انتقام ایک ایسی ناقابلِ تردید حقیقت ہے جو انسانی جبِلَّت، نفسیات اور رَگ و پَے میں رچی ہوئی ہے۔ جیسے سورج سے روشنی الگ نہیں ہو سکتی، اسی طرح لاکھ کوشش کے باوجود بدلے کی آگ کبھی بھی انسانی دل و دماغ سے سرِ مو دور نہیں ہو سکتی۔ یہ ہمہ وقت کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی حیثیت میں اعصاب پر سوار ہو کر غنیم کو بھسم کرنے کے درپے رہتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں اِس کے دلچسپ، سبق آموز اور خوفناک واقعات جابجا پڑھنے کو ملتے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ کیسے بسا اوقات ایک زخم خوردہ انسان بھی مشتعل ہو کر وقت اور تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیتا ہے۔
کوئی اپنے لوگوں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے۔۔ اس کا جواب ہے: ادھم سنگھ! وہ شخص، جسے جلیانوالہ باغ کے بدنامِ زمانہ قتلِ عام کا انتقام لینے کے لیے دو دہائیاں لگیں، لیکن اس کے دل میں اپنا انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ جس نے برطانوی حکمرانوں کو ان کی سرزمین پر دہشت کا احساس دلایا تھا۔
تئیس مارچ 1919ء کو برطانوی سامراجی حکومت نے رولٹ ایکٹ پاس کیا، جس کی رو سے کسی ملزم پر جرم ثابت کرنا حکومت کی بجائے ملزم کی ذمہ داری قرار پایا۔ ملزم نہ وکیل کر سکتا تھا اور نہ ہی اسے اپیل کا حق حاصل تھا۔
اس قانون کے خلاف مسٹر گاندھی نے 8 اپریل 1919ء کو ہڑتال کی کال دی، ہڑتال کے روز ہنگامے شروع ہو گئے۔ 9 اپریل کو سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر سیتہ پال کو گرفتار کیا گیا تو احتجاج میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔
جس کے بعد 13 اپریل سہ پہر کو جلیانوالہ باغ میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ غیر مسلح شرکاء بیساکھی کا تہوار منانے اور کانگریس کے رہنما سیف الدین کیچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری پر ہونے والے ایک پر امن احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔ چار بجے جلسہ شروع ہوا۔ بریگیڈیئر جنرل ریجنلڈ ڈائر اپنے میجر مورگن برگز اور اپنے دو برطانوی سارجنٹوں اینڈرسن اور پزی کے ساتھ گاڑی میں آیا۔ اِس وقت فضا میں جہاز بھی منڈلا رہے تھے۔ جنرل ڈائر نے ساڑھے چار بجے فوج کو فائرنگ کا حکم دے دیا.
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس منٹ کی فائرنگ میں 379 آدمی مارے گئے جبکہ 1200 زخمی ہوئے۔ آزاد ذرائع نے یہ تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ بتائی۔
اِس اجتماع میں فائرنگ سے زخمی ہونے اور مرنے والوں میں سکھ، ہندو اور مسلمان سب شامل تھے۔ اُس روز قیامت کا سماں تھا، ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ اُس وقت ہجوم میں ایک انیس سالہ نوجوان بھی موجود تھا جو اس قیامت خیز ماحول میں لاشوں کے درمیان بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بچے، بوڑھے اور جوان گولیوں سے کٹے ہوئے درختوں کی طرح گر رہے تھے۔
یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ شیر سنگھ تھا جو آج دنیا اُدھم سنگھ کے نام سے جانتی ہے۔
اُدھم سنگھ کے دل میں نفرت اور غصے کا طوفان امڈ آیا تھا۔ تب اُدھم سنگھ نے جلیانوالہ کی خون آلود مٹی کو مٹھی میں بند کیا اور اپنی پوری قوت جمع کر کے چیخ کر خود سے وعدہ کیا، ”میں اس خونِ ناحق کا بدلہ لوں گا۔“
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُدھم سنگھ اُس وقت جلیانوالہ باغ میں موجود نہیں تھے جب نہتے پنجابیوں پر فائرنگ کی گئی۔ پروفیسر ملوندر جیت سنگھ وڑائچ معروف تاریخ دان ہیں۔ انہوں نے غدر پارٹی، بھگت سنگھ سمیت اُس زمانے کی مزاحمتی تاریخ پر خاصا کام کیا ہے اور مصدقہ تاریخی مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’اُدھم سنگھ نے جج جسٹس اٹکنسن سے ٹرائل کے دوران کہا کہ ’جب فائرنگ ہو رہی تھی تو میں مشرقی افریقہ میں تھا اور انڈیا میں نہیں تھا۔‘
ایک اور محقق ڈاکٹر نیوتاج سنگھ اپنی کتاب ’Challenge to Imperial Hegemony‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وہ اس بدقسمت دن بیرونِ ملک تھے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ اُدھم سنگھ سال 1917 سے 1922کے دوران نارتھ ویسٹرن ریلوے سے منسلک تھے اور 1919-20 میں وزیرستان کمپین میں حصہ لینے پر انہیں انڈیا جنرل سروس میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔‘
ڈاکٹر نیوتاج سنگھ کے مطابق وہ اس مقدس شہر اس سانحہ عظیم کے کچھ ماہ بعد آئے جس نے اُن پر گہرا اثر ڈالا اور اُن کی زندگی کا رُخ ہی موڑ دیا۔
دوسری جانب مصنف بی ایس میگھووالیا کی اُدھم سنگھ پر کتاب میں شامل دیپاچے میں انڈیا کے سابق وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن لکھتے ہیں کہ ’سردار اُدھم سنگھ نے اوائل عمری میں قومی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی مگر گاندھی سے اُن کے راستے جلد ہی جدا ہوگئے جس کی بنیادی وجہ سانحہ جلیانوالہ باغ تھا جس نے انہیں بڑی حد تک انفرادی سطح پر استعمار کے خلاف بغاوت پر اُبھارا۔‘
خیال رہے کہ کرشنا مینن اُس ٹیم کا حصہ تھے جس نے لندن میں ٹرائل کے دوران اُدھم سنگھ کا دفاع کیا، وہ مزید لکھتے ہیں کہ اُن (اُدھم سنگھ) کی جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتلِ عام کے دوران وہاں موجودگی اُن کی آنے والی زندگی پر اثرانداز ہوئی۔
محقق ڈاکٹر سکندر سنگھ، جنہوں نے اُدھم سنگھ پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا ہے، لکھتے ہیں کہ ’اُدھم سنگھ بھی وہاں (جلیانوالہ باغ میں) موجود تھے اور پانی پلانے کا کام کر رہے تھے۔‘
چناں چہ اس بحث میں جائے بغیر کہ اُدھم سنگھ اُس روز جلیانوالہ باغ میں موجود تھے یا نہیں؟ اس سوال کی کھوج زیادہ اہم ہے کہ لاہور سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے سنام (ضلع سنگرور) کے ایک محنت کش گھر میں پیدا ہونے والے شیر سنگھ کی زندگی میں وہ کیا اُتارچڑھاؤ آئے جنہوں نے اُن میں پنہاں انقلابی فکر کی پرداخت کی اور انہوں نے ’بدلہ‘ لینے کے لیے 20 سال سے زیادہ عرصہ تک صبر کیا۔
ادھم سنگھ کا جنم 26 دسمبر 1899ء کو ہوا۔ بچپن ہی میں اس کے ماں باپ انتقال کر گئے۔ اس نے اسکول کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔ ملک میں سیاسی ہلچل شروع ہو گئی تھی۔ لوگ فرنگیوں کے راج کے خلاف اُٹھ رہے تھے۔ پنجاب میں لوگوں کی آواز دبانے کے لئے تشدد کے سارے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے تھے۔ ان سب اقدامات کے پیچھے گورنر اوڈائر کا ہاتھ تھا جو اُس وقت پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اوڈائر اور ڈائر دو علیحدہ شخصیات تھیں۔ اوڈائر پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا جبکہ ڈائر (جس نے جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دیا) برطانوی فوج کا کرنل اور گورنر اوڈائر کا ماتحت تھا اور اس کے احکامات پر عمل کر رہا تھا۔
گورنر اوڈائر نے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کے بعد اپنے ماتحت کرنل ڈائر کے اقدام کا دفاع کیا اور اسے حق بجانب قرار دیا تھا۔ سیاسی معاملات کی ذرا بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے جانتے تھے کہ پنجاب میں ظالمانہ اقدامات کی وجہ وہاں کا لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر تھا۔
برطانیہ سامراج کے خلاف ملک بھر میں جاری تحریک آزادی کی وجہ سے یہ خوف جگہ پا چکا تھا کہ ہندوستان کے لوگ کسی وقت بھی اس کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کر سکتے ہیں۔ ان کو روکنے کا واحد طریقہ ایسے سخت اقدامات تھے جن سے انتظامیہ کو قانونی سپورٹ بھی میسر ہو۔ اس کے لئے 1918ء میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا، جس کے تحت حکومت کو اسپیشل ٹربیونلز قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔۔ جہاں برطانوی سامراج لے مسلط کردہ منصفوں کے فیصلوں کے خلاف نہ اپیل، نہ وکیل، نہ دلیل چلتی۔۔ ان سب اقدامات کا مقصد انقلابیوں کو سرگرمیوں سے روکنا تھا۔
ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی تیاری اورنفاذ میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اوڈائر کا اہم کردار تھا۔ یہ ایکٹ ان انقلابی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش تھے جنہوں نے پنجاب اور بنگال میں فرنگیوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے بعد ایک اور ظالمانہ ایکٹ رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act) کا نفاذ تھا جس کے تحت رہی سہی شخصی آزادی بھی ختم ہو گئی۔ اس پر پنجاب میں شدید ردِعمل آیا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مظاہروں میں شرکت کرنے لگے۔
مائیکل اوڈائر، جس کے ذہن میں پہلے ہی انقلابیوں کا خوف بیٹھا ہوا تھا، کو یقین ہو گیا کہ 1857ء کی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے اور اگر اس تحریک کو ابھی سے نہ روکا گیا تو برصغیر میں ان کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ اوڈائر کے لیے یہ صورتحال تشویشناک تھی۔ اگلے ہی روز اُس نے ہر قسم کی سیاسی سرگرمی پر پابندی لگا دی اور پھر 13 اپریل 1919ء کا دن آ گیا جب لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر کے ماتحت کرنل ڈائر نے نہتے لوگوں پر فائرنگ کا حکم دیا۔
جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 1500 کے قریب زخمی ہوئے۔ اُس دن نوجوان اُدھم سنگھ کی آنکھوں میں یہ سارا منظر محفوظ ہو گیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا مقصد ایک ہی تھا‘ اس بدترین قتلِ عام کے ذمہ داروں سے نہتے لوگوں کے خونِ ناحق کا انتقام لینا۔
دو لوگ اس کے ٹارگٹ تھے پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر اور جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دینے والا کرنل ڈائر۔ جلیانوالہ باغ قتل عام کے ذمہ دار جنرل ڈائر کی موت ادھم سنگھ کے منصوبہ بنانے سے پہلے ہو گئی تھی۔ 1927ء میں خبر ملی کہ کرنل ڈائر طبعی موت مر گیا ہے۔ یہ خبر ادھم سنگھ کے لیے خوشی سے زیادہ شاید غم ہی لائی ہوگی، کیونکہ وہ اس کے انتقام کا ایک ہدف اپنی موت مر چکا تھا۔۔ اب اس کا ایک ہی ہدف رہ گیا تھا: پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر، جس کی خواہش اور حکم سے ہی تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔
اوڈائر ہندوستان میں اپنی ملازمت پوری کرنے کے بعد برطانیہ جا چکا تھا اور اپنی ریٹائرڈ زندگی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ادھم کو معلوم تھا کہ قتل عام کی منظوری دینے والا یہ شخص انگلینڈ میں زندہ ہے۔
جس کے بعد ادھم سنگھ نے وہاں پہنچنے کی ہر ممکن کوشش شروع کر دی۔ ادھم سنگھ نے پہلے جنوبی افریقہ اور امریکہ کا سفر کیا
امریکہ میں قیام کے دوران ہی انہوں نے ایک ہسپانوی خاتون سے شادی کی جس سے اُن کے دو بچے بھی ہوئے۔ وہاں سے اس نے لندن کا رخ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک انگریز خاتون سے بھی شادی کی تھی مگر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ اُس سے ان کی کوئی اولاد ہوئی یا نہیں۔
لندن پہنچ کر وہ غدر پارٹی میں شامل ہوگیا، اس پارٹی کا مقصد بیرون ملک میں مقیم بھارتیوں کو آزادی کی جدوجہد کے لیے متحرک کرنا تھا۔ سنہ 1927 میں ادھم سنگھ بھگت سنگھ کے حکم پر بھارت واپس آیا تو اسے ملتان میں اسلحہ رکھنے اور ’غدر دی گونج‘ کے پمفلٹس تقسیم کرنے پر گرفتار کرلیا گیا۔ وہ آرمز ایکٹ کے تحت سنہ 1931 تک پانچ سال تک جیل میں بند رہا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اسے پنجاب پولیس کی نگرانی میں رکھا گیا، لیکن وہ چھپ چھپاتا ہوا کشمیر جانے میں کامیاب ہو گیا، جہاں سے وہ سنہ 1934 میں انگلینڈ پہنچا۔
اخبار ٹائمز آف انڈیا نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے، جو 1930 کی دہائی کے برطانوی خفیہ ریکارڈز پر مبنی ہے۔ یہ داستان اوڈائر کے قتل کے چار برس پہلے کے ان دنوں کی ہے، جب برطانوی جاسوسوں نے اُدھم سنگھ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا شروع کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اُدھم سنگھ پر نظر رکھنے کا آغاز 1936 کے وسط میں ہوا، جب وہ برطانیہ میں مقیم تھا اور مئی 1936 میں ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، آسٹریا، ہنگری اور اٹلی کے سفر کی اجازت طلب کر رہا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُدھم سنگھ نے 1927 میں گرفتار ہونے کے بعد اپنا نام اُدے سنگھ رکھ لیا تھا، لیکن لاہور سے 30 مارچ 1930 کو اس نے اپنے نئے پاسپورٹ پر دوبارہ اُدھم سنگھ لکھوایا۔ اس نام کی تبدیلی نے برطانوی حکام کے شبہات کو اور گہرا کر دیا۔
اخبار مزید بتاتا ہے کہ برطانوی ریکارڈ کے مطابق اُدھم سنگھ نے پولینڈ، لیٹویا، اور روس کا سفر کیا اور 25 جون 1936 کو لندن واپس لوٹ آیا۔ اس کے اس سفر کا آخری پڑاؤ لینن گراڈ تھا، جو اُس وقت کمیونسٹ تحریکوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ لینن گراڈ کے اس دورے نے برطانوی ایجنٹوں کے شکوک و شبہات کو مزید ہوا دی۔
اکتوبر 1937 تک برطانوی خفیہ ایجنٹ پوری طرح قائل ہو چکے تھے کہ وہ شخص، جس پر وہ نظر رکھے ہوئے ہیں، دراصل غدر پارٹی کا رکن اُدے سنگھ ہی ہے۔ 11 اکتوبر 1937 کی ایک خفیہ دستاویز میں لکھا گیا کہ ”اُدھم سنگھ، جن کا اصل نام اُدے سنگھ ہے، کا ریکارڈ مشکوک ہے۔“
فروری 1938 تک معاملہ یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ برطانوی حکام نہ صرف اُدھم سنگھ کی سرگرمیوں پر نظر رکھ رہے تھے بلکہ ان تمام افراد کو بھی مانیٹر کر رہے تھے جو اُن سے ملتے تھے یا سیاسی طور پر فعال تھے۔ یوں اُدھم سنگھ کے گرد خفیہ نگرانی کا جال دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا تھا۔
لندن میں قیام کے دوران اس نے انجینئرنگ کی نوکریاں شروع کر دیں۔ اس نے اپنے آپ کو بڑے دن کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اس درمیان اسے معلوم ہوا کہ مائیکل او ڈوائر 13 مارچ 1940 کو لندن کے کیکسٹن ہال میں ایسٹ انڈین ایسوسی ایشن اور سنٹرل انڈین سوسائٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرنے والا ہے۔
آخرکار وہ دن آ گیا تھا، جس کا اُدھم سنگھ کو اکیس سال سے انتظار تھا۔ یہ ادھم سنگھ کا وعدہ پورا کرنے کا دن تھا!
اُدھم سنگھ اپنے گرد نگرانی کے باوجود کاکسٹن ہال تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ اس تقریب میں اپنی بیوی کے نام پر جاری ہونے والے ٹکٹ پر داخل ہوئے۔
اُدھم سنگھ اوورکوٹ پہنے اور ہاتھ میں ایک کتاب لیے لندن کے Caxton Hall پہنچ گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے ریوالور کو بڑے سائز کی کتاب میں چھپا رکھا تھا۔ دوسری روایت کے مطابق ریوالور اس کے اوورکوٹ کی اندرونی جیب میں تھا۔ اُدھم سنگھ ہال میں جا کر پچھلی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ اب اوڈائر اسٹیج پر آگیا تھا۔ اُدھم سنگھ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ اس کے کانوں میں جلیانوالہ باغ کے زخمیوں کی چیخیں گونجنے لگیں۔ وہ اپنی کرسی سے اُٹھا، اطمینان سے چلتا ہوا اسٹیج کی طرف گیا اور نشانہ لے کر تین گولیاں مائیکل اوڈائر کے جسم میں اتار دیں۔ مرتے وقت اوڈائر کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
یوں اکیس سال بعد اُدھم سنگھ کا انتقام پورا ہو چکا تھا۔۔ اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔
اُدھم سنگھ نے اپنا انتقام لے لیا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے خونریز سانحے کے پس پردہ کردار مائیکل او ڈائر کو انہوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہی مائیکل او ڈائر، جو اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے، جب تاریخ کے اس بدترین قتل عام کا منصوبہ بنایا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اُدھم سنگھ کا ہدف واقعی او ڈائر ہی تھے، یا وہ بریگیڈیئر جنرل ڈائر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے؟
یہ بحث آج بھی جاری ہے کہ شاید اُدھم سنگھ کے دل میں جلیانوالہ باغ کے حقیقی مجرم جنرل ڈائر کو ختم کرنے کی خواہش تھی، لیکن انہوں نے او ڈائر کو نشانہ بنایا۔ تاہم، اس نظریے کو تاریخ دان ڈاکٹر نیوتاج سنگھ یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، "غلط شناخت کا امکان ہی نہیں، کیونکہ جنرل ڈائر 1927 میں، یعنی او ڈائر کے قتل سے 13 سال قبل، وفات پا چکے تھے۔ یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ اُدھم سنگھ اس حقیقت سے لاعلم رہے ہوں۔”
یوں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُدھم سنگھ نے اپنی جدوجہد اور انتقام کی منصوبہ بندی نہایت سوچ سمجھ کر کی تھی، اور او ڈائر ہی ان کا حقیقی ہدف تھا۔
دو دن کا ٹرائل ہوا جس میں اُدھم سنگھ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اوڈائر کو مارکر جلیانوالہ میں مرنے والوں کی روحوں سے اپنا دیرینہ وعدہ پورا کیا ہے۔ اُسے اپنے اقدام پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔
اودھم سنگھ ذہنی طور پر پھانسی کی سزا کے لئے تیار تھا۔ جب اس سے اپنے مقاصد کی وضاحت کرنے کو کہا گیا، اس نے کہا ”میں نے طویل عرصے سے ڈائر کے خلاف اس نفرت کو پالا ہے اور ڈوائر کو مرنا ہی تھا۔ میں 21 سال سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں۔ میں اپنے ملک کے لیے جان دے رہا ہوں۔“
مصنف گورڈن ہنی کامب کی کتاب ’مرڈرز آف دی بلیک میوزیم‘ کے مطابق اُدھم سنگھ نے ابتدا میں اپنے قتل کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے یہ کیا کیوں کہ مجھے اُس پر غصہ تھا۔ وہ اسی کا مستحق تھا۔ میں کسی سوسائٹی یا تنظیم سے منسلک نہیں ہوں۔ مجھے پروا نہیں ہے۔‘
’مجھے موت کا ڈر نہیں ہے۔ بوڑھے ہونے کا انتظار کرنے کا فائدہ ہی کیا؟ کیا ذیٹ لینڈ مر گیا؟ اسے مرنا تھا۔ میں نے اس پر دو (گولیاں) چلائی تھیں۔ میں نے ایک پبلک ہاؤس (پب) میں ایک سولجر سے ریوالور خریدا تھا۔ میں تین یا چار برس کا تھا جب میرے والدین چل بسے۔ کیا صرف ایک کی ہی موت ہوئی ہے؟ میرا خیال تھا کہ میں زیادہ کی جان لے سکتا تھا۔‘
لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈوائر کے قتل کے علاوہ جس چیز نے انگریزوں کو سب سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا، وہ چیز تھی سردار ادھم سنگھ کا نام۔ عدالت میں اس نے اپنا نام ’رام محمد سنگھ‘ اور مذہب ہندوستان بتایا۔ گویا اس نے خود کو ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کا مشترکہ نمائندہ ظاہر کیا۔
اس نام نے برطانوی حکومت کی ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی پالیسی کو چیلنج کیا جس کے ذریعے انگریز اتنے بڑے ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس ملک پر 200 سال سے زائد عرصے تک حکومت کی۔ اس لیے انگریزوں کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ یہ نام رکھنے والے کو پھانسی دینے سے پہلے اس نام کو ختم کیا جائے۔
یہ معاملہ عدالت میں چلا تو اسے بہت زیادہ توجہ حاصل ہوئی۔
اخبار انڈین ایکسپریس لکھتا ہے کہ ’5 جون 1940 کو اولڈ بیلی میں مرکزی فوجداری عدالت کی جیوری نے اُدھم سنگھ کو مائیکل او ڈائر کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا تو کلرک نے اُدھم سنگھ کی جانب رُخ کیا اور کہا کہ اُن کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ ہے کہ اُن کو قانون کے مطابق موت کی سزا کیوں نہ دی جائے تو اُدھم سنگھ نے کہا کہ ’وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنا چشمہ درست کیا، کاغذات سے پڑھنا شروع کیا، ’میں کہتا ہوں برطانوی استعمار مردہ باد۔ آپ کہتے ہیں کہ انڈیا میں امن نہیں ہے۔ ہم صرف غلام ہیں۔ نام نہاد تہذیب نسلِ انسانی کی تمام خرابیوں کی ذمہ دار ہے۔ آپ کو صرف اور صرف اپنی تاریخ پڑھنی چاہیے۔‘
حراست کے دوران اُدھم سنگھ نے 42 روز تک بھوک ہڑتال کی جسے ختم کرنے کے لیے انگریز حکام نے ہر جتن کیا اور بالآخر مصنوعی طریقے سے خوراک دی جب کہ انہوں نے دورانِ حراست اپنا نام تبدیل کر کے رام محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا۔ اُن کے نام کے پہلے تین الفاظ برصغیر کے تین بڑے مذاہب ہندو مت، اسلام اور سکھ ازم کی علامت تھے تو آخری لفظ آزاد اُن کی انگریز راج سے آزادی کی خواہش کا مظہر تھا جس کے بارے میں انہوں نے عدالت میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’میں پورے 21 سال تک بدلہ لینے کا انتظار کرتا رہا۔ میں خوش ہوں کہ میں نے اپنا کام کیا۔ میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ میں اپنے ملک کے لیے جان دے رہا ہوں۔ میں نے اپنے لوگوں کو برطانوی دورِ اقتدار میں فاقوں سے مرتے دیکھا ہے۔ میں نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ یہ میری ذمہ داری تھی۔‘
اُدھم سنگھ نے جیل میں پابندیوں کے خلاف 42 دن کی طویل بھوک ہڑتال کی، آخر اکتیس جولائی 1940ء کو اودھم سنگھ کو پینٹونویل جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا مگر وہ اپنے سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے سے پہلے اپنا مشن مکمل کرنے پر مطمئن تھا۔
اُدھم کی پھانسی نے مزاحمت کے سفر کو اور تیز کر دیا اور اس کے سات سال بعد 1947ء میں برطانوی سامراج کو ہندوستان سے رخصت ہونا پڑا۔ جلیانوالہ باغ کا خون رنگ لے آیا اور ادھم سنگھ کا آزاد وطن کا خواب پورا ہو گیا۔
سنہ 1974 میں برطانیہ نے اس وقت کی انڈین حکومت کے اصرار پر اسے انڈیا واپس لانے کی اجازت دی۔ اس کی راکھ ستلج کی لہروں کے سپرد کر دی گئی گئی۔ وہی لہریں جن میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی راکھ بھی شامل تھی، جنہوں نے اپنی جوانیاں صبحِ آزادی کے لئے قربان کر دی تھیں۔