وعدوں کی ہانڈی میں دلاسے کی ڈوئی

وسعت اللہ خان

ماضی کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ درخشاں ہی ہوتا ہے۔۔ بالکل اس شخص کی طرح، جو بھلے زندگی میں کیسا ہی کمینا ہو، مرنے کے بعد اس میں خوبیاں ہی ڈھونڈی جاتی ہیں۔

کوئی بھی حکومت ہو، اس لحاظ سے اچھی ہی ہوتی ہے کہ وہ حال سے بے حال لوگوں کو آنے والی صبح کی روپہلی کرنیں ایڈوانس میں دکھاتی رہتی ہے۔ بالکل اس ماں کی طرح جو بھوکے بچوں کو پھسلانے کے لیے چولہے پر پانی سے بھری ہانڈی میں دو پتھر ڈال کے ڈوئی چلاتی رہتی ہے۔ ’بس میری جان کے ٹکڑو، تھوڑا صبر اور لذیذ سالن تیار ہونے ہی والا ہے۔‘

دو چار بار تو یہ ناٹک چلتا ہے پھر بچے بھی آہستہ آہستہ سیانے ہونے لگتے ہیں کہ اماں کے پاس دلاسے کی ڈوئی کے سوا کچھ نہیں۔

دعا ہے کہ موجودہ ہائبرڈ (چوں چوں کا مربہ) سیٹ اپ جو ’اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری راستے میں ہے‘ کی لوری سنا کے قوم کو سلانے کی کوشش کر رہا ہے، واقعی اس بار سچ کر جائے۔

آئی ایم ایف کے ریکارڈ میں بھی ہماری گواہی آدھی ہے۔ یعنی زبانی کچھ نہیں مانا جائے گا۔۔ جو وعدہ کرنا ہے لکھ کے اور اپنے متمول دوست ممالک سے ضمانتی تصدیق کرا کے ہمارے پاس جمع کراؤ۔

شاید چینی بھی اب ہمارے عمل داروں کے بیانات نہیں پڑھتے۔ تب ہی تو سی پیک سے ان کا دل بھی اوبھتا جا رہا ہے۔ ان کی ابتدائی گرم جوشی رجائیت کے پائیدان سے اترتی اترتی ’خصماں نوں کھاؤ‘ کی دہلیز تک آن پہنچی ہے۔

اوروں اور غیروں کو کیا روئیں، خود ہمارے بچوں نے بھی اخبار پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ہمارے بادشاہ گر قوم کے مستقبل کی روغنی ہانڈی میں اعلیٰ معیار کے وعدے اور تازہ قَسمیں ڈال کے کیسی جانفشانی سے چمچ گھما رہے ہیں۔

ثبوت اس کا یہ ہے کہ پچھلے برس لگ بھگ آٹھ لاکھ پڑھے لکھے، غیر پڑھے لکھے، اہل، نااہل، ہنر مند، غیر ہنر مند نوجوانوں نے قانونی طور پر پاکستان چھوڑ دیا۔ غیر قانونی راستوں سے کتنے بچے فرار ہو رہے ہیں، اس کا پتہ تب لگتا ہے جب بحیرۂ روم میں کوئی کشتی ڈوبتی ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر رانا محمود الحسن نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت پچاس ہزار ڈگری یافتہ انجینیر کام کی تلاش میں جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔

سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے سیکرٹری ذوالفقار حیدر نے کمیٹی کے روبرو بتایا کہ اس وقت بیرون ملک جو بھکاری پکڑے جا رہے ہیں، ان میں سے نوے فی صد پاکستانی ہیں۔ ان میں وہ جیب کترے بھی شامل ہیں جو حج، عمرے، زیارات کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو کر سعودی عرب، ایران اور عراق پہنچ کے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔

دو روز پہلے ہی ملتان ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے عمرے کے ویزے پر جانے والے ایک ٹولے کو آف لوڈ کیا، جس میں گیارہ خواتین، چار مرد اور ایک بچہ شامل ہے۔ انہوں نے ایف آئی اے کو بتایا کہ ٹریول ایجنٹ نے اس شرط پر عمرے کا ویزا لگوایا کہ کمائی آدھی آدھی۔

خلیجی ریاستوں میں ہمارے کارکن انڈیا اور نیپال کے کارکنوں کے مقابلے میں کم پیسوں پر بھی کام کرنے پر بخوشی آمادہ ہیں۔ پھر بھی پاکستانی کارکنوں پر غیر ملکی آجر اعتماد نہیں کرتے اور انڈین و بنگلہ دیشی افرادی قوت کو ترجیح دیتے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹر محمود الحسن کے بقول انڈیا چاند پر اتر رہا ہے اور ہم روزانہ نیا چن چڑھا رہے ہیں۔

ریاست اندرونِ ملک آئین و قانون کے دبدبے اور بیرون ملک سافٹ امیج کا نام ہے۔ لوگوں کے دل سے آئین اور قانون کا دبدبہ اٹھا تو ریاست گئی۔ سافٹ امیج پر دھبہ لگا تو اعتبار گیا۔ اعتبار گیا تو عزت گئی۔

اب تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ترک، جو کچھ عرصے پہلے تک پاکستان کا نام سن کے تمتما جاتے تھے، اب صرف پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کے زیرِ لب مسکرانے لگتے ہیں تو جانے خوش ہوتے ہیں کہ ترس کھاتے ہیں۔

40 برس پہلے 162 ممالک میں پاکستانیوں کی ویزا فری انٹری کو ہم نے اپنی مسلسل محنت و لگن سے آج صرف 10 ممالک میں ویزہ فری انٹری تک سکیڑ دیا ہے۔ حتی کہ وہ 63 ممالک بھی سبز پاسپورٹ پر رحم کھانے کو تیار نہیں جن کے شہری پیشگی ویزہ لیے بغیر پاکستان میں کبھی بھی داخل ہو سکتے ہیں۔

بیرونِ ملک پکڑے جانے والے 90 فیصد بھکاری اگر پاکستانی ہیں تو بھلے ہوتے رہیں۔ اب تو ہمارے حکمران بھی سالم طیارہ کر کے کسی خلیجی ایرپورٹ پر اترتے ہیں تو میزبان سجاوٹی مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے یہی سوچتا رہتا ہے کہ ارمانی، ورساچی، بربری یا ٹیڈ بیکر کا سوٹ ڈاٹے یہ خوش پوش فقیر اس بار کتنا ادھار مانگنے آیا ہے۔

جس طرح چہار جانب اوپر تلے مسلسل گل کھلائے جا رہے ہیں، اس کے بعد یہی کسر باقی ہے کہ غیر ملکی میزبان خیر مقدمی ہال میں پینافلیکس لگوا لے کہ ’ادھار محبت کی قینچی ہے۔‘ ہمارے کسی بھی اہلکاری مہمان کو ڈیزائنرز گھڑی، منقش تلوار، میباخ کلاس مرسڈیز، جڑاؤ گھوڑا اور تینزونائٹ نیکلس دینے سے پہلے اس پر کندہ کروا دے کہ ناٹ فار سیل۔

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد،
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں۔۔
(جون ایلیا)

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close