جوہری مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں ہیں: امریکا اور ایران

ویب ڈیسک

ویانا – امریکی اور ایرانی حکام کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ویانا میں جاری جوہری مذاکرات حتمی مرحلے میں پہنچ گئے ہیں اور اگلے چند دنوں میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ایران جوہری معاہدے کے ایک فریق فرانس نے بھی اس کی تصدیق کی ہے

امریکا اور ایران نے کہا ہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے بالواسطہ بات چیت ’حتمی مراحل‘ میں داخل ہو چکی ہے

ساتھ ہی ایران نے امریکی کانگریس سے درخواست کی ہے کہ وہ ’سیاسی بیان‘ جاری کرے، جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ واشنگٹن ڈیل کی بحالی کے لیے ویانا مذاکرات میں ممکنہ معاہدے کے لیے پرعزم ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ آیا مشترکہ جامع منصوبہ عمل یا ایران جوہری معاہدہ بحال ہوسکے گا۔ انہوں نے بدھ کے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گو یہ ایک پیچیدہ مذاکراتی عمل ہے لیکن ہمارے تجزیے کے مطابق ہم بات چیت کے بالکل آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں

انہوں نے کہا ”یہ حقیقتاً وہ فیصلہ کن گھڑی ہے، جس کے دوران ہم یہ تعین کرنے کے قابل ہو جائیں گے کہ جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کی تعمیل میں باہمی واپسی کا آغاز ہو رہا ہے یا ایسا نہیں ہے“

نیڈ پرائس جس وقت واشنگٹن میں یہ باتیں کہہ رہے تھے تقریباً اسی دوران ویانا میں جاری جوہری مذاکرات میں ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقر کنی نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ”ہفتوں سے جاری سنجیدہ بات چیت کے بعد ہم ایک معاہدے کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ جب تک ہر چیز پر اتفاق نہیں ہو جاتا تب تک کسی چیز پر اتفاق نہیں ہوتا۔“

علی باقر کنی نے مغربی طاقتوں سے مطالبہ کیا، ”وہ حقیقت پسند بنیں، ہٹ دھرمی سے گریز کریں اور گزشتہ چار سال سے حاصل ہونے والے سبق سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ یہ ان کے سنجیدہ فیصلوں کا وقت ہے“

عالمی طاقتیں ویانا میں ایران کے ساتھ بات چیت کے آخری مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں، جس کا مقصد 2015ع کے معاہدے کو بحال کرنا ہے، جس سے 2018ع میں ٹرمپ انتظامیہ نے یک طرفہ طور پر امریکا کو نکال لیا تھا

اس سے قبل بدھ ہی کو فرانس نے کہا ہے کہ تہران کے پاس معاہدے کو قبول کرنے کے لیے صرف چند دن باقی ہیں۔ ساتھ ہی اس نے خبردار کیا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ایک بڑا بحران جنم لے گا

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی وزیر خارجہ جین ییوس لی ڈرین نے سینیٹ کو بتایا کہ ’یہ ہفتوں کی نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے اور یہ کہ مذاکراتی عمل میں اب ’سچائی کا لمحہ‘ آن پہنچا ہے۔ ایرانیوں کو سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس بہت واضح انتخاب ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’یا تو وہ (ایرانی) آنے والے دنوں میں ایک سنگین بحران کو جنم دیں گے یا وہ ایک ایسا معاہدہ قبول کر لیں گے جو تمام فریقین خصوصاً تہران کے مفادات کا تحفظ کرے۔‘

انہوں نے خبردار کیا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے کیونکہ ایران 2015ع کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر رہا ہے، جس کا مقصد یہ تحفظ فراہم کرنا تھا کہ تہران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا

انہوں نے کہا کہ جتنی زیادہ تاخیر ہوتی جا رہی ہے اتنا ہی ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو تیز کرتا جا رہا ہے۔

مذاکرات میں چین کے نمائندے نے کہا کہ ’ایران امریکی نقطہ نظر کے جواب میں تمام آپشنز میز پر رکھ کر تعمیری کام کر رہا ہے۔‘

چینی مذاکرات کار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ایران نے نہ صرف یہ سیدھا طریقہ اپنایا ہے بلکہ ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی بنیاد پر سیاسی فیصلہ بھی کیا ہے۔‘

دریں اثنا ایران نے امریکی کانگریس پر زور دیا کہ وہ ’سیاسی بیان‘ جاری کرے جس سے اندازہ ہو کہ واشنگٹن ڈیل کی بحالی کے لیے ویانا مذاکرات میں ممکنہ معاہدے کے لیے پرعزم ہے

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنی وزارت کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے فنانشل ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں جے سی پی او اے پر امریکا کی جانب سے ضمانت فراہم کرنے پر زور دیا

انہوں نے کہا کہ ’اصولی طور پر ایران میں رائے عامہ کسی سربراہ مملکت کے خالی الفاظ کو ضمانت کے طور پر قبول نہیں کر سکتی۔‘

ایرانی وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے ایرانی مذاکرات کاروں سے کہا ہے کہ وہ مغربی فریقین کو یہ تجویز پیش کریں کہ ’کم از کم ان کی پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ کے اسپیکر، بشمول امریکی کانگریس، سیاسی بیان کی صورت میں معاہدے سے اپنی وابستگی کا اعلان کر سکتے ہیں اور جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی طرف واپس آ سکتے ہیں۔ ایران کا مطالبہ ریاضی کے فارمولے کی طرح واضح ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ان اقدامات کی تصدیق کیسے کی جائے گی، لیکن ہم بنیادی طور پر امریکی طرف سے ضمانتوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اس عرصے کے دوران مسائل کا سامنا ہے کیونکہ دوسرے فریق کے پاس سنجیدہ اقدام کا فقدان ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر واشنگٹن کے ارادے ’حقیقی‘ ہیں تو انہیں براہ راست بات چیت اور رابطے ہونے سے پہلے کچھ ’عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔‘

واضح رہے کہ اس ماہ کے اوائل میں ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات کا آٹھواں دور شروع ہوا تھا

اس کا مقصد 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے، جس سے 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے یک طرفہ طور پر امریکا کو نکال لیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close