انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کے سابق وزیر اعظم اور سبز انقلاب تحریک کے رہ نما میر حسین موسوی پر 1988ع کے موسم گرما میں ایرانی جیلوں میں ہونے والے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا ہے
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایمنسٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ 16 اگست 1988ع کو ایران میں سیاسی بنیادوں پر موت کے گھاٹ اتارے جانے والے قیدیوں کے بارے میں اعدادو شمار جمع کرنے کے لئے ہونے والی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ میر حسین موسوی بھی قیدیوں کے قتل عام میں ملوث تھے
یاد رہے موسوی بعد میں ایران کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 1988ع کے جولائی، اگست اور ستمبر میں ایران کی جیلوں میں ہزاروں قیدیوں کو ماورائے عدالت بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا
انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق میر حسین موسوی اور ان کی حکومت نے آغاز میں جھوٹا موقف اختیار کرتے ہوئے سرے سے قیدیوں کے قتل عام کے واقعے سے انکار کر دیا تھا
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1988ع کے موسم گرما میں ایرانی جیلوں میں قید پانچ ہزار سے زائد مارکسی لیننسٹ پیپلز فریڈم ، کمیونسٹ تودہ پارٹی اور مائو کی پیروکار پیکار تنظیم کے ارکان سمیت اہوازی عربوں، ترکوں اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ قیدیوں کے اہل خانہ نے اپنے پیاروں کی ٹھکانوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی کوشش کی، مگر انہیں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
لواحقین کی طرف سے جیلوں میں قیدیوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی عہدیداروں کو مکتوب بھی ارسال کیے گئے۔ تاہم حکومت نے نہ تو ان قیدیوں کے بارے میں ان کے خاندانوں کو کسی قسم کی معلومات فراہم کیں اور نہ قتل عام کا سلسلہ روکا
ایمنسٹی نے ایرانی جیل میں اپنے شوہر اور بھائی کو کھو دینے والی عصمت طالبی کی گواہی ریکارڈ کی۔ اس نے بتایا کہ اسے یاد ہے کہ ایک بار جولائی کے آخر میں یا اگست کے شروع میں وزیر اعظم ہائوس میں ایک گمنام اہلکار نے انہیں کہا کہ بائیں بازوں کے قیدیوں کے اہل خانہ فکر نہ کریں، تمام قیدی محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ مجاھدین خلق جیسا برتاؤ کیا جائے گا
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ اس نے 16 اگست 1988 کو فوری کارروائی کا پہلا بیان جاری کیا جس میں ایرانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ایرانی سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ عبدالکریم موسوی اردبیلی اور وزیر انصاف حسن ابراہیم حبیبی سے قیدیوں کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے اور دوسرے ملکوں کے سفارت کاروں کو اس بارے میں آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ حقائق زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں کی بنیاد پر مبنی ہیں، جنہوں نے 16 اگست 1988 تک ملک بھر میں ہزاروں قیدیوں اور حکومت مخالف عناصر کو ماورائے عدالت قتل عام ہوتے دیکھا تھا۔