❖ توپ
صبح اٹھ کر سب سے پہلے ہم نے جنوبی ساحل پر جا کر اپنی کشتی کو سمندر میں دھکیلا اور سارے جزیرے کا کنارے کے ساتھ ساتھ چکر لگایا۔ صورت حال معمول کے مطابق تھی۔ واپس آ کر کشتی کو وہیں محفوظ کر کے، میں اور فرائیڈے اپنی نامکمل بڑی کشتی کو بنانے میں مصروف ہوگئے۔ کام کے دوران فرائیڈے نے مجھے اپنے اغوا کی پوری داستان سنائی۔
وہ اس روز کشتی بنانے میں مصروف تھا کہ پیچھے سے آدم خور آئے اور اسے پکڑ لیا، انہوں نے اس کے منہ میں گھاس ٹھونسی اور اسے اٹھا کر لے گئے۔ اس نے دل میں کئی بار سوچا کہ میں اسے بچانے کے لئے ضرور آؤں گا۔ مگر جب یہ خیال آتا کہ میں نے وہ جزیرہ ہی نہیں دیکھا تو وہ بہت مایوس ہوتا.. وہ ان لوگوں کی قید میں تھا، جو کسی صورت بھی اسے زندہ چھوڑ نے والے نہیں تھے۔
اس نے بتایا ۔ ”ماسٹر آپ مجھے بار بار یاد آتے تھے۔ اگر آپ میری مدد کے لئے نہ آتے تو اب تک وہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے، بھون کر کھا گئے ہو تے..‘‘
میں نے اس کی ساری داستان سننے کے بعد پوچھا ’’کیا اپنا اتنا نقصان کرانے، کئی آدمیوں کو ہلاک اور زخمی کرانے کے بعد بھی وہ بدلہ لینے ہم پر حملہ کرنے کے لئے آئیں گے… کیا تمہارے خیال میں ہمیں جوابی کاروائی کی تیاری کرنی چا ہیے؟‘‘
فرائیڈے نے بڑے زور سے کہا ’’ماسٹر وہ ضرور آئیں گے.. وہ بڑا حملہ کریں گے… ہمیں ان کے حملے کا جواب دینے کے لئے ابھی سے تیاری کر لینی چا ہیے۔‘‘
بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں رات کو باری باری کیبن کے اندر ہی مورچہ بنا کر پہرہ دینا ہوگا۔ بارود کا ایک تھیلا بھی ہمارے پاس تھا۔ گولیاں بھی ایک تھیلے میں بھری ہوئی تھیں۔ ہم دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے.
فرائیڈے کو اس کے دشمنوں کی قید سے چھڑا کر ہمیں اپنے جزیرے میں آئے سات دن ہوئے تھے کہ میرا پیارا کتا مر گیا۔ مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ اس نے جزیرے میں میری تنہائی کے انتہائی شدید اور تکلیف دہ دنوں میں میرا ساتھ دیا تھا۔ اس کی رفاقت نے مجھے بڑا سہارا دیا تھا۔ وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ اب عرصے سے اس میں وہ پہلی سی تیز طراری نہیں رہی تھی. وہ تھوڑا سا بھاگنے سے ہاپنے لگتا تھا۔ وہ کیبن میں اپنی جگہ پر بیٹھا گھنٹوں مجھے دیکھتا اور ہانپتا رہتا تھا۔ میں نے اس کے لئے قبر کھودی اورا سے دفن کر دیا۔ اس کی قبر پر میں نے لکڑی کی ایک تختی بھی لگا دی۔ اس پر میں نے لکھا تھا۔
’’میرا وفادار کتا۔‘‘
عجیب اتفاق ہے کہ وفادار کتے کی وفات کے دوسرے ہفتے طوطا بھی مر گیا۔ یہ بھی ایک ایسا صدمہ تھا جو مجھے بہرحال برداشت کرنا پڑا۔ خدا جانے قدرت کو کیا منظور تھا، جو یکے بعد دیگرے کتا اور طوطا مر گئے. میں نے کتے کے پاس ہی طوطے کو بھی دفن کر دیا۔
پندرہ بیس دن گزر گئے، لیکن دشمن کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ میں اطمینان کا اظہار کرتا تو فرائیڈے کہتا،
”ماسٹر، وہ ضرور آئیں گے.. وہ تیاریاں کر رہے ہوں گے.. وہ ہمیں کسی قیمت پر معاف نہیں کر یں گے.. اس لئے بھی مجھے پھر اغوا کرکے لے جانے کے لئے آئیں گے، کہ اس بار آپ کی وجہ سے میں بچ گیا اور انہوں نے اپنے دیوتا کے سامنے میری جو قربانی دینی تھی، وہ نہ دے سکے۔ اس طرح وہ دیوتا کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ جب تک مجھے قربان نہ کرلیں گے، انہیں چین نہیں آئے گا۔‘‘
میں اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہتا ’’اگر وہ آتے ہیں تو آنے دو.. ہم بھی انہیں خوب مزہ چکھائیں گے“
فرائیڈے کہتا ”ماسٹر، وہ بہت بڑی تعداد میں آئیں گے۔ بھلا ہم دو آدمی ایک فوج کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟‘‘
میں اسے بتا تا ’’فرائیڈے، اس جزیرے پر ہم دونوں ہی رہتے ہیں.. اس لئے مقابلہ بھی ہم دونوں کو ہی کرنا ہوگا۔ خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔‘‘
میری تسلیوں سے اس کا حوصلہ تو بندھتا لیکن پریشانی دور نہ ہوتی۔ اس کی یہ پریشانی بے جا بھی نہیں تھی ، اس لئے کہ وہ اپنے قبیلے کے لوگوں اور ان کی نفسیات کو مجھ سے بہتر جانتا تھا۔
بعض اتفاقات بہت ہی اہم ہوتے ہیں..
ایک دن میں اور فرائیڈے سمندر کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ میں نے دور ساحل کی ریت پر کسی بڑی سی چیز کو دیکھا۔ میں نے دور بین لگا کر دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے وہ کوئی توپ ہے۔
ہم بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچے تو واقعی وہاں ایک اوسط سائز کی بڑی توپ پڑی تھی۔ ایسی توپیں جنگی جہازوں کے عرشے پر لگی ہوتی ہیں۔ یہ توپ بھی لکڑی کے ایک بڑے تختے پر جڑی ہوئی، ایک طرف پہلو کے بل پڑی تھی. ہم دونوں نے زور لگا کر اسے سیدھا کیا۔ یہ ایک وزنی توپ تھی.
فرائیڈے پوچھنے لگا ”ماسٹر یہ کیا چیز ہے؟‘‘
اس نے اس سے پہلے کبھی کوئی توپ نہیں دیکھی تھی، اس لئے وہ بڑا حیران ہو رہا تھا، میں نے اسے بتایا کہ اسے توپ کہتے ہیں اور اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر اسے دشمن کی طرف اونچا کر کے چلایا جائے تو ایک ہی گولے سے بہت سے آدمیوں کے ٹکڑے اڑا دیتی ہے۔
توپ کی یہ خوبی سن کر وہ بہت خوش ہوا اور بولا ’’ماسٹر، دیوتا ہم پر بہت مہربان ہیں، اس لئے ہمیں دشمن کے مقابلے کے لئے توپ دے دی ہے“
میں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا، جس نے مشکل وقت میں ہمیں یہ توپ عنایت کر دی تھی.. واقعی ہمیں اس کی بہت ضرورت تھی.
میں سوچنے لگا کہ یہ توپ کہاں سے آئی ہوگی… میرے خیال میں یہ توپ جنگی جہاز کی تھی، جسے سمندری ڈاکوؤں نے سمندر میں ڈبو دیا ہوگا۔ چونکہ یہ توپ لکڑی کے تختے پر نصب تھی، اس لئے سمندر کی تیز لہریں اسے ابھار کر سطح سمندر پر لے آئی ہونگی.. اور پھر اسے بہا کر سمندر کے کنارے پر پھینک گئی تھیں..
اب مسئلہ یہ تھا کہ ہم اس توپ کو کیبن تک کیسے لے کر جائیں.. جس جگہ یہ توپ تھی، وہاں سے ہمارا کیبن جنگل کے کنارے سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر تھا۔ اور توپ اتنی بھاری تھی کہ ہم اسے اٹھا کر وہاں نہیں لے جا سکتے تھے۔ البتہ اسے گھسیٹ کر وہاں تک پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی تھی، وہ بھی اس صورت میں کہ اس کے نیچے کسی درخت کے تنے کو رکھا جائے۔
ہم دونوں کلہاڑے سے ایک درخت کاٹنے لگے۔ درخت کاٹنے کے بعد اسے سرکاتے ہوئے ہم توپ کے پاس لائے۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے توپ کو تنے کے اوپر رکھنے میں کامیاب ہوئے ۔ پھر اسے گھسیٹتے ہوئے کیبن کی طرف بڑھے..
جب توپ کیبن میں آ گئی تو ہم نے گھاس اور بکری کی کھال کے چمڑے سے توپ کو صاف کرنا شروع کیا۔ دو پہر تک ہم نے توپ کو چمکا کر رکھ دیا.. میرے ذہن میں ایک بات آئی ۔ ہم اگر اس توپ کا رخ ایک طرف ہی رکھتے تو اس توپ سے دشمن کے خلاف پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا کیونکہ دشمن دوسری طرف سے حملہ کر سکتا تھا۔ ضروری تھا کہ توپ کو اس طرح نصب کیا جائے کہ اس کا کا رخ ہر سمت میں موڑا جا سکے ۔ جب یہ بات میں نے فرائیڈے کو بتائی تو وہ کہنے لگا۔
’’ماسٹر، مگر ایسا کس طر ح ہو گا؟‘‘
میں خود بھی سوچ رہا تھا.. میں نے ذہن پر زور دیا، کئی ترکیبیں سوچیں.. آ خرکار اس کا حل میرے ذہن میں آ ہی گیا
”فرائیڈے ایسا کرو، ہمارے پاس بکریوں کی جتنی کھالیں پڑی ہیں، انہیں کاٹ کر جوڑ کر ایک مضبوط لمبا رسہ تیار کرو…“
فرائیڈے نے حیرت سے پوچھا ”ماسٹر، چمڑے کا رسہ کس لئے؟‘‘
” تم بس ساری کھالیں نکال لاؤ… پھر دیکھو کیا ہوتا ہے..“
ہمارے پاس بکریوں اور بکروں کی جتنی کھالیں تھیں۔ فرائیڈے انہیں نکال کر باہر لے آیا۔ ہم نے کھالوں کو لمبائی کے رخ سے کاٹنا شروع کیا۔ پھر ان کے لمبے باریک فیتے سے بنائے۔ اس کے بعد ان سب کو آپس میں جوڑ دیا اور مروڑ کر ایک لمبا رسہ تیار کیا۔
اس رسے کو میں نے فرائیڈے کے ساتھ مل کر توپ کے دونوں پہیوں کے درمیان میں ڈالا۔ پھر اسے اوپر کے درخت کی ایک بڑی ٹہنی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا ۔ اس کے بعد ہم دونوں نے مل کر دونوں طرف سے رسے میں لکڑی ڈال کر اسے بل دینا شروع کیا ۔ نتیجہ وہی نکلا جو میرے ذہن میں تھا۔
توپ زمین سے کم ازکم دو فٹ اونچی اٹھ گئی اور جھولنے لگی۔ اب ہم جس طرف چاہتے، اسے موڑ سکتے تھے۔ اور ہم نے ایسا کر کے بھی کئی بار دیکھا ۔ ہمارا تجربہ کامیاب رہا تھا۔
اب ساری بات فرائیڈے کی سمجھ میں بھی آ گئی، وہ خوشی سے بولا
”واہ ماسٹر، کمال کر دیا..! اب ہم توپ کا رخ جدھر چاہیں گے، موڑ سکیں گے اور دشمن کو ہر طرف سے نشانہ بنایا جا سکے گا۔“
کیبن سے بارود اور لوہے کی گولیوں کی بوری باہر لانے کے بعد ہم نے توپ کے قریب ایک گڑھا کھودا۔ بوریاں اس میں رکھ کر اوپر جھاڑیاں رکھ دیں۔ احتیاط کے طور پر میں نے وہاں پتھر بھی رکھوائے تا کہ اگر دشمن کے حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے بارود اور گولیاں ختم ہو جائیں تو پتھر ڈال کر توپ داغتے رہیں۔
یہ سب کچھ کرتے ہوئے کئی بار میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ ساری تیاری بےکار جائے گی، کیونکہ میرے خیال میں ایک تو اب آدم خور ادھر آنے کی جرات ہی نہیں کر سکتے تھے اور اگر وہ کوشش بھی کرتے تو زیادہ آدم خور نہیں آ سکتے تھے ۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ رات کو تھوڑی سی تعداد میں چھپ کر آئیں گے اور کارروائی کریں گے.. اور ہم ان سے توپ کے بغیر بھی آسانی سے نمٹ سکتے تھے۔ بہرحال رات کو میں اور فرائیڈے باری باری پہرہ دیتے رہے..
پندرہ دن اورگز ر گئے..
جب دشمن کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہوا تو میں نے رات کو پہرہ دینا چھوڑ دیا ۔فرائیڈے مجھے خبردار کرتا رہا کہ انہوں نے اچانک حملہ کر دیا تو……. مگر میں لاپرواہی کا اظہار کرتا رہا۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہی نہیں تھا کہ آدم خور کسی بڑے حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ ان کے اتنے آدمی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں اور وہ پستول اور بندوق سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ دوبارہ ادھر کا رخ کرنے کی جرات ہی نہیں کریں گے….
مگر…. ایک روز بلکل اچانک ہم پر آدم خوروں نے حملہ کر دیا….
(جاری ہے)
- روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) پندرہویں قسط
- روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) پہلی قسط