حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، اسلامی تاریخ کا روشن باب. 

خصوصی تحریر

عمر فاروق رضی اللہ عنہ، وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں، جن کے لیے حیدرِ کرار علی رضی اللہ عنہ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو صاحبِ فضیلت ہوگا اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت اور دین سے نکلنے والا ہوگا، کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے، ان سے بغض رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے
رسول اللہ ﷺ جا ارشادِ مبارکہ ہے: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ایک حدیث پاک میں ہے، میرے صحابہ ؓستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کروگے، ہدایت پاؤ گے۔
سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں، باغ جن کے نیچے نہریں ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ،یہی بڑی کامیابی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’یا رب! اسلام کو خاص عمر بن خطاب ؓ کے ذریعے غلبہ وقوت عطا فرما۔‘‘ (المستدرک حاکم ) حضور ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت عمر رضیؓ اعلان نبوت کے چھٹے سال 27 سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اور انہیں بہت بڑا سہارا مل گیا، یہاں تک کہ حضورﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر حرم محترم میں علانیہ نماز ادا فرمائی. ہرسول اللہﷺ کی اسی دعائے مستجاب کی برکت سے حضرت عمرؓ ایمان لائے، اسی لیے آپ کو ”مرادِ رسولﷺ‘‘ کہا جاتا ہے.
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو دارِ اَرقم میں موجود مسلمانوں نے اس زور سے تکبیر بلند کی کہ اسے تمام اہل مکہ نے سُنا۔ میں نے دریافت کیا،یارسول اﷲﷺ، کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں،یقیناً ہم حق پر ہیں، میں نے عرض کیا، پھر ہم پوشیدہ کیوں رہیں؟ چناںچہ وہاں سے تمام مسلمان دو صفیں بنا کر نکلے ۔ایک صف میں حضرت حمزہؓ اور ایک میں، مَیں تھا. جب ہم اس طرح مسجد الحرام میں داخل ہوئے تو کفار کو سخت ملال ہوا۔ اس دن سے رسول کریم ﷺنے مجھے فاورق کا لقب عطا فرمایا، کیونکہ اسلام ظاہر ہوگیا اور حق و باطل میں فرق نمایاں ہو گیا۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے، عمرؓ کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں جس نے علانیہ ہجرت کی ہو۔ جس وقت حضرت عمرؓ ہجرت کے ارادے سے نکلے، آپ نے تلوار کی میان شانے پر لٹکائی اور تیر پکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ پھر وہاں موجود کفارِ قریش میں سے ایک ایک فرد سے الگ الگ فرمایا، تمہاری صورتیں بگڑیں، تمہارا ناس ہوجائے، ہے کوئی تم میں جو اپنی ماں کو بیٹے سے محروم، اپنے بیٹے کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ آئے اور پہاڑ کے اس طرف آکر مجھ سے مقابلہ کرے اور میرا راستہ روک کر دکھائے۔ میں اس شہر سے ہجرت کر رہا ہوں۔‘‘ کفار کو آپ کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ بن خطاب ہی ہوتے۔ حضرت ابو سعید ؓسے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے عمر ؓسے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمرؓ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اللہ رب العزت نے (یومِ عرفہ) اہلِ عرفہ پر عموماً اور حضرت عمرؓ پر خصوصاً فخر و مباہات فرمایا، جتنے انبیاء مبعوث ہوئے ہیں ، ہر ایک کی امت میں ایک محدث ضرور ہوا ہے، اگر میری امت کا کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا۔ محدث کون ہوتا ہے؟ تو فرمایا: جس کی زبان سے فرشتے گفتگو کریں۔ (طبرانی اوسط)
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا، وہ شخص جس سے اللہ رب العزت (اپنی شان کے لائق) سب سے پہلے مصافحہ فرمائے گا، اور سلام بھیجے گا اور جسے (اپنی شان کے لائق) ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا، وہ عمرؓ ہے۔(ابنِ ماجہ وحاکم)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی فضیلت و بزرگی چار باتوں سے ظاہر ہے۔ بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں قتل کا حکم دیا گیا اور آیت مبارکہ نازل ہوئی(جس سے فاروق اعظمؓ کی رائے کی تائید فرمائی گئی)آپ نے ازواجِ مطہراتؓ کے پردے کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا جس پر آیت نازل ہوئی(یوں حضرت عمر ؓ کی تجویز کی وحی کے ذریعے تائید کی گئی)حضور پرنور ﷺ نے آپ کے متعلق دعا فرمائی کہ اے اللہ، عمر کو مسلمان بناکر اسلام کو غلبہ عطا فرما۔آپ نے سب سے پہلے صدیق اکبر ؓ سے بیعتِ خلافت کی۔
تذکرہ نگار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓوہ پہلے شخص ہیں ،جنہیں امیر المومنین سے موسوم کیا گیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نے تاریخ وسن ہجری جاری کیا۔  آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نےلوگوں کے حالات کی خبر گیری کے لیے راتوں کو گشت کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے(بے جا) مذمت کرنے والوں پر حد جاری فرمائی۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے دفاتر قائم کیے اور وزارتیں مقرر کیں۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نےسب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے صدقے کا مال اسلامی امور میں خرچ کرنے سے روکا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے ترکہ کے مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاذ فرمایا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نےسیدنا علیؓ کو ’’اطال اللہ بقاء ک اور ایدک اللہ‘‘ (یعنی اللہ آپ کی عمر دراز فرمائے اور آپ کی تائید فرمائے) کہہ کر دعا دی۔ سب سے پہلے درّہ ایجاد کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نے شہروں میں (باقاعدہ) قاضی مقرر کیے۔ آپ نےکوفہ، بصرہ، جزیرہ، شام، مصر اور موصل کے شہر آباد کیے۔
آپ ہی نے مقامِ ابراہیم کو اس جگہ قائم کیا، جہاں وہ اب ہے، ورنہ پہلے وہ بیت اللہ سے ملا ہوا تھا۔ آپ نے مسجد نبویؐ کی توسیع کی اور اس میں ٹاٹ کا فرش بچھایا۔ آپ نے مسجد میں قندیل روشن کرنے کا رواج عام کیا۔ آپ نےعشرطو خراج کا نظام نافذ کیا۔ جیل خانہ وضع کیے اور جلاوطنی کی سزا متعارف کرائی.
سیدنا عمرفاروقؓ کسی کو گورنر یا حاکم مقرر کرنے سے پہلے یہ عہد لیتے تھے کہ وہ
٭اعلیٰ گھوڑے پر سوار نہ ہوں گے۔
٭باریک کپڑے نہ پہنیں گے۔
٭چھنا ہوا آٹا نہیں کھائیں گے۔
٭ذاتی خدمت کے لیے نوکر چاکر نہیں رکھیں گے۔
٭ضرورت مندوں سے ہمیشہ ملیں گے۔
خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں سیدنا عمر ابن خطاب ؓ نے فرمایا: لوگو! مجھے تم سے آزمایا جا رہا ہے اور تمہیں مجھ سے۔ میں اپنے دونوں پیش روؤں کے بعد تم میں جانشین بن رہا ہوں، جو چیز ہمارے سامنے (یعنی مدینہ میں) ہوگی اُسے ہم شخصی طورپر انجام دیں گے اور جو چیز غائب (دوسری جگہ) ہوگی تو اس کے لیے قوی (قابل)اور امین (دیانت دار) لوگوں کو مامور کریں گے۔جو اچھا کام کرے گا اس پر ہمارا احسان بھی زیادہ ہوگا اور جو بُرا کام کرے گا، ہم اُسے سزا دیں گے۔اللہ ہمیں اور تمہیں معاف کرے۔
اس کے بعد آپ نے اپنے مقرر کردہ عمال اور گورنروں سے مخاطب ہو کر فرمایا: یاد رکھو! میں نے تمہیں لوگوں پر حاکم اور جبار بناکر نہیں بھیجا کہ تم لوگوں پر سختی کرو، بلکہ میں نے تمہیں لوگوں کا امام بناکر بھیجا ہے، تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا کرو اور انہیں زدوکوب نہ کرو کہ ان کی عزتِ نفس مجروح ہوجائے اور نہ ان کی بے جا تعریف کرو کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں۔ ان پر اپنے دروازے بند نہ رکھو کہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں اور نہ ان پر کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح دو کہ یہ ان پر ظُلم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے کریمﷺ نے فرمایا کہ
اس امت میں نبی کے بعد ابوبکر و عمر سب سے بہتر ہیں ۔
(تاریخ الخلفاء ص ٨٧)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے ھمراہ تھا کہ حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آتے نظر آئے تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اھل جنت کے سردار ہیں یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سواء سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں
(مسند ابی یعلیٰ جلد نمبر ١ ص ٢٧٣)(ترمذی شریف ص ٢٠٧ مطبوعہ مجتبائی)(مصنف ابن شیبہ جلد ١٢ ص ١١)
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
٫٫اطیعوابعدی ابابکر الصدیق ثم عمر ترشدوا واقتدوابھما ترشدوا،،
میرے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پھر عمر کی اطاعت کرو ہدایت پا جاؤ گے اور ان دونوں کی پیروی کرو ہدایت پا جاؤ گے۔
محمد بن حنفیہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے والد ماجد حضرت علیؓ سے عرض کی: رسول اللہﷺ کے بعد تمام لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ فرمایا: ابوبکر،ؓ میں نے عرض کی: پھر کون ہے؟ فرمایا: عمرؓ۔ (بخاری: 3671)
مشہور محقق و عالم ابوعمرو محمد بن عبدالعزیز الکشی بیان کرتے ہیں: ابوعبداللہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا: مجھے سفیان ثوری نے محمد بن المنکدر کے حوالے سے یہ روایت بیان کی:
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے کوفہ میں منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دیتا ہو، تو میں اس کو ضرور وہ سزا دوں گا، جو افترا پرداز کو دی جاتی ہے، ابو عبداللہ نے کہا: ہمیں مزید حدیث بیان کریں، تو سفیان نے جعفر کے حوالے سے بیان کیا: ابوبکرؓ اور عمرؓ سے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے، (رجال الکشی، ص: 338، مُؤسَّسَۃُ الْاَعْلَمِی لِلْمَطْبُوْعَات، کربلا)‘‘۔
ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے بذاتِ خود فارس کی جنگ میں شریک ہونے کے متعلق حضرت علیؓ سے مشورہ کیا، اُنہوں نے فرمایا: آپ مسلمانوں کے معاملات کے نگہبان ہیں اور ملک کے لیے حاکم کا مقام ایسا ہے جیسے لڑی میں پروئے گئے موتی، لڑی ہی کی وجہ سے موتی ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں، اگر لڑی ٹوٹ جائے تو تمام موتی بکھر جاتے ہیں۔ آج اگرچہ عرب تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن اسلام کی وجہ سے زیادہ ہیں، اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے غالب آنے والے ہیں لہٰذا آپ مرکز ہی میں رہیں اور جنگ میں شریک ہونے کی زحمت نہ کریں کیونکہ ان عجمیوں نے اگر آپ کو میدانِ جنگ میں دیکھ لیا تو کہیں گے کہ اہلِ عرب کی جان یہی شخص ہے، اگر اس جڑ کو کاٹ دیا جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راحت مل جائے گی، اس طرح اُن کے حملے شدید تر ہو جائیں گے اور وہ آپ ہی کو قتل کرنے کے زیادہ آرزو مند ہوں گے‘‘ (نہج البلاغہ، ص:146)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کو خلیفہ رسول حضرت عمرؓ کی زندگی نہایت عزیز تھی، اس لیے ایسے نازک موقع پر آپؓ نے صائب مشورہ دیا، کیونکہ کوئی بھی نامناسب مشورہ مسلمانوں کے لیے بڑی مصیبت کا باعث ہو سکتا تھا، مگرحضرت علیؓ نے امانت سمجھ کر مکمل دیانتداری کے ساتھ مسلمانوں کے مفادِ عامہ کے مطابق مشورہ دیا۔
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فلاں شخص کے شہروں کو برکت دے، اُنہوں نے کجی کو سیدھا کیا، بیماری کا علاج کیا، سنت کو قائم کیا، فتنہ کو ختم کر دیا، دنیا سے پاک و صاف لباس اور کم عیب میں رخصت ہوئے، خلافت کی نیکی کو حاصل کیا اور اس کے شر سے اجتناب کیا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو بجا لائے اور اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرے جس طرح ڈرنے کا حق تھا‘‘ (نہج البلاغہ، ص:887، خطبہ: 226)۔ شیخ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ”فلاں شخص سے حضرت عمرؓ بن خطاب کی ذات مراد ہے‘‘ (شرح نہج البلاغہ، ج:12، ص:3)۔ جناب رئیس احمد جعفری نے نہج البلاغہ کے اُردو ترجمہ میں ذکر کیا ہے: ”یہ خطبہ حضرت عمرؓ کے متعلق ہے‘‘ (نہج البلاغہ، مترجم اردو، ص: 541)۔
حضرت علیؓ کو معلوم ہوا: بعض لوگ حضراتِ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بغضانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، آپؓ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو صاحبِ فضیلت ہو گا اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت اور دین سے نکلنے والا ہو گا، کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے، ان سے بغض رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول اللہﷺ کے دو بھائیوں، دو وزیروں، دو ساتھیوں، قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں، میں ان لوگوں سے لا تعلق ہوں جو ان دونوں کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، میں اس پر انہیں سزا دوں گا‘‘
”اَبُوالسَّفَر بیان کرتے ہیں: میں حضرت علیؓ کے جسم پر اکثر ایک چادر دیکھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: کیا وجہ ہے کہ آپ اس چادر کو بہت زیادہ پہنا کرتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: یہ چادر مجھے میرے خلیل اور میرے دوست عمرؓ نے پہنائی ہے، اُنہوں نے اللہ سے خلوص کا معاملہ کیا تو اللہ نے ان سے خیر خواہی کی‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 31997)۔
حضرت عمرؓ جب اَبُوْلُولُؤَۃ لعین کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئے تو حضرت علیؓ آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے، حضرت عمرؓ رونے لگے، حضرت علیؓ نے رونے کی وجہ پوچھی، فرمایا: موت کا پروانہ آ چکا ہے اور میں نہیں جانتا کہ میرا ٹھکانہ جنت میں ہوگا یا جہنم میں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: آپ کو جنت کی بشارت ہے، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ابوبکر و عمر اہلِ جنت کے سردار ہیں اور میں نے یہ بات نبی کریمﷺ سے بے شمار مرتبہ سنی ہے۔ (مختصر تاریخِ دمشق، ج: 18، ص: 298)۔
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے فرمایا: عمرؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں، جب حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے ان کے بارے میں یہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں، وہ فوراً آپ کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا: علیؓ! کیا تم نے سنا ہے کہ نبی کریمﷺ نے مجھے اہلِ جنت کا چراغ کہا ہے؟ فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: علیؓ! یہ حدیث آپ مجھے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دے دیں، حضرت علیؓ نے اپنے دستِ مبارک سے بسم اللہ کے بعد لکھا: یہ وہ بات ہے جس کی ضمانت علیؓ عمرؓ کے لیے دیتا ہے، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے جبریل امینؑ سے سنا، اُنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سنا کہ عمرؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں۔ حضرت علیؓ کی یہ تحریر حضرت عمرؓ نے لے لی اور اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ جب میری وفات ہو جائے تو غسل و تکفین کے بعد یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ جب آپؓ شہید ہوئے تو حسبِ وصیت وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی۔ (اَلرِّیَاضُ النَّضْرَۃ فِیْ مَنَاقِبِ الْعَشَرَۃ، ج:2، ص:311 تا 312)۔
امام محمد باقرؓ بیان کرتے ہیں: حضرت جابرؓ بن عبداللہ نے بیان کیا: جب وصال کے بعد حضرت عمرؓ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو حضرت علیؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے ان سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں ان جیسا نامہ اعمال لے کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں، (تَلْخِیْصُ الشَّافِی، ص: 219، مطبوعہ ایران)۔
امام محمد باقرؓ فرماتے ہیں: ”حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اولادِ بزرگوار کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ کے حق میں وہ بات کہیں جو سب سے بہتر ہو‘‘ (اَلصَّوَاعِقُ الْمُحْرِقَہ، ج:1، ص: 155)۔
(یکم محر الحرام، یومِ شہادتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خصوصی تحریر)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close