جب سیاست نے پہلو بدلا: دائیں اور بائیں بازو کی مشہور زمانہ اصطلاحات کی کہانی

امر گل

آپ نے اکثر سیاسی مباحث میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحات کا شد و مد سے ہونے والا استعمال ضرور سنا ہوگا۔۔ اور ان کا ذکر سن کر آپ کے ذہن میں ایک سیاسی نقشہ ابھرتا ہوگا: ایک طرف روایت پرستی، قوم پرستی اور مذہبی سیاست کی چھاؤں؛ دوسری طرف ترقی پسندی، انقلاب پسندی اور مساوات کا خواب۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ ”دائیں“ اور ”بائیں“ کی تقسیم سیاست میں کب اور کیسے داخل ہوئی؟ کیا یہ محض دائروں میں بیٹھنے کی ترتیب تھی، یا کسی تاریخ کی کروٹ؟

یہ سمجھنے کے لیے آئیے، وقت کی گھڑی کو 1789 کی گرم اور بےچین فرانسیسی دوپہر کی طرف گھماتے ہیں۔۔

یہ کہانی شروع ہوتی ہے فرانس سے، جس کی فضاؤں میں گولیوں کی گونج تھی۔ 14 جولائی کو باسٹیل قلعہ پر حملہ ہو چکا تھا، اور انقلابی جذبے کا طوفان شاہی محل کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔

اسی ہنگامے میں فرانس کی پارلیمان (Estates General) کا اجلاس ہوا۔ اس اسمبلی کا مقصد صرف ایک تھا: ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا، جو صدیوں پرانے استبداد کی زنجیروں کو توڑ سکے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب تخت اور خلق کے بیچ کی لکیر دھندلا رہی تھی۔ اسمبلی میں ایک سوال گونج رہا تھا: بادشاہ کو کتنی طاقت دی جائے؟ کیا اسے مکمل ویٹو کا اختیار حاصل ہو؟ یا وہ محض ایک نمائشی علامت بن کر رہ جائے؟

 جب نشستوں کی ترتیب نے نظریے کی پہچان دی

ویب سائٹ ’لابروخولا وردے‘ پر شائع ایک مضمون میں گیئرمو کارواخال لکھتے ہیں کہ ان اصطلاحات کی ابتدا فرانسیسی انقلاب سے ہوئی، اور خاص طور پر 5 مئی 1789 کو بادشاہ لوئی شانزدہم کی جانب سے مجلسِ عمومی (States General) کو بلائے جانے سے۔ یہ مجلس 1302 میں فلپ چہارم کے دور میں قائم ہوئی تھی، اور اس میں تین طبقات کے نمائندے شامل ہوتے تھے:
1. کلیسا (پہلا طبقہ)
2. اشرافیہ یعنی نواب (دوسرا طبقہ)
3. عوامی نمائندے (تیسرا طبقہ)

1302 سے 1789 تک 487 سالوں میں یہ مجلس صرف 21 بار منعقد ہوئی، وہ بھی ہمیشہ مالی یا سیاسی بحرانوں کے موقع پر۔

تینوں طبقات کے نمائندوں کی تعداد تقریباً برابر ہوتی تھی، مگر رائے شماری اجتماعی ہوتی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اشرافیہ اور کلیسا، جو عموماً ایک دوسرے کے اتحادی ہوتے تھے، اپنے فیصلے نافذ کروا لیتے تھے، لیکن 27 دسمبر 1788 کو ’فرانسیسی کونسل آف اسٹیٹ‘ نے ایک انقلابی فیصلہ کرتے ہوئے تیسرے طبقے کے نمائندوں کی تعداد دوگنی کر دی۔

اب تیسرے طبقے کے نمائندوں کی تعداد 578 ہو گئی تھی، جبکہ کلیسا کے 291 اور اشرافیہ کے 270۔ یعنی عددی اکثریت تیسرے طبقے کے پاس آ گئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر نمائندے کو انفرادی ووٹ کا حق دیا جائے، مگر بادشاہ کی منظوری سے یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا، یعنی اب عملی طور پر صورتحال یہ تھی کہ دو طبقات بمقابلہ ایک۔

اسی اجلاس میں، اسمبلی کے صدر کے نقطۂ نظر سے اشرافیہ کے افراد دائیں جانب اور تیسرے طبقے یعنی عام شہریوں کے نمائندے بائیں جانب بیٹھے۔ دائیں جانب والے بادشاہت اور اشرافیہ کے مفادات کے محافظ تھے، جبکہ بائیں جانب والے جمہوریت اور شہری آزادیوں کے حامی تھے۔ البتہ چونکہ تیسرے طبقے میں بورژوا (تاجر و درمیانے طبقے) افراد شامل تھے، وہ آزاد تجارت اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے بھی حامی تھے، جو آج کل دائیں بازو سے جوڑی جاتی ہیں۔

تاہم، یہ تقسیم برقرار رہی اور 28 اگست 1789 کو جب تیسرے طبقے کے نمائندوں اور نچلے طبقے کے کچھ کلیسائی افراد نے خود کو ”قومی اسمبلی“ قرار دیا، اور ایک آئین بنانے تک جدا نہ ہونے کا عہد کیا، تو وہ اسی طرح صدر کی دائیں اور بائیں طرف بیٹھے۔

یہ تقسیم خاص طور پر اس وقت نمایاں ہوئی جب نئی آئین کی ایک شق پر ووٹنگ ہوئی، جو بادشاہ کو آئندہ قانون ساز اسمبلی کی کسی بھی قانون سازی کو ویٹو کرنے کا اختیار دیتی تھی۔ جو اس کے حق میں تھے، وہ دائیں طرف کھڑے ہوئے؛ اور جو مخالفت میں تھے، وہ بائیں طرف۔

جب 1 اکتوبر 1791 کو نئی قانون ساز اسمبلی پہلی بار اکٹھی ہوئی، تو Club des Feuillants (آئینی بادشاہت کے حامی) Girondins (اعلیٰ بورژوا طبقے کے نمائندے)
دائیں طرف بیٹھے، جبکہ Jacobins (چھوٹے کاروباری اور درمیانے طبقے کے نمائندے) Club des Cordeliers (عوام کے نمائندے) بائیں جانب بیٹھے۔

مورخ کرسٹوفر کوکرین کے مطابق، یہ ایک اتفاق تھا کہ بادشاہت کے حامی دائیں اور انقلابی بائیں طرف بیٹھے۔ اگر ترتیب الٹی ہوتی، تو آج دایاں بایاں اور بایاں دایاں کہلاتا۔ یعنی یہ اصطلاحات محض علامتی ہیں، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگ کس کے ساتھ بیٹھنا چاہتے تھے اور کن سے فاصلہ چاہتے تھے۔

1789 میں ایک رائٹ ونگ کے بیرن نے لکھا: ”میں نے ہال کے مختلف حصوں میں بیٹھنے کی کوشش کی اور کسی خاص جگہ کو اپنانے سے گریز کیا، تاکہ اپنی رائے پر مکمل اختیار برقرار رکھ سکوں، لیکن مجھے مجبوراً بائیں طرف چھوڑنا پڑا، ورنہ ہمیشہ اکیلا ووٹ دینا پڑتا اور گیلریوں سے تمسخر کا نشانہ بنتا۔“

وقت کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں کی تعریف میں تبدیلی آتی گئی، خاص طور پر انیسویں صدی کے سیاسی نظریات کے ابھرنے کے بعد۔ بعض اوقات جو ایک دور میں ”بایاں بازو“ کہلاتا تھا، وہ کسی اور دور میں ”دایاں بازو“ بن جاتا ہے۔

رفتہ رفتہ بورژوا طبقہ، جو ابتدا میں بائیں بازو کا نمائندہ تھا، اشرافیہ کی جگہ لے کر دائیں بازو میں شامل ہو گیا، جبکہ محنت کش طبقہ، جو سوشلسٹ، کمیونسٹ اور ٹریڈ یونین کے ذریعے منظم ہوا، بائیں بازو میں جگہ پاتا گیا۔

ہسٹری ویب سائٹ کے مطابق یہ تقسیم 1790 کی دہائی میں بھی جاری رہی، جب اخبارات نے پہلی بار اسمبلی میں موجود ترقی پسند ”لیفٹ“ اور روایت پسند ”رائٹ“ کا ذکر کرنا شروع کیا۔ نپولین بوناپارٹ کی حکومت کے دوران یہ امتیاز چند سالوں کے لیے مٹ گیا، لیکن 1814 میں بوربن خاندان کی بحالی اور آئینی بادشاہت کے آغاز کے ساتھ، لبرل اور قدامت پسند نمائندے ایک بار پھر قانون ساز ایوان میں بائیں اور دائیں طرف اپنی اپنی جگہوں پر آ بیٹھے۔

انیسویں صدی کے وسط تک ”لیفٹ“ اور ”رائٹ“ فرانسیسی زبان میں متضاد سیاسی نظریات کے لیے مختصر اصطلاحات کے طور پر رائج ہو چکے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے خود کو ”سینٹر لیفٹ“ ، ”سینٹر رائٹ“ ، ”انتہا پسند لیفٹ“ اور ”انتہا پسند رائٹ“ کہنا بھی شروع کر دیا۔

بہرحال یہ 1789ع میں فرانس کی پارلیمان (Estates General) کا اجلاس ہی تھا، جس میں ”دائیں بازو“ (Right Wing) اور ”بائیں بازو“ (Left Wing) کی اصطلاحات نے جنم لیا۔ ”دائیں“ والوں نے روایت، بادشاہت، کلیسا، اور اشرافیہ کا ساتھ دیا، جبکہ ”بائیں“ والوں نے انقلاب، مساوات، عوامی حاکمیت اور جمہوریت کا پرچم تھاما۔

یہ محض علامتی زبان نہ تھی۔ اخباروں نے اسی بنیاد پر رپورٹس لکھیں، کارٹون بنے، اور عوام نے سیاست کو پہلی بار ”دو پہلوؤں“ میں دیکھنا سیکھا۔

یوں، نشستیں صرف نشستیں نہ رہیں، وہ نظریے کی پہچان بن گئیں اور گزشتہ 236 برسوں میں مذکورہ اصطلاحات سیاسی لغات کا اس طرح حصہ بنیں جیسے پتھر پر لکیر۔

جب ان اصطلاحات نے پر پھیلانے شروع کیے

میڈلین کارلائل، ٹائم میگزین میں شائع ایک مضمون میں لکھتی ہیں ”فرانسیسی انقلاب کو پوری دنیا دیکھ رہی تھی، اور اس کا مخصوص سیاسی اندازِ بیان (jargon) وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیلنے لگا، مگر یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ فرانسیسی مورخ مارسل گوچے کے مضمون "Right and Left” کے مطابق، لیفٹ اور رائٹ کو سیاسی شناخت کی بنیادی درجہ بندیاں بننے میں تقریباً ایک صدی کا عرصہ لگا، یعنی بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک“

لیفٹ اور رائٹ کی موجودگی بولشویک روس اور ابتدائی سوویت یونین میں ان اصطلاحات کے دائرہ کار کی واضح مثال ہے۔

میڈلین کارلائل، ییل یونیورسٹی میں یورپی فکری و ثقافتی تاریخ کی پروفیسر مارسی شور کے حوالے سے لکھتی ہیں ”بولشویک فرانسیسی انقلاب سے بے حد متاثر تھے۔ وہ اسے اپنا ورثہ سمجھتے تھے، جسے وہ نہ صرف جاری رکھنا چاہتے تھے بلکہ مزید بلند سطح تک لے جانا چاہتے تھے۔“

ان کے نزدیک یہ ایک تاریخی عمل کا لازمی مرحلہ تھا، جو بالآخر کمیونزم کی طرف لے جاتا۔ ان کے لیے، لیفٹ اور رائٹ کی اصطلاحات نے نئی مخصوص معنویت اختیار کی۔

جو افراد کمیونسٹ پارٹی کے نظریاتی مؤقف سے ہٹتے تھے، انہیں خاص طور پر اسٹالِن کے دور میں ’لیفٹ ونگ‘ یا ’رائٹ ونگ ڈوی ایشنسٹ‘ (انحراف کرنے والے) کہا جاتا تھا۔

عام طور پر بائیں جھکاؤ کا مطلب ایک انقلابی، بین الاقوامی مزدور تحریک کو اپنانا ہوتا، جبکہ دائیں جھکاؤ کا مطلب کسی نہ کسی حد تک قوم پرستی سے جُڑ جانا ہوتا۔

لیکن ان اصطلاحات کی تعریفیں جامد نہیں تھیں، یہ ہمیشہ پارٹی کے بدلتے ہوئے نظریاتی مؤقف کے مطابق تبدیل ہوتی رہیں۔

بہرحال پھر یہ تقسیم صرف فرانس تک محدود نہ رہی۔ جب روس میں بالشویک انقلاب آیا، تو لینن اور ٹراٹسکی کی جماعت نے فرانسیسی انقلاب کی زبان کو اپنایا۔ ”لیفٹ“ انقلابی بن گیا، مزدوروں کا علمبردار؛ جبکہ ”رائٹ“ استحکام اور ریاستی کنٹرول کا حامی۔

اور پھر بیسویں صدی میں، جب یورپ جنگوں میں جھلس رہا تھا، جب فاشزم اور سوشلسٹ تحریکیں اپنے عروج پر تھیں، تب لیفٹ اور رائٹ کا بیانیہ اور بھی تیز ہو گیا۔ جرمنی، اٹلی، اسپین، ہر جگہ یہی دو انتہائیں نظریاتی جنگ لڑ رہی تھیں۔

ہسٹری ویب سائٹ کے مطابق، فرانس کی ”لیفٹ“ اور ”رائٹ“ کی یہ اصطلاحات 1800 کی دہائی میں باقی دنیا تک پھیل گئیں، لیکن انگریزی بولنے والے ممالک میں یہ بیسویں صدی کے اوائل تک عام نہیں ہوئیں۔ آج یہ اصطلاحات سیاسی منظرنامے کے دو مخالف سروں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، لیکن ان کی ابتدا آج بھی دنیا کے کئی قانون ساز اداروں میں نشستوں کے انتظام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

امریکہ میں یہ اصطلاحات تاخیر سے آئیں۔ 1920 کی دہائی میں ان کا استعمال بڑھا، مگر نیو ڈیل کی لہر نے بائیں بازو کو معتدل بنا دیا۔ پھر سرد جنگ آئی، اور ”لیفٹ“ کا مطلب ہو گیا ”خطرناک“۔ جو بھی مزدوروں کی بات کرتا، مساوات کی بات کرتا، اس پر ”سرخ کمیونسٹ“ کا ٹھپہ لگتا۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں بیسویں صدی کی امریکی تاریخ کے ماہر برینٹ سیبل کے مطابق، ”اگر آپ سوشلسٹ یا کمیونسٹ رجحانات کا برملا اظہار کرتے تو آپ کو سرکاری ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا۔“ اس صورتحال کا یہ مطلب نکلا کہ بہت سے لوگ کھلے عام خود کو لیفٹسٹ کہنے سے گریز کرنے لگے۔

لیکن 1960 کی دہائی میں جب طلبہ تحریکیں اٹھیں، جب ویت نام جنگ کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں، تو نئی نسل نے ”لیفٹ“ کو نئے مفہوم کے ساتھ گلے لگا لیا۔ وہ نہ سوشلسٹ تھے، نہ کمیونسٹ، مگر لبرل ازم کے دائرے سے باہر سوچنے والے ضرور تھے۔

پاکستان میں دائیں بازو (Right Wing) اور بائیں بازو (Left Wing) کی اصطلاحات کی بات کریں تو اس کی تاریخ نہایت دلچسپ اور پیچیدہ ہے، حتیٰ کہ اس حد تک گنجلک ہے کہ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہمارے یہاں دھڑ بھیڑ کا ہے تو سر بکرے کا

1947 میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد، ریاست کو ایک نظریاتی سمت متعین کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اُس وقت دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحات واضح طور پر عام نہیں تھیں، لیکن ان کے نظریاتی بیج موجود تھے۔

دائیں بازو کی نمائندگی وہ قوتیں کر رہی تھیں جو مذہب کو ریاست کی بنیاد بنانا چاہتی تھیں، بائیں بازو وہ طبقہ تھا جو سیکولر، جمہوری اور معاشی برابری پر مبنی نظام کا حامی تھا۔

پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے۔ کبھی یہ سخت نظریاتی جنگ کا میدان تھا، کبھی منافقانہ سیاسی نعرے بازی کا۔ آج یہ اصلاحات زیادہ تر صحافتی اور علمی حلقوں میں رائج ہیں، جبکہ عوامی سیاست میں شخصیات، مفادات اور مقتدر قوتوں کے تعلقات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

 آج ’لیفٹ‘ اور ’رائٹ‘ کا مطلب کیا ہے؟

یہ صورت حال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آج کی دنیا میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی سرحدیں دھندلا چکی ہیں۔ یہ اصطلاحات اب ایک سیاسی زبان بن چکی ہیں، ایسی زبان جسے ہر دور اپنے مفہوم پہنا دیتا ہے۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا کی اسکالر سوفیا روزن فیلڈ کے مطابق، لیفٹ اور رائٹ کی اصطلاحات موقع محل پر منحصر ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی بدلتے رہتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر ملک میں ان اصطلاحات کے معنی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ عمومًا یورپ میں دایاں بازو قدامت پسندی (Conservatism) سے جبکہ بایاں بازو سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظریات سے منسلک سمجھا جاتا ہے، تاہم امریکہ میں اکثر ڈیموکریٹک پارٹی کو ’بایاں بازو‘ کہا جاتا ہے۔

فرانسیسی انقلاب، یورپ میں سوشلسٹ اور قوم پرست تحریکوں کے عروج، اور امریکہ میں طلبہ کی بیداری جیسے مختلف ادوار میں، ان اصطلاحات نے مختلف معانی اختیار کیے۔

آج لیفٹ سے مراد عموماً ترقی پسند سوچ (progressivism) جبکہ رائٹ سے مراد قدامت پسند سوچ (conservatism) لی جاتی ہے۔ لیکن ’مرکز‘ کی تعریف اب بھی متحرک ہے، اور مسلسل بدل رہی ہے۔

ایک رجحان جو بار بار دیکھنے میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب مرکز کمزور ہوتا ہے تو لیفٹ اور رائٹ کی صف بندی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔

جینیفر برنز کہتی ہیں ”میری رائے میں ’رائٹ‘ کی اصطلاح آج دوبارہ زور پکڑ رہی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صاف طور پر خود کو ’لبرل‘ نہیں سمجھتے، اور ان کے خیالات میں بہت تنوع بھی ہے۔“

مائیکل کازن کے مطابق، آج کے دور میں سیاست دان اکثر اپنے مخالفین کو ”انتہا پسند لیفٹ“ یا ”انتہا پسند رائٹ“ کہہ کر ان کی سیاست کو غیر مستند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور یہ حقیقت اب بھی برقرار ہے کہ لیفٹ اور رائٹ کی اصطلاحات کے مفاہیم مستقبل میں ایک بار پھر تبدیل ہو سکتے ہیں۔

کازن کہتے ہیں: ”میں مورخ ہوں؛ میرا یقین ہے کہ کسی بھی اصطلاح کے مفہوم پر کبھی مکمل اتفاق نہیں ہوتا۔
جتنی اہم کوئی اصطلاح ہو، اس کے معنی اتنے ہی زیادہ متنازع ہوتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close