اسلام آباد : کچھ عرصہ خبر آئی تھی کہ غریبوں کی مالی مدد کے لیے شروع کیے گئے پروگرام بینظیر انکم سپورٹ کی گنگا سے سے بڑے بڑے لوگوں نے نہ صرف ہاتھ دھوئے بلکہ اس میں شنان بھی کیا. یہ خبریں بھی میڈیا کی زینت بنی رہیں کہ سندھ میں مستحق طلبہ کے لیے اسکالرشپس بھی اشرافیہ اور بیوروکریٹس کے لاڈلوں کی بیرون ملک ” تعلیم“ پر ٹھکانے لگائی گئی
اب آڈیٹر جنرل نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی بے ضابطگیوں کا پول کھولا ہے، جنہیں جان کر ایک باضمیر انسان دنگ رہ جاتا ہے
بی آئی ایس پی انتظامیہ صدقہ خور سرکاری ملازمین کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے، مستحقین کے پیسے کھانے والے ملازمین سے تاحال ریکوری نہ ہو سکی ہے۔ اب تک انتظامیہ نے صرف اپنے افسران سے محض 9 لاکھ ریکوری کی ہے۔ آڈیٹر جنرل نے ایک بار پھر بی آئی ایس پی کو سرکای ملازمین سے ہڑپ کی گئی رقم جلد ریکور کرانے کی ہدایت کر دی ہے
آڈیٹر جنرل نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے 2019-20 میں غیر مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام کے تحت گریڈ 1 سے گریڈ 20 کے 55 ہزار 383 سرکاری ملازمین، پینشرز اور ان کی فیملیاں باقاعدگی سے رقوم لیتی رہیں۔ ان سرکاری ملازمین اور ان کی فیملیوں نے6 ارب 80 کروڑ روپے کی بھاری رقم وصول کی
رپورٹ میں مزید جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ دنگ کردینے والا ہے. رپورٹ کے مطابق چار ججوں نے براہ راست خود مجموعی طور پر 6 لاکھ، 90 ہزار روپے بی آئی ایس پی سے وصول کیے، جبکہ گریڈ 20 کے 8 افسران نے اپنے اور فیملی کے نام پر 8 لاکھ 31 ہزار، گریڈ 19 کے 61 افسران نے 74 لاکھ، گریڈ 18 کے 83 افسران نے 1 کروڑ سے زائد رقوم وصول کی
سب سے زیادہ سندھ کے 56 ہزار ملازمین نے بی آئی ایس پی کی رقوم پر ہاتھ صاف کیے اور 6 ارب 74کروڑ روپے وصول کیے
سوال یہ ہے کہ کیا اب مستحقین اور غرباء کے حق پر دن دھاڑے ڈالے گئے اس ڈالے کی تحقیقات بھی انہی” ایماندار اور دیانتدار“ ججوں اور بیوروکریسی سے کروائی جائے گی.