کن معمے کی گتھی سلجھانے سے پہلے ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں کیلینڈر کی تاریخ پر۔۔

اگر آپ تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں تو روم کی قدیم سلطنت کے حکمران جولیئس سیزر کے بارے میں یقیناً کچھ نہ کچھ آگاہی ضرور رکھتے ہونگے۔۔ وہ قبل از مسیح عہد کے ان حکمرانوں میں سے ایک تھا، جن کی مثال عہد حاضر میں بھی دی جاتی ہے۔

انہوں نے ابتدا میں 10 سال روم کا حکمران رہنے کا اعلان کیا اور ایک برس مکمل ہونے سے قبل ہی تاحیات حکمران رہنے کا اعلان کر دیا لیکن جولیس سیزر سے نالاں ان کے 40 کے قریب سینیٹرز نے ان کو قتل کرا دیا

یہاں جولیس سیزر کا ذکر کرنے کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ یہ جولیس سیزر ہی تھے، جنہوں نے 46 قبل از مسیح میں اصلاح شدہ رومن کیلنڈر متعارف کروایا تھا، جس میں ایک سال 365.25 دنوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ہر چار سال بعد لیپ کا سال آتا اور یوں ایک دن مکمل ہو جاتا۔

انسان نے زمانہ قدیم ہی میں چاند سورج کی گردش اور موسمی تغیرات کی بنیاد پر ’کیلِنڈر‘ وضع کر لیے تھے۔ بنیادی طور پر کیلِنڈر چار طرح کے ہیں۔ قمری (lunar)، شمسی (solar)، قمری شمسی (lunisolar) اور موسمی (seasonal) کیلِنڈر۔

دنیا میں رائج درجنوں کیلِنڈر انہی چار اقسام پر مشتمل ہیں۔ یوں تو ان کیلنڈروں کی اکثریت میں ہفتہ سات دنوں کا ہے، تاہم بعض کیلِنڈر ایسے بھی ہیں جن میں ’ہفتہ‘ پانچ، چھ، آٹھ، نو، دس اور تیرہ دنوں کا ہوتا ہے۔

کیلنڈر ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کے مطابق، جولین کیلنڈر 16 سو سال سے زیادہ عرصے تک دنیا کا سب سے بہتر اور معتبر کیلنڈر رہا۔
تاہم یہ نہ ہی تاریخ کا پہلا اور نہ ہی آخری کیلنڈر تھا۔ قدیم تہذیبیں جیسا کہ سمیری، مصری اور مایان وغیرہ بھی کیلنڈر استعمال کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں عموماً قمری کیلنڈر استعمال ہوتے تھے کیوں کہ چاند کے مختلف مراحل کی پیمائش کرنا آسان تھا۔ سمیری ثقافت میں قمری دائرے کی بنیاد پر ہی سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

اس زمانے کے اہرام مصر کی تعمیر کے جادوئی راز سے تو پردہ اٹھ نہیں سکا مگر مصریوں نے اس دور میں 12 مہینوں اور 365 پر مبنی کیلنڈر بنا لیا تھا اور ہر مہینے کے 30 دن تھے۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب سال مکمل ہونے کے بعد پانچ دن فالتو بچ جاتے، جس کا حل یہ نکالا گیا کہ یہ پانچ دن اسی ایک سال میں شامل کر دیے جاتے مگر کسی مہینے کا حصہ نہ ہوتے۔ اس کیلنڈر کی تشکیل میں مصریوں کی علم فلکیات میں مہارت نے اہم کردار ادا کیا۔

مایان تہذیب علم فلکیات میں اپنی مہارت کے باعث مشہور تھی، جنہوں نے قمری اور شمسی نظام کو یکجا کرتے ہوئے ایک ایسا کیلنڈر بنایا جو ماضی کے کیلنڈروں سے بہت بہتر تھا۔ اس کیلنڈر کی تشکیل سے تاریخ نے وقت کے حوالے سے اہم سنگ میل عبور کیا۔ مایان کینلڈر میں ہر سال میں 18 مہینے ہوتے اور ہر مہینے میں 20 دن ہوا کرتے تھے جب کہ اضافی پانچ دن اس میں الگ سے شامل کر لیے جاتے۔

جولین کیلنڈر کی بات کریں تو یہ شمسی اور قمری دونوں ہی نظاموں پر مشتمل تھا، جس کے باعث بسااوقات اس کو موسموں سے ہم آہنگ کرنا مشکل ہوتا اور یہ استعمال میں بھی آسان نہ تھا۔

واضح رہے کہ اِس وقت دنیا کی مختلف تہذیبوں میں رائج کیلنڈر تین طرح کے ہیں، جن میں شمسی، قمری اور شمسی قمری کیلنڈر شامل ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں گریگورین کیلنڈر کی، جو اس دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیلنڈر ہے۔

یہ کیلنڈر بنیادی طور پر پاپ گریگوری سیزدہم نے تخلیق کیا اور یہ انہی کے نام سے منسوب ہو کر ’گریگورین کیلنڈر‘ کہلایا۔ یہ سال 1582 میں تشکیل پایا جس نے بتدریج ’جولین کیلنڈر‘ کی جگہ لے لی جو اس سے قبل استعمال کیا جا رہا تھا۔ دونوں کیلنڈرز میں اگرچہ بہت زیادہ فرق نہیں ہے مگر گریگورین کیلنڈر وقت اور تاریخ کے حوالے سے نسبتاً زیادہ بہتر معلومات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ تاہم، یہ ذکر کرنا اہم ہے کہ رجعت پسند مسیحی آج بھی جولین کیلنڈر ہی استعمال کرتے ہیں۔

کلینڈر سے دس دن کے غائب ہونے کی کہانی

آپ نے اوپر کے پیراگراف میں سال 1582 کا ذکر پڑھا۔۔ اگر آپ اپنے موبائل فون میں کیلنڈر کو واپسی کی طرف لے جائیں تو 1582ء کے اکتوبر کے مہینے میں یہ دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے کہ اس مہینے کے 10 دن پراسرار طور پر غائب ہیں۔

جی ہاں، اکتوبر 1582ع کی 4 تاریخ کے بعد 5 کی بجائے آپ کو 15 تاریخ نظر آئے گی۔ یہ دیکھ کر بہت سے لوگ حیران تھے کہ اس دوران ایسا کیا ہو گیا کہ سال کے بقیہ دس دن ہی غائب ہو گئے؟

کچھ عرصہ قبل انٹرنیٹ پر بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہی سوال ابھرا تو کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں چھان بین کرنے کا فیصلہ کیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وائرل ہونے والی شیئرنگ پوسٹ پر پوچھے جانے والے ایک سوال نے صارفین کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔

سوشل میڈیا صارفین ابھی اسی کشمکش میں مبتلا ہوکر الجھن کا شکار تھے کہ پوسٹ پر ایک امریکی ماہر فلکیات اور سائنس کمیونیکیٹر نیل ڈی گراس ٹائسن نے اس معاملے کی وضاحت کردی۔

انہوں نے بتایا کہ 1582 تک جولین کیلنڈر ہر چار سال بعد ایک لیپ ڈے کے ساتھ زمین کے مدار کے مقابلے میں دس اضافی دن جمع کر چکا تھا۔

اس لیے پوپ گریگوری نے اس سال کے 10 دنوں کو منسوخ کرکے اپنے نئے اور شاندار طور پر درست اور نئے کیلنڈر کا آغاز کیا جس میں 4 اکتوبر کے بعد 15 اکتوبر درج تھا۔

ماہر فلکیات کے اس جواب نے انٹرنیٹ پر بہت سے صارفین کی الجھن کو ختم کرکے انہیں پرسکون کردیا۔ امید ہے کہ جواب پڑھ کر آپ کی الجھن بھی دور ہو گئی ہوگی۔

بتایا گیا ہے کہ 10 دن منسوخ کرنے کے لیے پوپ گریگوری نے اکتوبر کے مہینے کا انتخاب اس لیے کیا تھا، کیونکہ اس مہینے میں مسیحیوں کا کوئی بھی قابل ذکر تہوار نہیں آتا۔

قدیم یونانی کیلینڈر اور مہینوں کے ناموں کی تاریخ

یہ تو آپ جان ہی چکے ہیں کہ گریگورین کیلِنڈر اصلاً ’جیولین کیلِنڈر‘ کی ترمیم شدہ شکل ہے، جب کہ جیولین کیلِنڈر ’قدیم رومن کیلِنڈر ‘ میں اصلاح کا نتیجہ ہے۔

قدیم یونانی کیلِنڈر سے اخذ شدہ قدیم رومن کیلِنڈر 10 ماہ پر مشتمل تھا۔ اس میں 6 ماہ 30 دن کے اور 4 ماہ 31 دن کے تھے۔ یہ کیلِنڈر آمد بہار کے ساتھ مارچ سے شروع ہوتا اور دسمبر کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا تھا۔ دسمبر کے بعد مسلسل دو ماہ شمار نہیں کیے جاتے تھے۔

یوں اس کیلنڈر میں دنوں کی کل تعداد 306 تھی۔ اس رومن کیلنڈر کے ابتدائی چار ماہ کے نام دیوی دیوتاؤں سے منسوب تھے، جب کہ باقی چھ ماہ کے نام عددی تھے۔ ان مہینوں کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ مارچ 2۔ اپریل 3۔ مئی 4۔ جون 5۔ کوئنتیلس 6۔ سکستائیلس 7۔ ستمبر 8۔ اکتوبر 9۔ نومبر 10۔ دسمبر۔

713 قبل مسیح میں روم کے بادشاہ نوما پمپیلیوس (Numa Pompilius) نے اس کیلنڈر میں اصلاح کی اور دسمبر کے بعد شمار نہ کیے جانے والوں دو مہینوں کو جنوری اور فروری کے نام سے متعارف کروایا۔ یوں اس کیلِنڈر میں مہینوں کی تعداد بارہ اور دنوں کی تعداد 355 ہوگئی۔ تاہم سال کا آغاز مارچ ہی سے ہوتا رہا، نتیجتاً فروری سال کا آخری مہینہ قرار پایا۔

45 قبل مسیح میں رومی حکمران ’جولیس سیزر‘ نے قدیم رومن کیلِنڈر میں اہم ترامیم کیں۔ یوں سال کا دورانیہ بڑھ کر 365 دن اور چھ گھنٹے ہوا، جب کہ سال کا آغاز مارچ کے بجائے جنوری سے قرار پایا اور پانچویں مہینے کوئنتیلس (Quintilis) کا نام بدل کر جولیس کے نام ’جولائی‘ کر دیا گیا۔ ان اہم ترمیمات کے بعد اس کیلِنڈر کو جولیس سیزر کی نسبت سے ’جیولین کیلِنڈر ‘ پکارا گیا۔

جولیس سیزر کے بعد برسر اقتدار آنے والے ’آگسٹس سیزر‘ نے اپنے پیش رو کی پیروی میں چھٹے مہینے سکستائیلس (Sextilis) کا نام بدل کر اپنے نام پر ’اگست‘ کر دیا۔

سال کا آغاز جنوری سے ہونے اور دو مہینوں کے بدل جانے پر نہ صرف عددی نام والے مہینوں کی تعداد 6 سے گھٹ کر 4 ہو گئی بلکہ ان ناموں کی معنویت بھی متاثر ہو گئی۔ یوں نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں مہینے کا نام بالترتیب ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر ہو گیا۔

’جیولین کیلِنڈر ‘ پندرہ سو سال تک کار آمد رہا، یہاں تک اس میں پائے جانے والے چند منٹ کے فرق نے ڈیڑھ ہزار سال کی مدت میں دس دنوں کا فرق پیدا کر دیا۔ اس فرق کو ختم کرنے کا بیڑا پوپ گریگوری نے اٹھایا۔ چنانچہ 1582ء میں اکتوبر کے مہینے سے دس دن خارج کر دیے گئے نتیجتاً 5 اکتوبر کے بعد اگلا دن 15 اکتوبر کا طلوع ہوا۔ یوں لوگوں کی زندگیوں سے اچانک ہی 10 دن غائب ہو گئے۔ اس اصلاح شدہ کلینڈر کو پوپ گریگوری کی نسبت سے ’گریگورین کیلِنڈر ‘ کہا گیا۔

کیلِنڈر کی کہانی کے اختتام پر اب رائج الوقت مہینوں کے ناموں کا مختصر جائزہ لیں گے۔

● جنوری: اس ماہ کا نام آغاز اور تبدیلی کے یونانی دیوتا ’جینس‘ (Janus) کے نام پر ہے۔ ’جینس‘ کے دوچہرے ہیں ایک سامنے اور دوسرا سر کے پیچھے کی طرف گویا یہ آنے اور جانے والے سال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

مختلف تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 150 قبلِ مسیح ہی میں سلطنت روم میں انتظامی وجوہ کی بنا پر رائج کیلنڈر میں جنوری کو سال کا پہلا مہینہ مقرر کیا گیا۔

تاہم بعض مؤرخین کے مطابق جولیئس سیزر نے کسی بھی کام کے آغاز کے دیوتا ’جینس‘ کے نام سے موسوم مہینے جنوری کو سال کا پہلا مہینہ اور یکم جنوری کو سال کا پہلا دن قرار دیا۔

رومی اساطیر میں دیوتا جینس کے دو چہرے ہیں جن میں سے ایک کا رخ آگے اور ایک پیچھے کی جانب ہے۔ یعنی یہ بیک وقت مسقبل اور ماضی کی جانب دیکھ رہا ہے۔

رومی، سال کے آغاز پر دیوتا جینس کے چڑھاوے کے لیے جانوروں کی قربانی اور تحائف کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔

البتہ پانچویں سے پندرھویں صدی عیسوی کے دوران یورپ میں جنوری کے بجائے مسیحی روایات کے مطابق اہم تاریخوں 25 دسمبر اور 24 مارچ کی تاریخوں کو نئے سال کا جشن منایا جانے لگا۔ تاہم 1582 میں کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ گریگوری نے یکم جنوری کو ایک بار پھر سال کا پہلا دن قرار دیا۔

● فروری: اس ماہ کے نام کے حوالے سے متعدد نظریات ہیں، جن میں سے ایک کے مطابق فرروی کی اصل لاطینی لفظ ’فیبرم‘ (februum) یعنی پاکیزگی ہے۔ روایت کے مطابق سال کے اس آخری مہینے میں بہار شروع ہونے سے پہلے ایک میلہ لگتا تھا، جس میں پاکیزگی اور صفائی حاصل کرنے کے لیے مختلف رسومات ادا کی جاتی تھیں۔

● مارچ: تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے مارچ سال کا پہلا مہینہ مانا جاتا تھا۔ اس مہینے کا نام جنگ کے یونانی دیوتا ’مارٹیس‘ (Martius) کے نام پر رکھا گیا۔ اس کی دوسری صورت مارس اور مارچ ہے۔

● اپریل: اس ماہ کے نام کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک مشہور رائے کے مطابق اس نام کی اصل لاطینی لفظ ’اپریلس‘ (Aprilis) ہے جس کے معنی ’کُھلنا‘ ہیں۔ چوں کہ اس ماہ میں سردی کے متواتر کئی مہینوں کے بعد آسمان کُھل جاتا ہے اور سورج خوب چمکتا ہے، اس لیے اس ماہ کو ’اپریل‘ کہا گیا۔

● مئی: اس مہینے کا نام زمین اور عورتوں کی زرخیزی کی دیوی ’مایا‘ (Maia) کے نام پر رکھا گیا۔ یونانی اصنامیات کے مطابق یہ دیوتا اٹلس کی بیٹی اور ’ہرمیس‘ کی ماں تھی۔

● جون: اس مہینے کا نام یونانی دیوتا ’جوپیٹر‘ کی بیوی اور شادی بیاہ کی دیوی ’جونو‘ (Juno) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ چوں کہ قدیم زمانے میں اس ماہ میں شادی بیاہ کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، اس لیے اسے ’جونو‘ کی نسبت سے ’جون‘ کہا گیا۔

● جولائی: اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ یہ قدیم رومن کلینڈر کا پانچواں مہینہ ’کوئنتلیس‘ تھا۔ جولیس سیزر نے اس مہینے کا نام بدل کر اپنے نام پر رکھ دیا، یوں یہ مہینہ ’جولائی‘ کہلانے لگا۔

● اگست: جولیس کی پیروی میں رومی حکمران ’آگسٹس سیزر‘ نے ’سکستائیلس‘ نامی مہینے کانام بدل کر اپنے نام پر رکھا دیا، یوں یہ مہینہ اُس کی نسبت سے ’اگست‘ کہلایا۔

● ستمبر: یوں تو ’ستمبر‘ کا مطلب ساتواں مہینہ ہے مگر قدیم رومن کیلینڈر میں جولیس سیزر کی جانب سے ترمیمات کے بعد یہ ’ساتواں مہینہ‘ نویں نمبر پر آ گیا۔

● اکتوبر: اکتوبر کو octa (آٹھ) سے نسبت ہے۔ قدیم رومن کلینڈر میں یہ آٹھویں مہینہ تھا، اس لیے اسے اکتوبر کہا گیا، مگر ستمبر کی طرح اصلاحات کی زد میں آکر یہ دسواں مہینہ بن گیا۔

● نومبر: نومبر کے معنی ’نواں مہینہ‘ ہے، اس کے ساتھ بھی ستمبر اور اکتوبر والا معاملہ ہوا، نتیجتاً یہ بھی اپنی جگہ سے کھسک کر گیارہویں نمبر پر آ گیا۔

● دسمبر: دسمبر کو دس سے نسبت ہے۔ قدیم رومن کلینڈر میں یہ دسواں اور آخری مہینہ تھا۔ جولیس کی ترمیمات کے بعد اس کا نمبر تو آخری ہی رہا، مگر یہ دسویں سے بارہویں نمبر پر چلا گیا۔

جہاں سال جنوری سے شروع نہیں ہوتا

رومی تقویم اور آج دنیا میں رائج گریگورین کیلنڈر سورج کی حرکت کے حساب سے مرتب کیے گئے ہیں۔ جب کہ دنیا میں کئی تہذیبیں ایسی ہیں، جن میں ماہ و سال کا حساب چاند کے اعتبار سے کیا جاتا ہے، اسی لیے انہیں ’قمری تقویم‘ بھی کہتے ہیں۔

قمری سال پر عمل کرنے والی تہذیبوں میں یکم جنوری کے بجائے اپنی اپنی تقویم کے اعتبار سے سال کا آغاز کیا جاتا ہے۔

یہودیوں کے قمری سال کے آغاز کو ’روش حشانہ‘ یا ’راس السنہ‘ کہا جاتا ہے جس کا لغوی مفہوم بھی سال کی ابتدا ہے۔ قمری سال کے مہینے ’تشری‘ یا تشرین الاول کی یکم تاریخ کو نیا سال شروع ہوتا ہے۔ اسلامی قمری تقویم میں عام طور پر 354 دن ہوتے ہیں اور اس کے بارہ مہینوں میں محرم پہلا مہینہ ہے۔

چین میں بھی قمری تقویم رائج ہے اور وہاں سال کے آغاز کا جشن عام طور پر جنوری کے اختتام یا فروری کے شروع میں منایا جاتا ہے۔

قدیم ایرانی تہذیب میں بھی موسمِ بہار میں سالِ نو کا جشن منایا جاتا تھا، جسے ’نو روز‘ کا نام دیا گیا تھا۔ نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس سے مراد نیا دن ہے۔ یہ تہوار ہر سال 21 مارچ کو آتا ہے اور ایران، افغانستان، عراق، وسطی ایشیا کے ممالک بھارت اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں بھی منایا جاتا ہے۔

دنیا کے دیگر مشہور کیلینڈر

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جولین اور گریگورین کیلنڈر سمیت اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 40 کیلنڈرز رائج ہیں، جن میں عبرانی، ہجری، شاکا، چینی، ایرانی، جولین، نانک شاہی یا پنجابی کیلنڈرز زیادہ مستعمل ہیں۔

● ہجری کیلنڈر:
گریگورین کیلنڈر کے بعد ہجری کیلنڈر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیلنڈر ہے جسے اسلامی کیلنڈر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ ہجری سال کے بارہ ماہ ہوتے ہیں اور یہ 354 یا 355 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں یہ شمسی سال کے 365.25 دنوں سے 10 دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اسلامی کیلنڈر ہر سال 10 دن کم ہوجاتا ہے اور یوں 33 سال بعد ایک سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔ ہجری کیلنڈر کا آغاز محرم الحرام اور اختتام ذی الجہ پر ہوتا ہے۔ مسلمان ممالک میں ہجری سال مذہبی تہواروں کے لیے تو بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے تاہم دنیا کے اکثریتی مسلمان ممالک میں دیگر معمولات زندگی کے لیے گریگورین کیلنڈر ہی استعمال ہوتا ہے۔

● عبرانی کیلنڈر:
کیا آپ جانتے ہیں کہ عبرانی کیلنڈر دنیا میں مستعمل قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ یہ ایک شمسی قمری کیلنڈر ہے۔ یہ قمری اس لیے ہے کہ اس کا ہر مہینہ چاند کی حرکت پر انحصار کرتا ہے اور شمسی اس لیے ہے کہ کیلنڈر مہینوں کے لیے زمین کے اس کے مدار کے گرد حرکت پر انحصار کرتا ہے۔

ہر عبرانی مہینہ ہمیشہ 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے جس کا انحصار چاند کی زمین کے گرد گردش مکمل کرنے پر ہے اور جب کیلنڈر کا توازن خراب ہونے لگتا ہے تو عبرانی کیلنڈر میں ایک اور مہینہ شامل کر لیا جاتا ہے۔

●شاکا سموت کیلنڈر:
یہ انڈیا کا قومی کیلنڈر مانا جاتا ہے۔ یہ ایک قمری شمسی کیلنڈر ہے جو برصغیر کے اور بھی ملکوں میں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ انڈونیشیا کے جزیروں بالی اور جاوا کے علاوہ فلپائن میں بھی اس کیلنڈر کو استعمال کیا جاتا ہے۔

انڈین حکومت نے 1957 میں شاکا کیلنڈر کو ملک کے سرکاری کیلنڈر کے طور پر اختیار کیا جسے خبروں کی نشریات کے دوران اور حکومتی ابلاغ میں استعمال ہوتا ہے۔ شاکا مہینے کے 365 دن اور 12 مہینے ہوتے ہیں۔ گریگورین کیلنڈر کی طرح اس کا نیا سال چیت میں شروع ہوتا ہے (جو گریگورین کیلنڈر کے مطابق مارچ کی 21 تاریخ بنتی ہے)۔

●وکرم سموت:
یہ بھی ہندوئوں میں استعمال کیا جانے والا کیلنڈر ہے جو نیپال اور کچھ انڈین ریاستوں میں وقت اور تاریخوں کے ریکارڈ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور قمری مہینوں کے علاوہ فلکی اکائی کا استعمال کرتا ہے۔

●ایرانی کیلنڈر:
ایرانی کیلنڈر گزشتہ دو ہزار سال سے ایران میں تاریخوں اور دنوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران مختلف سیاسی، مذہبی اور موسمی تہواروں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ عہد حاضر میں یہ ایران کا سرکاری کیلنڈر ہے جس کا آغاز نوروز سے ہوتا ہے جو گریگورین کیلنڈر کے مطابق، 21 مارچ کو ہوتا ہے۔

●بڈھسٹ کیلنڈر:
یہ کیلنڈر جنوبی مشرقی ایشیا کے ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد قدیم ہندو کیلنڈر پر ہے۔ یہ فلکی سال پر انحصار کرتا ہے، وہ وقت جو زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ تاہم، یہ دوسرے کیلنڈرز کی طرح وقت کی پیمائش کو درست رکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یوں ہر صدی میں اس کا ایک دن کم ہو جاتا ہے۔

یہ اگرچہ سرکاری کیلنڈر کے طور پر تو استعمال نہیں کیا جاتا مگر بڈھسٹ کیلنڈر اہم تہواروں کے تعین کے لیے ضرور استعمال کیا جاتا ہے۔

● جاپانی کیلنڈر:
1873 سے جاپانی کیلنڈر گریگورین کیلنڈر کے شمسی سال کو استعمال کر رہا ہے۔ کیلنڈر کی بنیاد تاریخ کے ایک مخصوص عہد پر ہوتی ہے اور یہ طریقہ کار اس نے چین سے مستعار لیا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر حکمران کا اقتدار ایک نئے عہد کا نقطہ آغاز ہوا کرتا تھا۔ یہ کیلنڈر اگرچہ 701 عیسوی سے استعمال کیا جا رہا ہے تاہم سال 1873 سے قبل مختلف ادوار کا آغاز واقعات سے ہوتا تھا اور حکمرانوں کے دور اقتدار کے آغاز سے نہیں۔

● چینی کیلنڈر:
چینی کیلنڈر قمری شمسی نظام پر انحصار کرتا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر مہینے کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب نئے چاند کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے۔ چین میں اگرچہ گریگورین کیلنڈر پر ہی انحصار کیا جاتا ہے مگر مختلف تہواروں کے لیے چینی کیلنڈر کا استعمال عام ہے۔

●نانک شاہی کیلنڈر:
نانک شاہی کیلنڈر سکھ مت کے پیروکار استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک شمسی کیلنڈر ہے۔ اس میں بارہ ماہ ہوتے ہیں جن کا تعین سکھ گوروئوں نے کیا ہے اور ان کا مقصد سال کے بارہ ماہ میں ہونے والی تبدیلیوں کا اظہار ہے۔

سال کا آغاز یکم چیت سے ہوتا ہے جو گریگورین کیلنڈر کے مطابق مارچ کی 14 تاریخ بنتی ہے۔

● پنجابی کیلنڈر:
یہ پنجاب کا تاریخی کیلنڈر ہے جو اس خطے کے مسلمان، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ پنجاب میں بہت سے تہوار اسی بکرمی کیلنڈر کو پیش نظر رکھتے ہوئے منائے جاتے ہیں۔ پنجاب کے نئے شمسی سال کا آغاز ویساکھ سے ہوتا ہے اور اس کیلنڈر کے بارہ مہینے موسموں کی بہت خوبصورتی سے ترجمانی کرتے ہیں۔

اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ کیلنڈرز کا صدیوں پر محیط ارتقا انسان کی تہذیبی ترقی کا مظہر ہے۔ اس وقت اگرچہ دنیا بھر میں گریگورین کیلنڈر ہی استعمال کیا جا رہا ہے تاہم مختلف خطوں میں مستعمل مقامی کیلنڈرز کی اہمیت سے انکار اس لیے ممکن نہیں کہ وہ ان خطوں کی متنوع ثقافت کے عکاس ہیں جو اپنے تہوار اپنے اپنے کیلنڈر کے مطابق منانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close