رئیس کریم بخش نظامانی

لیاقت راجپر

قیام پاکستان سے قبل سندھ کی شخصیات میں ایک بڑا نام رئیس کریم بخش نظامانی کا ہے، جو خواص وعوام میں یکساں مقبول تھے۔ انھیں سندھی ادب، تہذیب وتمدن سے حد درجہ پیار تھا۔ سندھ کے رسم و رواج اور روایت سے انھیں بے انتہا محبت اور لگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تمام زندگی سندھی زبان و ادب اور کلچر کے لیے وقف کردی اور اس کے صلے میں عوام سے ’بابائے ثقافت‘ کا خطاب پایا۔

انھیں گفتگو کے فن پر حد درجہ کمال حاصل تھا۔ جو ان سے ملتا، وہ ان کا عمر بھر کے لیے گرویدہ ہو جاتا۔ لوگ ان کے پاس آ کر ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے تھے، اکثر ان کی باتوں میں پوری رات بیت جاتی تھی اور پتا بھی نہیں چلتا تھا۔ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے اور ان کی دوستی میں ہر عمر کے افراد شامل تھے۔ ان کی اوطاق پر آنے کے بعد کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں رہتا تھا اور آنے والے ان کی اوطاق میں آکر فخر اور اچھا محسوس کرتے تھے۔ انھیں اپنے کلچر اور موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا، لوگوں کو اپنے پاس بلا کر ان سے کچہری کرنا، ان کے مسائل حل کرنا اور ضرورت مند کے کام آنا بڑا پسند تھا۔

کریم بخش 1903 میں ضلع بدین کے شہر ماتلی میں رئیس غلام محمد نظامانی کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد اپنے قبیلے کے نیک، شریف اور سخی انسان تھے۔ رئیس کریم بخش کی گفتگو میں ایک مٹھاس ہوتی تھی، اور جب وہ کسی موضوع پر بولتے تھے تو لوگ انھیں سن کر پتھر کے بت بن جاتے، جیسے انھیں مسمرائز کردیا گیا ہو۔ وہ بولتے جاتے اور لوگ سنتے جاتے اور وقت کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کی گفتگو کا محور زیادہ تر تاریخ، تہذیب، تمدن، جیوگرافی اور کلچر ہوتا تھا، جس میں صرف سندھ مرکز تھا۔ لوک کہانیاں، لوک گیت، لوک موسیقی، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور ان کی شاعری، سندھی کہاوتیں، پہیلیاں ہوتی تھیں۔ ان کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ شخص ذہین بھی تھا اور مدبر بھی جس نے اپنی اوطاق کو ایک تدریسی انسٹیٹیوٹ بنایا ہوا تھا۔

کریم بخش کو کلاسیکل موسیقی کے بارے میں بڑی جانکاری حاصل تھی، معروف گویے ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، جنھیں سن کر انھیں کئی چیزوں کے بارے میں گائیڈ بھی کرتے۔ سر اور تال پر اچھی نالج ہونے کی وجہ سے گانے والے استاد خاص طور پر ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کی اوطاق میں جب بھی لوگ جاتے تھے تو وہاں پر ساری رات قوال، گویے، مسخرے، سگھڑ اور کھیل کھیلنے والوں کا ایک ہجوم رہتا تھا اور ان کا لنگر چوبیس گھنٹے چلتا رہتا تھا، جہاں پر ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ آیا کرتے تھے جس میں سیاستدان بھی شامل تھے۔ یہ دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ ان لوگوں کا یہ اوطاق دوسرا گھر ہے۔

متعدد معروف شخصیات میں بندہ علی تالپر، جام صادق علی، محمد ایوب کھوڑو، سائیں جی ایم سید، سر غلام حسین ہدایت اللہ، قاضی فضل اللہ، اللہ بخش سومرو، میر غلام علی خان تالپر، جام انور علی خان اکثر آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر حیدرآباد کے ٹالپر فیملی سے ان کے بڑے قریبی اور اچھے تعلقات تھے اور جام صادق تو کریم بخش کی بڑی عزت کرتے تھے اور انھیں انکل کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کے علاوہ میر رسول بخش تالپر اور میر علی احمد تالپر بھی انھیں پسند کرتے تھے۔ سندھ کی دیگر نامور شخصیات ان کی دوستی کے دائرے میں شامل تھیں۔

رئیس کریم بخش کی ذہانت کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو، کامریڈ حیدر بخش جتوئی بھی ان کے پاس کچہری کرنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ سمن سرکار جو ایک پیر بھی ہیں، جب زندہ تھے تو وہ ان سے ملنے آتے تھے اور کریم بخش سے بہت کچھ سیکھنے کو انھیں ملا۔ موسیقی سے بے حد لگاؤ کی وجہ سے انھوں نے ماتلی شہر میں ایک خوبصورت سینما تعمیر کروایا، جس کا نام انھوں نے Picture Nest رکھا جو ان کے گھر کے بالکل قریب تھا۔ اس سینما کا افتتاح نیو میجسٹک سینما حیدرآباد کے مالک لالہ نورالدین نے کیا تھا۔ اس سینما کے افتتاح کے موقع پر فلم اسٹار علاؤ الدین، حسین شاہ فاضلانی، مصطفیٰ قریشی، اداکارہ بہار نے بھی شرکت کی تھی، یہ سینما اب بند ہوچکا ہے۔ انھوں نے اپنے گھر کا نام بھی My Nest رکھا تھا۔ کہتے اس کی بھی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے ایک پارک دارالامان کے نام سے بنایا تھا جس کی موجودہ حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

رئیس کریم بخش نے اپنی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ہے ’کیئی کتاب‘ جس میں انھوں نے کوئی بات نہیں چھپائی اور بہت سارے سچ لکھ ڈالے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ تو چھپ گیا تھا مگر کتاب کا دوسرا والیوم نہیں چھپ سکا، جسے ان کے بیٹے رئیس علی رضا کو چھپوانا چاہیے تھا، جو ٹاؤن کمیٹی ماتلی کے چیئرمین بھی تھے۔

وہ انصاف پسند تھے، ان کے فیصلے ہمیشہ بروقت ہوتے تھے اور لوگ ان فیصلوں کو قبول کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رئیس کبھی بھی کسی کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ رئیس نے اپنے وقت میں ماتلی شہرکو ترقی دی اور شہری سہولیات بڑے پیمانے پر دیں۔

ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور انھوں نے جو بھی مشاہدے اور تجربات کیے ان سے بہت کچھ سیکھا اور اس کی بنیاد پر اپنی زندگی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں بہت Travelling کی ، ان کے ساتھ سمن سرکار بھی ساتھ ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں آئی ہوئی خوشیوں اور غموں سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کے بنائے ہوئے پارک میں اب بھی لوگ آتے ہیں اور خاص طور پر مسافر جو درختوں کے سائے میں بیٹھ کر کچھ دیر کے لیے سانس لیتے ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور جاتے ہوئے رئیس کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔

وہ اس دنیا فانی سے 31 دسمبر 1983 اور 1 جنوری 1984 کی درمیانی رات کوچ کر گئے۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close