نیو ساﺅتھ ویلز: موقر ریسرچ جرنل ’’ہسٹوریا میتھمیٹیکا‘‘ اور ’’فاؤنڈیشنز آف سائنس‘‘ کے آن لائن شائع ہونے والے تازہ شمارے میں ایک تازہ اور حیرت انگیز تحقیق کے نتائج کی تفصیلات دی گئی ہیں، جن کے مطابق چکنی مٹی سے بنی قدیم تختی (ٹیبلٹ) سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ جیومیٹری آج سے 3700 سال پہلے ’’بابل‘‘ کے رہنے والوں نے نہ صرف ایجاد کی تھی، بلکہ وہ اسے روزمرہ زندگی میں استعمال بھی کر رہے تھے
واضح رہے کہ بابل (Babylon) کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا کی پہلی باقاعدہ سلطنت بھی وجود میں آئی تھی. بابل کے چھٹے اور مشہور ترین بادشاہ ’’حمورابی‘‘ کو انسانی تاریخ کا ’’سب سے پہلا قانون ساز‘‘ قرار دیا جاتا ہے
چکنی مٹی کی یہ تختیاں، جن پر نقش کی ہوئی علامات سے جیومیٹری کے میدان میں اہلِ بابل کی تاریخی سبقت ثابت ہوتی ہے، لگ بھگ اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں جب حمورابی وہاں کا حکمران تھا
یہ دریافت برسوں سے جاری تحقیق کا ایک اور نتیجہ ہے جو آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں ریاضی کے ماہر، ڈاکٹر ڈینیئل ایف مینسفیلڈ کر رہے ہیں
اپنی تازہ تحقیق میں مینسفیلڈ نے اسی زمانے کی ایک اور لوح Si.427 کا جائزہ لیا۔ یہ چھوٹی سی گول لوح چکنی مٹی سے بنائی گئی تھی جو غالباً 1900 قبلِ مسیح سے 1600 قبلِ مسیح کے بابل سے تعلق رکھتی ہے
یہ لوح 1894 میں بابل کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں برآمد ہوئی تھی اور پچھلے کئی سال سے استنبول کے آرکیولاجیکل میوزیم میں رکھی ہے۔ مینسفیلڈ نے اسی عجائب گھر میں کئی مہینوں تک اس لوح کا باریک بینی سے جائزہ لیا
تجزیئے سے معلوم ہوا کہ یہ لوح ’’لینڈ سروے‘‘ (زمینی رقبے کی پیمائش اور ریکارڈ) سے متعلق کوئی دستاویز تھی جسے چکنی مٹی کے ٹکڑے پر کسی باریک نوک والی سلاخ (اسٹائلس) سے نقش کیا گیا تھا۔ (اس زمانے میں کاغذ قلم ایجاد نہیں ہوئے تھے اور لکھنے کا سارا کام نرم پتھر اور چکنی مٹی کے ٹکڑوں پر باریک اور نوک دار سلاخوں سے کیا جاتا تھا۔)
البتہ سرویئر نے جیومیٹری، بالخصوص ٹرگنومیٹری (علم المثلث) میں اپنی مہارت کا حیرت انگیز عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس لوح پر بالکل ٹھیک ٹھیک مستطیل (ریکٹینگل) اور قائمۃ الزاویہ مثلث (right-angled triangles) بنا کر زمینی رقبے کو ظاہر کیا ہے
مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ خیال مزید پختہ ہو گیا ہے کہ جدید جیومیٹری (بشمول ٹرگنومیٹری) کی ابتداء قدیم یونان سے ایک ہزار سال قبل ’’بابل‘‘ کی تہذیب میں ہوچکی تھی جہاں یہ علم نہ صرف باقاعدہ طور پر پڑھایا جاتا تھا بلکہ زمین، جائیداد اور اراضی کا حساب رکھنے میں بھی بکثرت استعمال کیا جاتا تھا
مینسلفیلڈ کہتے ہیں ’’ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ قدیم یونانیوں نے آسمان کا مشاہدہ کرتے دوران جیومیٹری ایجاد کی تھی لیکن ان دریافتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہلِ بابل نے ان سے بھی کم از کم ایک ہزار سال پہلے، زمینی مسائل حل کرنے کےلیے جیومیٹری ایجاد کی تھی اور وہ اس کا بھرپور استعمال بھی کیا کرتے تھے‘‘
یہاں یہ بات خاص طور پر یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی مینسفیلڈ 2017ع میں قدیم بابل کی ایک لوح کا تجزیہ کرکے (جسے ’’پلمپٹن 322‘‘ کہا جاتا ہے) ثابت کر چکے ہیں کہ ٹرگنومیٹری کا علم قدیم یونانیوں نے نہیں بلکہ ان سے کم از کم ایک ہزار سال پہلے اہلِ بابل نے ایجاد کیا تھا
2017ع کی تحقیق میں آسٹریلوی ماہرین کا کہنا تھا کہ رائٹ اینگلڈ ٹرائی اینگل کی سب سے قدیم اور درست ترین جدولیں (ٹیبلز) آج سے 3,700 سال پہلے بابل میں مٹی کی ایک لوح پر نقش کی گئی تھیں؛ اور اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم المثلث (ٹرگنومیٹری) کی بنیاد یونانیوں نے نہیں بلکہ ان سے بھی 1,200 سال پہلے اہلِ بابل نے باضابطہ طور پر رکھ دی تھی
واضح رہے کہ میٹرک سائنس کے طالب علموں کو علم ٹرگنومیٹری میں مسئلہ فیثاغورث پڑھاتے وقت یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس مسئلے کو تقریباً 540 قبلِ مسیح میں یونانی مفکر اور ریاضی داں فیثا غورث نے سب سے پہلے نہ صرف پیش کیا تھا بلکہ اسے حل بھی کیا تھا
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رائٹ اینگلڈ ٹرائی اینگل سے تعلق رکھنے والا یہ مسئلہ (یعنی مسئلہ فیثا غورث) ہی جدید علم المثلث کی بنیاد بھی ہے؛ جو ریاضی کے میدان میں یونانیوں کی برتری کا تاریخی ثبوت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور فلسفی ’’ہپارکس‘‘ کو ٹرگنومیٹری کا بانی قرار دیا جاتا ہے، جو 120 قبل مسیح کے یونان میں رہتا تھا۔ لیکن نئی دریافت کی روشنی میں یہ دعوے غلط دکھائی دیتے ہیں، جب کہ اب مزید ہونے والی اس نئی تحقیق اور دریافت نے اس کے غلط ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.