دنیا کی سب سے قدیم زبانیں اور تحریر کی ابتدا

امر گل

دنیا کی سب سے قدیم زبانوں اور تحریر کی ابتدا ایک ایسا راز ہے، جسے کئی صدیوں سے محققین اور تاریخ دان حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان زبانوں کا مطالعہ نہ صرف ماضی کی تہذیبوں کی گواہی دیتا ہے بلکہ انسانیت کی ابتدائی فکری اور ثقافتی نشونما کے بارے میں بھی بے شمار سوالوں کے جوابات دے سکتا ہے۔

جب ہم ان قدیم زبانوں اور تحریری نظاموں کی کھوج کرتے ہیں تو ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچتے ہیں، جہاں انسان نے اپنی آواز کو وقت کی قید میں ڈھالنے اور اپنے احساسات کو اظہار کی ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی تھی، تاکہ نسلوں تک اپنی کہانیاں، علم اور تجربات منتقل کر سکے۔ تو کیا واقعی ہم ان قدیم تحریروں کے اسرار کو سمجھنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔

یہ سوال کہ دنیا کی سب سے قدیم زبان کون سی ہے، ہمیشہ سے محققین کے لیے ایک پہیلی رہا ہے۔ قدیم زبانوں کے آثار اور ان کی ابتدا وقت کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں، لیکن لسانیات اور آثارِ قدیمہ کی تحقیق نے ہمیں ان کے بارے میں بہت کچھ سکھایا ہے۔ اور تاریخی شواہد اور لسانی تحقیق کی بنیاد پر، مورخین اور فلیولوجسٹ علمی اندازوں کے ذریعے اس کا تعین کر سکتے ہیں۔

تحریری زبانوں کی ایجاد انسانی تاریخ کا ایک انقلابی لمحہ تھا۔ یہ نہ صرف علم اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنی بلکہ تہذیبوں کو اپنی تاریخ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا موقع بھی ملا۔

قدیم زبانوں کا مطالعہ، جسے تاریخی لسانیات یا فلولوجیPhilology کہا جاتا ہے، محققین کو قدیم تحریروں کو سمجھنے، ثقافتی تعلقات کا پتا لگانے اور ابتدائی انسانی آبادیوں کی ہجرت کے راستوں کی نشاندہی کرنے میں مدد دیتا ہے۔ تقابلی لسانی تجزیے سے زبانوں کے خاندانوں کی شناخت و تشکیل اور پروٹو-زبانوں کی بازیافت ممکن ہوتی ہے، جو ہمیں ابتدائی انسانی معاشروں کے طرزِ زندگی اور خیالات کی جھلک دکھاتی ہیں۔

یہ زبانیں نہ صرف ماقبل تاریخ میں ماضی کے دروازے کھولتی ہیں بلکہ آج کے انسانی رابطے اور ترقی کے لیے ایک بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں، جو زبان کی عظیم اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

سب سے قدیم زبانیں اور تحریر کی اہمیت

تحریر کی ایجاد انسانی تہذیب کا وہ سنگِ میل ہے جس نے علم، تاریخ اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کا امکان پیدا کیا۔ برطانوی لائبریری کے مطابق، مکمل تحریری نظام دنیا کے مختلف علاقوں میں کم از کم چار بار آزادانہ طور پر ایجاد کیے گئے۔

سب سے قدیم تحریری نظام 3400 سے 3300 قبل مسیح کے درمیان میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) میں ایجاد ہوا، جہاں ’کیونیفارم‘ تحریر استعمال کی جاتی تھی۔ تقریباً 3200 قبل مسیح میں مصر نے اپنا منفرد تحریری نظام ایجاد کیا۔ چین میں، شانگ خاندان کے دوران (1300 قبل مسیح)، ایک مکمل اور فعال تحریری نظام کے شواہد ملتے ہیں، اور 900 سے 600 قبل مسیح کے درمیان میسوامریکہ کی تہذیبوں میں بھی تحریر کا آغاز ہوا۔

ان کے علاوہ، وادیِ سندھ جیسے خطے کی تحریریں آج بھی ایک معمہ ہیں، کیونکہ انہیں سمجھنے کی کوششیں ابھی جاری ہیں۔ یہ نظام ظاہر کرتے ہیں کہ تحریر کا آغاز کسی ایک جگہ سے نہیں ہوا بلکہ مختلف ثقافتوں نے اپنے طور پر اس اختراع کو جنم دیا۔

ہر خطے کی تہذیب و ثقافت نے معلومات کو اظہار دینے اور ریکارڈ کرنے کا اپنا منفرد طریقہ تلاش کیا۔ ہر خطے کی تحریریں ان کے منفرد خیالات اور طرزِ زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ تنوع نہ صرف انسانی تخلیقی صلاحیت کا مظہر ہے بلکہ ہماری مشترکہ تاریخ اور ترقی کے راز بھی کھولتا ہے۔ ان قدیم تحریری نظاموں کا مطالعہ انسانی ذہانت اور ثقافتی کامیابیوں کے شاندار پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

 میسوپوٹیمیا: تحریر کی ابتدا کی داستان

علمی اتفاق رائے کے مطابق، تحریر کی سب سے ابتدائی شکل کا آغاز تقریباً 5500 سال پہلے میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) میں ہوا، جہاں سادہ تصویری نشانوں کے ذریعے معلومات کو ریکارڈ کیا جاتا تھا۔ ابتدا میں یہ سادہ تصویری نشانوں پر مشتمل تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ نظام میں تبدیل ہو گئی، جس میں سومیری زبان اور جنوبی میسوپوٹیمیا میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی آوازوں کی نمائندگی کی جاتی تھی۔

تقریباً 2900 قبل مسیح میں، ان علامات کو گیلی مٹی پر ایک خاص قلم (reed stylus) سے کھودا جاتا تھا، جس سے نوکیلے نشان بنائے جاتے تھے۔ یہی نشان آج ’کیونیفارم‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ جدید تحریری طریقہ ایک ایسا انقلابی نظام تھا جس نے معلومات کو محفوظ کرنے، علم کے پھیلاؤ اور تہذیب کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔

اگلی چھ صدیوں میں، کیونیفارم مزید معیاری اور سادہ ہو گیا۔ ابتدائی تصویری علامات کو سہل بنایا گیا، اور ان کے اصل اشیاء کے ساتھ تعلق ختم ہو گیا۔ تحریر کی سمت بھی بدلی؛ جو علامات پہلے اوپر سے نیچے لکھی جاتی تھیں، وہ بائیں سے دائیں افقی لائنوں میں منتقل ہو گئیں۔ علامتوں کو بھی دوبارہ ترتیب دیا گیا اور 90 ڈگری کے زاویے پر مخالف سمت میں گھمایا گیا۔

تقریباً 2340 قبل مسیح میں، بادشاہ سرگون کی قیادت میں اکادی فوجوں نے سومیر کو فتح کیا، اور کیونیفارم نے اکادی زبان کے لیے بھی اپنا کردار نبھایا۔ اکادیوں نے ایک وسیع سلطنت قائم کی، جو لبنان سے فارس کی خلیج تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تحریری نظام اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ اسے تقریباً 15 زبانوں میں اپنایا گیا۔

سومیری زبان 200 قبل مسیح تک تعلیم کی زبان رہی، جبکہ کیونیفارم ایک تحریری نظام کے طور پر مزید تین صدیوں تک زندہ رہا۔ آخری معروف کیونیفارم دستاویز 75 عیسوی کا ایک فلکیاتی متن ہے، جو اس عظیم نظام کے طویل سفر کی آخری گواہی ہے۔

 مصر: ہیرگلیفکس کی قدیم داستان

مصر کی قدیم تحریری روایت ایک حیرت انگیز اور منفرد داستان ہے، جو 3250 قبل مسیح سے جڑی ہوئی ہے۔ حالیہ آثار قدیمہ کی دریافتوں نے انکشاف کیا ہے کہ مصر کی ہیرگلیفکس کی ابتدا میسوپوٹیمیا کے تحریری نظام کے قریب تر زمانے میں ہوئی۔ ال-خواوی کے مقام پر تقریباً آدھے میٹر بلند پتھر کی کندہ کاری، جو ابتدائی ہیرگلیفک اشکال سے ملتی جلتی ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ مصر میں تحریر کی ابتدا تقریباً 3250 قبل مسیح میں ہو چکی تھی۔

تقریباً 3200 قبل مسیح میں، ہیرگلیفکس نے ہاتھی دانت کی چھوٹی تختیوں پر اپنی جگہ بنا لی۔ یہ تختیاں Abydos میں بادشاہ اسکورپین کی قبر میں قبروں کے سامان کی شناخت کے لیے استعمال ہوئیں۔ اسی دور میں، نارمر پالیٹ جیسے شاہی آثار پر بھی ان علامتوں کا استعمال پایا گیا، جو مصر میں تحریر کی رسمی اور عملی دونوں اہمیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔

مصریوں کو بانس کے برش اور سیاہی سے تحریر کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے، جو اس دور کی ایک انقلابی ایجاد تھی۔ کندہ کاری کے لیے استعمال ہونے والی ہیرگلیفکس کو ’مقدس تحریریں‘ کہا جاتا تھا، جبکہ بانس کے قلم سے لکھنے والی تحریر کو ’ہیریٹک‘، یعنی ’مذہبی تحریر‘ کہا گیا۔ ان دونوں اقسام نے مصری تحریر کو مختلف مقاصد کے لیے موزوں بنایا: ہیرگلیفکس کو رسمی اور یادگار مواقع کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جبکہ ہیریٹک زیادہ عملی انتظامی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔

چار صدیوں کے اندر، یہ نظام مزید ترقی یافتہ ہو گیا۔ مصریوں نے 24 یک آواز والے علامات، صوتی اجزاء، اور وضاحتی علامتیں ایجاد کیں، جو نہ صرف لفظوں کے تلفظ کو ظاہر کرتی تھیں بلکہ ان کے معانی کو بھی واضح کرتی تھیں۔ یہ پیچیدہ نظام ایک طویل ارتقائی سفر کا حصہ تھا، جو 1850 قبل مسیح میں حروف تہجی کے تصور کی بنیاد رکھنے کا باعث بنا۔

مصری ہیرگلیفکس نے انسانی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا اور تحریری نظاموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی وراثت آج بھی مختلف تہذیبوں کے تحریری نظاموں میں جھلکتی ہے، جو قدیم مصر کی تخلیقی ذہانت اور اختراعی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

چین: تحریر کی پراسرار اور قدیم جڑیں

چین میں قدیم تحریر کے ابتدائی آثار موجودہ این یانگ کے قریب دریافت ہوئے، جو بیجنگ سے تقریباً 500 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ تحریریں ’اورییکل بونز‘ پر کندہ تھیں، جن میں بیل کی کندھوں کی ہڈیاں اور کچھوے کے خول شامل تھے۔ شانگ خاندان (1300–1050 قبل مسیح) کے آخری بادشاہ ان ہڈیوں کو تقدیر کے راز جاننے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور یہ تحریریں چینی تہذیب کی قدیم ترین ریکارڈ شدہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

یہ ہڈیاں، جنہیں صدیوں تک کسان ’ڈریگن بونز‘ کہہ کر روایتی چینی طب میں استعمال کرتے رہے، 1899 میں عالم وانگ ییرونگ نے دریافت کیں۔ ان پر موجود علامات کی شناخت نے نہ صرف چینی تاریخ کے علم کو وسعت دی بلکہ یہ واضح کیا کہ تحریری زبان چین میں ہزاروں سال سے موجود ہے۔

’اورییکل بونز‘ پر تقریباً 4500 مختلف علامات پائی گئیں، جن میں سے کئی آج بھی چینی حروف کی بنیاد ہیں۔ تاہم، شانگ دور کی یہ تحریریں اتنی پیچیدہ ہیں کہ کئی علامات کا مفہوم آج بھی نامعلوم ہے۔ جو علامات سمجھی جا چکی ہیں، وہ وقت کے ساتھ مزید تجریدی اور ارتقا پذیر ہوئیں، اور جیسے جیسے تحریری ذخیرہ بڑھا، نئے مرکب علامات وجود میں آئیں۔

چینی حروف کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف تصورات بلکہ بولی جانے والی زبان کی آوازوں کو بھی ظاہر کر سکتے ہیں۔ حروف میں بنیادی اجزاء کو تلفظ یا معنی میں مماثلت کے لیے اشتراک کیا گیا، جو تحریری زبان کو ایک منفرد جمالیاتی اور عملی جہت دیتا ہے۔

’اورییکل بونز‘ ایک مکمل طور پر ترقی یافتہ تحریری نظام کا ثبوت پیش کرتی ہیں، جو ممکنہ طور پر اس سے بھی قدیم ہے جتنا ہم جانتے ہیں۔ اگرچہ ان سے پہلے کے تحریری مواد محفوظ نہ رہ سکے، لیکن یہ ہڈیاں چینی تحریری نظام کی قدیم جڑوں اور انسانی تہذیب پر اس کے گہرے اثرات کی یادگار ہیں۔

 میسوامریکہ: قدیم تحریر کی منفرد دنیا

میسوامریکہ، جو موجودہ میکسیکو کے جنوبی حصے سے لے کر کوسٹاریکا تک پھیلا ہوا تھا، تحریری نظام کے ارتقا کی ایک منفرد داستان پیش کرتا ہے۔ حالیہ دریافتوں نے یہاں تحریر کے شواہد کو 900 قبل مسیح تک پہنچا دیا ہے۔ یہ خطہ مایا، مکستیک، ازٹیک، اولمیک، اور زاپوٹیک جیسی تہذیبوں کا مسکن رہا، جنہوں نے مختلف انداز میں تحریری نظام ایجاد کیے اور استعمال کیے۔

میسوامریکہ میں دو بنیادی قسم کے تحریری نظام رائج تھے:
1. کھلے نظام: یہ ایسے تحریری طریقے تھے جو کسی خاص زبان سے جڑے ہوئے نہیں تھے۔ یہ نظام یادداشت کے آلات کی طرح کام کرتے تھے، جو قاری کو تصاویر اور علامات کے ذریعے کہانیوں کی رہنمائی فراہم کرتے۔ یہ نظام ازٹیک اور وسطی میکسیکو کی میشیکا کمیونٹیز میں عام تھے۔

2. بند نظام: یہ خاص زبانوں کے صوتی اور گرامری ڈھانچوں سے جڑے ہوئے تھے، بالکل جدید تحریری نظاموں کی طرح۔ مثال کے طور پر، مایا تہذیب نے ایک پیچیدہ اور مکمل بند نظام استعمال کیا، جو ان کی زبان کو واضح اور مفصل انداز میں پیش کرتا تھا۔

میسوامریکہ کی تہذیبوں میں ایک خطاط کا مقام بہت بلند تھا۔ مایا تہذیب میں یہ اہم کردار اکثر شاہی خاندان کے چھوٹے بیٹوں کو دیا جاتا تھا۔ ’مقدس کتابوں کے محافظین‘ کو معاشرے میں عزت و وقار حاصل تھا، اور وہ لائبریرین، مورخ، نسب کے ماہر، خراج کے ریکارڈ رکھنے والے، فلکیات دان، اور اہم تقریبات کے منتظم کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے۔

بدقسمتی سے، قبل از نوآبادیاتی دور سے میسوامریکہ کی تحریری ثقافت کے صرف چند نمونے محفوظ رہ سکے ہیں۔ مایا کی صرف چار کتابیں اور پورے خطے سے بیس کے قریب کوڈیکس بچ پائے ہیں۔ یہ کوڈیکس ہرن کی کھال اور درختوں کی چھال پر بنائے جاتے تھے، جنہیں چونے کی پالش یا گیسو سے لیپ کیا جاتا تھا، جو ان عمارتوں کی طرح تھے جن پر وہ فن پارے تخلیق کرتے۔

یہ بچی ہوئی کتابیں اور کوڈیکس آج میسوامریکہ کی قدیم ثقافت، ان کے علم، اور تحریری نظاموں کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ایک قیمتی ذریعہ ہیں۔ یہ تحریریں نہ صرف ان کے تاریخی ریکارڈ کی نمائندہ ہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیت اور فکری بلندی کی گواہ بھی ہیں۔

 وادیِ سندھ: ایک گمشدہ تحریر کا معمہ

شمال مغربی ہندوستان موجودہ پاکستان کی وادیِ سندھ، جہاں دنیا کی سب سے قدیم اور عظیم تہذیبوں میں سے ایک نے جنم لیا، آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے لیے آج بھی ایک حیرت کا موضوع ہے۔ یہاں سے ملنے والی مختلف اشیاء پر کندہ نشانوں کو ایک ممکنہ تحریری نظام سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ نظام اب تک ایک معمہ ہی ہے۔ یہ قدیم تہذیب، جو تقریباً 7000 قبل مسیح میں وجود میں آئی، اپنے عروج پر 2600 سے 1900 قبل مسیح کے درمیان تھی، جب موہن جو دڑو اور ہڑپا جیسے شہر ایک پیچیدہ شہری ثقافت کے نمونے پیش کرتے تھے۔

اس تحریری نظام کی خصوصیات کی بات کی جائے تو وادیِ سندھ سے تقریباً 5000 کندہ اشیاء دریافت ہو چکی ہیں، جن میں زیادہ تر مہر، برتن، اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تحریریں تین یا چار علامات پر مشتمل ہیں، جبکہ سب سے طویل تحریر میں 26 علامات شامل ہیں۔ اب تک تقریباً 400 منفرد علامات کی شناخت ہو چکی ہے، جو مصر کی ہیرگلیفکس یا میسوپوٹیمیا کی کیونیفارم تحریر کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔

یہ علامات ممکنہ طور پر ایک ابتدائی لوگوگرافک نظام (ایسا نظام جس میں علامات الفاظ یا تصورات کی نمائندگی کرتی ہیں) اور صوتی اجزاء کا مجموعہ ہو سکتی ہیں۔ یہ وادیِ سندھ کی تحریر کو دیگر قدیم تحریری نظاموں، جیسے مصر اور سومیر کی ابتدائی تحریروں، سے جوڑنے کی کوششوں کا مرکز بناتا ہے۔

یونیورسٹی آف ہیلسنکی، فن لینڈ کے پروفیسر ایمریٹس، اسکو پارپولا، جو 1968 سے اس تحریر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر زبان پر مبنی تھی اور ممکنہ طور پر دراوڑی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔

تحریر کی سمجھ نہ آنے کی وجوہات کے حوالے سے ماہرینِ لسانیات کا ماننا ہے کہ وادیِ سندھ کی تحریر کو سمجھنا اب تک ممکن نہیں ہو سکا، جس کی کئی وجوہات ہیں:

1. دو لسانی کتبے کی غیر موجودگی: مصر کی ہیرگلیفکس کی طرح کوئی ’روزٹا اسٹون‘ دستیاب نہیں، جو مختلف زبانوں کے موازنہ سے مدد دے سکے۔

2. زبان کا عدم علم: ماہرین اس بارے میں بھی یقین نہیں رکھتے کہ وادیِ سندھ کے لوگ کون سی زبان یا زبانیں بولتے تھے، جو اس تحریر کی تفہیم میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس تحریر کو سمجھنے کے لیے کوئی دو لسانی یا کثیر لسانی عبارت نہیں ملی جو مدد فراہم کرے، اور وقت کے ساتھ اس تحریری نظام میں کوئی نمایاں تبدیلی بھی نہیں دیکھی گئی۔

3. مختصر متن: زیادہ تر کندہ تحریریں مختصر ہیں، جو کسی جامع تحریری نظام کو سمجھنے کے لیے ناکافی ہیں۔

اس نظام تحریر کے استعمال اور ممکنہ مقاصد کی بات کریں تو یہ شاید مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا، جن میں تجارتی ریکارڈ رکھنا، مذہبی رسومات، یا شاہی احکامات شامل ہو سکتے ہیں۔ دریافت شدہ مہریں تجارتی نشانوں کے طور پر کام کرتی تھیں، جو وادیِ سندھ کے سماجی اور معاشی نظام کی پیچیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔

وادیِ سندھ کی تحریر نہ صرف اس تہذیب کے علمی اور ثقافتی نظام کی جھلک پیش کرتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہ لوگ معلومات کو محفوظ رکھنے اور پہنچانے کے لیے کس قدر جدید تھے۔ اگر یہ تحریری نظام کبھی سمجھا جا سکا، تو یہ انسانی تاریخ کے اہم رازوں کو بے نقاب کر سکتا ہے، بشمول وادیِ سندھ کے لوگوں کے خیالات، ان کی زبان، اور ان کے طرزِ زندگی کے بارے میں۔

یہ گمشدہ تحریر آج بھی ماہرین اور محققین کو متوجہ کیے ہوئے ہے، اور اس کی ہر نئی دریافت ہمیں ایک قدم قریب لے آتی ہے اس پراسرار دنیا کو سمجھنے کے، جو کبھی دریائے سندھ کے کنارے آباد تھی۔

 یونانی زبان: ایک زندہ تاریخ

قدیم یونانی زبان کی داستان ایک ایسے دلچسپ سفر کی کہانی ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے اور آج بھی دنیا کی قدیم ترین زندہ زبانوں میں شامل ہے۔ یہ زبان نہ صرف یونانی تہذیب کی پہچان ہے بلکہ علم، ادب، فلسفہ، اور سائنس کے کئی میدانوں کی بنیاد بھی ہے۔

● ’لینئر اے‘ پہلا اسرار: یونانی زبان سے جڑے سب سے قدیم تحریری نظام کو ’لینئر اے‘ کہا جاتا ہے، جو تقریباً 1900 قبل مسیح میں کریٹ کے مائنوین تہذیب کے دوران وجود میں آیا۔ اگرچہ یہ نظام آج تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا، اس کی علامات ہمیں قدیم تہذیب کے ذہنی ارتقاء کی جھلک دکھاتی ہیں۔ تاہم، اس کا براہ راست یونانی زبان سے تعلق تاحال ایک راز ہے۔

● ’لینئر بی‘ یونانی کا ابتدائی ثبوت: 1450 قبل مسیح میں، ’لینئر بی‘ نامی تحریری نظام مائسی نیائی تہذیب میں ابھرا، جو یونانی سرزمین پر پھلا پھولا۔ 20ویں صدی میں مائیکل وینٹریس اور جان چیڈوک نے اس کو حل کیا اور ثابت کیا کہ لینئر بی دراصل یونانی زبان کی ابتدائی شکل تھی۔

یہ تحریر زیادہ تر مٹی کی تختیوں پر لکھی جاتی تھی اور بنیادی طور پر انتظامی ریکارڈز جیسے تجارتی لین دین اور انوینٹریز کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ یہ تختیاں مائسی نیائی معاشرت کی اقتصادی اور سماجی زندگی کا آئینہ پیش کرتی ہیں، جس سے ہمیں قدیم یونانی ثقافت کی جھلک ملتی ہے۔

●یونانی زبان کا زوال اور احیاء: مائسی نیائی تہذیب کا زوال 1100 قبل مسیح میں ہوا، جس کے بعد یونانی دنیا ایک تاریک دور میں داخل ہو گئی۔ اس عرصے میں تحریری ریکارڈ ناپید ہو گئے۔ لیکن 9ویں صدی قبل مسیح میں یونانی زبان نے ایک نئے تحریری نظام کے ذریعے دوبارہ جنم لیا، جسے یونانی حروف تہجی کہا جاتا ہے۔ یہ حروف تہجی فنیقی تحریر سے متاثر تھا لیکن یونانی زبان کے صوتی نظام کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ یہ تحریری نظام معلومات کے ریکارڈ اور علم کے پھیلاؤ کے لیے انقلابی ثابت ہوا۔

● ادبی اور فلسفیانہ عروج: کلاسیکی دور (5ویں اور 4ویں صدی قبل مسیح) یونانی زبان کے سنہری دور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہومر کی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ ، ہیروڈوٹس کی تاریخ، سوفوکلیس کے ڈرامے، اور افلاطون و ارسطو کی فلسفیانہ تحریریں وجود میں آئیں۔ یونانی زبان کے ذریعے ان ادبی اور فلسفیانہ کارناموں نے مغربی تہذیب کے فکری ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔

● یونانی زبان کا عالمی اثر: یونانی حروف تہجی نے دیگر زبانوں کو متاثر کیا، جیسے ایتروسکن اور لاطینی حروف تہجی، جو آج کی کئی یورپی زبانوں کی جڑیں ہیں۔ بازنطینی دور میں یونانی زبان نے علم کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر مذہب، سائنس، اور فلسفے کے میدان میں۔

قدیم یونانی زبان کا اثر آج بھی نمایاں ہے۔ مغربی دنیا کے فلسفے، ادب، سائنس، اور ریاضی کے شعبے یونانی فکر کے مرہون منت ہیں۔ یہ زبان، جو تاریخ کے کئی نشیب و فراز سے گزری، آج بھی زندہ ہے، اپنے اندر ایک عظیم تہذیب کا ورثہ سموئے ہوئے۔ یونانی زبان نہ صرف ماضی کی کہانی سناتی ہے بلکہ آج بھی علم اور ترقی کی علامت ہے۔

بہرحال، دنیا کی سب سے قدیم زبانوں اور تحریر کی ابتدا پر کی جانے والی تحقیق ہمیں نہ صرف ماضی کی تہذیبوں کا تفصیل سے جائزہ فراہم کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان نے کس طرح ابتدائی مراحل میں اپنے خیالات، جذبات اور تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے زبان اور تحریر کا استعمال کیا۔ یہ قدیم تحریری نظام ہمارے لیے ایک ایسا دروازہ ہیں جس کے ذریعے ہم تاریخ کے نہایت دلچسپ اور پیچیدہ ابواب تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے راز ابھی تک حل نہیں ہو سکے، لیکن یہ تحقیق ہمیں نہ صرف ماضی کے حوالے سے بصیرت دیتی ہے بلکہ انسان کی سوچ، ثقافت اور فکری ترقی کی کہانی بھی سناتی ہے۔ ان قدیم زبانوں کی دریافت اور سمجھ بوجھ کی جدوجہد نے ہمارے علم کی حدود کو وسیع کیا ہے اور ہمیں انسانی تاریخ کی گہرائیوں میں مزید غوطہ زن ہونے کی ترغیب دی ہے۔

(اس فیچر کی تیاری میں ’گریک رپورٹر‘ پر شائع الیگزینڈر گیل کے ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close