روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) پندرہویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

فرائیڈے کی آزادی

میں بھاگتا ہوا میں جھونپڑی کے پاس پہنچا..
اس کے بانس سے بنے ہوئے دروازے کو لات مار کر کھولتے ہوئے پکارا..
فرائیڈے.. فرائیڈے
فرائیڈے میری آواز سنتے ہی وہ دروازے کی طرف لپکا، مجھے دیکھا اور میرے قدموں میں گر گیا..
میں نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور کہا
”جلدی… جلدی میرے ساتھ چلو…. بھاگو جلدی….“
اور پھر ہم دونوں منہ اٹھائے اپنے اندازے کے مطابق سمندر کی طرف دوڑنے لگے..
رات کا اندھیرا، تاریک جنگل.. تھوڑی دور گئے تھے کہ اچانک ایک درخت سے ایک جنگلی آ دم خور نے چھلانگ لگائی اور ہمارے سامنے چھرا تان کر کھڑا ہو گیا..

اس نے مجھے اور فرائیڈے کو دیکھا اور چیخ کر اعلان کیا کہ وہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا!

اب میں پستول کا استعمال کرنے پر مجبور تھا، میں نے پستول نکالا، نشانہ لیا اور پستول داغ دیا..
دھماکے سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ وہ جنگلی چیخ مار کر زمین پر لَوٹنے لگا..

ہم وہاں سے تیزی سے بھاگے، جزیرے میں اب جنگلی آدم خوروں کی چیخیں گونجنے لگی تھیں۔ وہ ہماری تلاش میں بھاگے چلے آ رہے تھے۔ میں نے بھاگتے بھاگتے دو پستول فرائیڈے کو بھی پکڑا دیئے۔ ہم بھا گے جا رہے تھے، اندازے سے ہی سہی لیکن ہماری سمت درست تھی۔ ہم جنگل سے باہر نکل آئے تھے۔

جنگلی جھاڑیوں میں بھاگنے سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے. لیکن میں خوش تھا، کیونکہ سامنے وہی چٹان تھی، جہاں میں نے اپنی کشتی کو چھپایا تھا۔
اِدھر ہم چٹان پر چڑھے، اُدھر دس بارہ آدم خور ہمارے سامنے آ گئے.. وہ سب مل کر ہم پر تیر بر سا رہے تھے۔ ہم نے ایک ہی لمحے میں چار پستول داغ دیئے۔ تین آدم خور زمین پر گر کر تڑپنے لگے۔
میں نے دوسرا فائر کیا. آدم خور پیچھے ہٹنے لگے.. جب تک ہم چٹان تک پہنچے، بلاشبہ وہاں کئی سو ننگ دھڑنگ آدم خور جمع ہو چکے تھے۔ وہ سب مل کر چیختے چلاتے تیروں کی بارش کرنے لگے۔ ہم چٹان کی آڑ لے کر اس کے پیچھے بیٹھ کر فائرنگ کر نے لگے۔

میں نے بندوق بھر کر چلا دی۔ چھروں نے کتنے ہی آدم خوروں کو شدید زخمی کر دیا.. اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ بہت بہادر تھے۔ وہ مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ میں اور فرائیڈے ان پر گولیاں برساتے جا رہے تھے۔ بہت سے آدم خور مر گئے تھے۔ مشرق سے سورج طلوع ہوا اور ہر طرف دن کا اجالا پھیلنے لگا۔

چاروں طرف جنگلی آدم خوروں کی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ بہت سے زخمی تھے، کچھ رینگ رہے تھے لیکن ان کے پیچھے تیر اندازوں کی ایک قطار ہماری طرف بڑھ رہی تھی..

ایک طرف سے باقاعدہ لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے فرائیڈے سے کہا۔ ”تم جلدی سے کشتی میں سوار ہونے کی کوشش کرو۔‘‘
کشتی نیچے پتھروں کے درمیان ہچکولے کھا رہی تھی..

فرائیڈے کھسکتا ہوا کشتی میں پہنچ گیا۔ میں نے جنگلی آدم خوروں پر بندوق اور پستول سے فائر کئے۔ دوآ دم خور گر پڑے..
میں فائرنگ کرتا ہوا کشتی کی طرف بڑھنے لگا۔ فرائیڈے اب تک کشتی کو کھول کر پتھروں سے نکال کر سمندر کے کنارے لے آیا تھا۔

میں نے دیکھا، آدم خوروں کی ایک بڑی تعداد بھی کشتیوں میں سوار ہو رہی تھی۔ وہ ہمارے فرار کو نا کام کر نے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔

فرائیڈے نے اونچی آواز میں مجھے کشتی پر سوار ہونے کے لئے کہا۔ میں فائر نگ کرتا کشتی کے قریب پہنچا۔ چھلانگ لگائی اور کشتی میں سوار ہو گیا..

فرائیڈے نے تیزی سے کشتی کے چپو چلانے شروع کر دیئے۔

اب ہماری کشتی چٹان کی اوٹ سے باہر نکل کر کھلے سمندر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہم اب دشمنوں کے بالکل سامنے تھے، وہ کشتیوں میں سوار ہمارا  تعاقب کرتے ہوئے ہم پر تیروں کی بارش کر رہے تھے۔ ہماری کشتی اب تیزی سے دشمنوں کے جزیرے سے دور ہوتی جا رہی تھی۔لیکن ان کی کشتیوں کی رفتار تیز تھی اور وہ ہمارے قریب آ تے جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا ایک کشتی میں چار چار آدم خور بیٹھے تھے۔ میں نے فرائیڈے سے کہا،
”چپو چھوڑ دو اور میرے ساتھ مل کر ان پر فائرنگ شروع کر دو..“

کیونکہ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہم ان کی رفتار کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے، وہ بہت جلد ہمارے سروں پر پہنچ سکتے تھے، اس لئے ضروری تھا کہ انہیں ختم کیا جاتا۔

ہم دونوں ان کشتیوں پر سوار آدم خوروں پر گولیاں چلانے لگے۔ وہ مسلسل بہادری سے آ گے بڑھ رہے تھے۔ ان کی کشتیاں اب بالکل ہماری سیدھ میں تھیں۔ ہماری پہلی باڑ کے نتیجے میں تین آدم خور ہلاک یا زخمی ہو کر کشتیوں سے گر گئے۔ ہم نے دوسری کشتی کو نشانہ بنایا۔ آدم خور اب ہم پر تیروں کے ساتھ نیزے بھی پھینک رہے تھے۔ ہم دونوں مسلسل فائر کرتے اور انہیں زخمی یا ہلاک کر رہے تھے، وہ سمندر میں گر رہے تھے..

میں نے دیکھا اب صرف دو آدم خور ایک ایک کشتی میں باقی رہ گئے تھے۔ لیکن دوسری طرف دیکھا تو ہمارے مقابلے کے لئے کنارے سے چار دوسری کشتیاں سمندر میں اتاری جا رہی تھیں.. بہر حال ان چار کشتیوں اور ہمارے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ میں نے فرائیڈے سے کہا کہ اب وہ تیز تیز چپو چلائے ۔ میں نے فائرنگ جاری رکھی ۔ دو میں سے ایک آ دم خور مر گیا۔

میری مسلسل اور اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں پیچھے آنے والی تازہ دم کشتیوں کو آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی، کیونکہ وہ پہلی دو کشتیوں میں سوار اپنے ساتھیوں کا انجام بھی دیکھ چکے تھے..

میں نے چپو سنبھال لیے ۔
اب ہم دونوں تیزی سے کشتی کھینے لگے۔ سمندر پر سکون تھا۔ اس لئے ہماری کشتی کی رفتار تیز تر ہوگئی..

آدم خور اب بھی ہم پر تیر برسا رہے تھے، لیکن اب ان کی کشتیاں آگے نہیں بڑھ رہی تھیں۔ ہماری گولیوں اور ان کے مرنے والے ساتھیوں نے انہیں خوفزدہ کر دیا تھا۔

تھوڑی دیر کے بعد آدم خوروں کا جزیرہ ہماری نظروں سے غائب ہو گیا اور ہم اپنے جزیرے کے قریب پہنچ رہے تھے.. میں بے حد خوش تھا کہ فرائیڈے کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جزیرے کے قریب پہنچے تو فرائیڈے نے مشورہ دیا،
”ماسٹر وہ لوگ ہم پر بہت بڑا حملہ کرنے کی کوشش کریں گے.. اب ہمیں اپنی کشتی کو اس کی پہلی جگہ کے بجائے جنوبی کنارے پر چھپا دینا چا ہیے۔“
حالات کی نزاکت کو دیکھ کر مجھے اس کا مشورہ معقول لگا اور ہم دونوں نے کشتی کو جنوبی ساحل پر لے جا کر جھاڑیوں میں چھپا دیا.

وہاں سے ہم سیدھے اپنے کیبن میں پہنچے۔ ہم دونوں بے حد تھکے ہوئے تھے۔ میں تو پہنچتے ہی تخت پر لیٹ گیا۔ کتے اور طوطے نے ہمارا زبردست استقبال کیا۔ فرائیڈے کھانا تیار کرنے لگا..

میں شام تک سویا رہا۔ پھر جزیرے کا گشت کیا۔ آدھی رات تک پہرہ دینے کے بعد پھر سو گیا۔ میرا دل مسرور اور مطمئن تھا، فرائیڈے کی زندگی بچ گئی تھی..!

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close